Getty Images
انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے کامیاب تجربے کا ان دنوں طبی دنیا میں بہت چرچا ہے۔
سات سال کی تحقیق کے بعد تیار کیے جانے والے ریورسیبل (یا جسے واپس ٹھیک کیا جا سکے) مردانہ مانع حمل انجیکشن کی کلینیکل آزمائش مکمل ہوئی ہے اور اب اس انجیکشن کے استعمال کی منظوری دی گئی ہے۔
آئی سی ایم آر کا دعویٰ ہے کہ اس انجیکشن کے کوئی سنگین منفی اثرات نہیں ہیں اور یہ بہت مؤثر ہے۔ اس کے تیسرے کلینیکل ٹرائل کے نتائج گذشتہ ماہ معروف میڈیکل جرنل اینڈرولوجی میں شائع ہوئے تھے۔ اس انجیکشن کو ’ریورسیبل انہیبیشن آف سپرم انڈر گائیڈینس‘ (آر آئی ایس یو جی) کہا جاتا ہے۔ اسے منظور ہونے سے پہلے تین مراحل سے گزرنا پڑا تھا۔
اس کے تجربے میں پانچ مختلف شہروں یعنی دلی، ادھم پور، لدھیانہ، جے پور اور کھڑگپور کے لوگوں کو شامل کیا گیا تھا۔ اس تجربے میں 25 سے 40 سال کی عمر کے 303 صحت مند، جنسی طور پر فعال شادی شدہ مرد اور ان کی جنسی طور پر متحرک بیویاں شامل تھیں۔
فیملی پلاننگ اینڈ یورولوجی ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کرنے کے بعد ہی ان جوڑوں کو ٹرائل میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ جوڑے سرجری کے بغیر نس بندی کروانا چاہتے تھے یعنی انھیں ویسکٹومی یا سکیلپل ویسکٹومی کی ضرورت تھی۔ آسان الفاظ میں کہیں تو ان جوڑوں کو اب مزید بچوں کی ضرورت نہیں تھی۔
ان تجربات کے دوران مردوں کو ڈاکٹروں کی نگرانی میں 60 ملی گرام والا انجیکشن لگایا گیا۔
تجربے کا نتیجہ
آئی سی ایم آر نے اپنی تحقیق اور آزمائشی تجربوں یہ میں پایا کہ آر آئی ایس یو جی مردوں اور عورتوں کے لیے بنائی گئی اب تک کی تمام مانع حمل ادویات میں سب سے زیادہ مؤثر ہے اور اس کے کوئی سنگین مضر اثرات نہیں ہیں۔
تحقیق سے پتا چلا کہ یہ ایزوسپرمیا کا ہدف حاصل کرنے کے لیے آر آئی ایس یو جی 97.3 فیصد تک کامیاب رہی جبکہ حمل کے ٹھہرنے کو روکنے میں یہ عمل 99.02 فیصد مؤثر رہا ہے۔
ایزوسپرمیا سے مراد سپرم کے اخراج میں رکاوٹ ہے۔ انجیکشن لگنے کے بعد یہ مردوں میں تقریباً 13 سال تک موثر رہتا ہے۔ اس سے حمل کو روکنے میں مدد ملے گی۔
Getty Images
جبکہ دوسرے طریقے یعنی کنڈوم اور کمبائنڈ اورل مانع حمل گولیاں (OCP) ایک محدود مدت کے لیے مانع حمل کے طور پر کام کرتی ہیں۔
جبکہ کاپر-ٹی کو طویل عرصے تک کام کرنے کے لیے جانا جاتا ہے اور ویسکٹومی، سرجری کے ذریعے مستقل نس بندی کا ایک طریقہ ہے۔
تبدیلی کے دور کی ابتدا
ماہرین کا کہنا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کا دباؤ معاشرے میں ہمیشہ خواتین پر رہا ہے۔ ان کے مطابق مانع حمل گولیوں نے خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی کی آزادی دی ہے۔ لیکن بعد میں اس کی مکمل ذمہ داری بھی ان پر آن پڑنے لگی، آج بھی اکثر خواتین اس ذمہ داری کو نبھا رہی ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ مردوں کے لیے مانع حمل ادویات نہیں ہیں۔ گولیوں کے علاوہ کنڈوم بھی ہیں لیکن اگر ہم اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو ان کی استعمال کی شرح کم ہے۔
2019-21 کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق 10 میں سے 0.5 فیصد سے بھی کم مرد کنڈوم استعمال کرتے ہیں اور ایسے میں معاشرے میں خواتین کی نس بندی کی شرح زیادہ ہے۔
اگرچہ مردانہ نس بندی محفوظ اور آسان ہے لیکن اس کے باوجود اس کی شرح کم ہے۔
Getty Images
سروے میں مردوں کی سوچ بھی سامنے آئی ہے۔ ریاست اتر پردیش، تلنگانہ اور بہار میں 50 فیصد مردوں نے کہا کہ نس بندی خواتین کا کام ہے اور مردوں کو اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔
ڈاکٹروں کے مطابق مانع حمل ادویات کے حوالے سے مردوں میں بہت سے ابہام پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سوچ یہ ہے کہ کنڈوم جنسی لذت کو کم کرتے ہیں۔ اسی طرح نس بندی کے معاملے میں انھیں یہ خدشہ رہتا ہے کہ اس سے ان کا جسم کمزور ہو جاتا ہے اور ان میں مردانہ طاقت کم ہو جائے گی۔
فیڈریشن آف اوبسٹریٹرک اینڈ گائناکولوجیکل سوسائٹیز آف انڈیا کی صدر ڈاکٹر ایس شانتا کماری کہتی ہیں کہ انڈین معاشرے میں مردانہ نس بندی کے بارے میں بہت سے ابہام اور غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ’بچہ پیدا نہ کر پانے کو مرد اپنی مردانگی پر سوال مانتے ہیں جس کی وجہ سے سارا دباؤ خواتین پر پڑتا ہے۔‘
Getty Images
'انسٹی ٹیوٹ فار واٹ ورکس ٹو ایڈوانس جینڈر ایکوالیٹی‘ (آئی ڈبلیو ڈبلیو اے جی ای) کی ریسرچ فیلو بدیشا مونڈل نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈیا میں خواتین کی سب سے زیادہ نس بندی کی جاتی ہے۔
ایک سرکاری ایجنسی ہیلتھ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بدیشا کہتی ہیں کہ مردوں کے مقابلے خواتین میں نس بندی کی شرح 93 فیصد زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مانع حمل ادویات کی تاریخ بھی مردوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے اتنی ہی ذمہ دار ہے۔
سنہ 1975 میں جبری نس بندی نے مردوں میں خوف پیدا کر دیا تھا۔ اس وجہ سے سماجی سطح پر اسے برا سمجھا جانے لگا۔ اسی نس بندی کو ان کی مردانگی سے منسلک کیا گیا، مردوں کو لگتا ہے کہ نس بندی ان کی مردانہ صلاحیت کو ختم کر دے گی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سائنسز کے سربراہ ایس پی سنگھ نے کہا کہ ہمارے پاس اس تحقیق اور آئی سی ایم آر کے کلینیکل ٹرائل کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ ’صرف وقت ہی بتائے گا کہ مانع حمل انجیکشن انڈیا کی آبادی کو کنٹرول کرنے میں کتنے کارآمد ثابت ہوں گے کیونکہ اب یہ معاملہ قابو سے باہر ہو چکا ہے۔‘
https://youtu.be/ggdvXUw1wcA?si=nD4Rh1_w1nwweDMm
کیا مرد اس کے لیے تیار ہیں؟
وسیع پیمانے پر قبولیت حاصل کرنا مردوں کے مانع حمل انجیکشن کا سب سے اہم چیلنج ہوگا۔ اس سلسلے میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا مرد اسے لگوانے کے لیے تیار ہیں، اگر تیار ہیں تو کتنے اسے لگانے کے لیے تیار ہیں؟
جب بی بی سی نے ایم بی بی ایس گریجویٹ اور دہلی کے اے آئی آئی ایمسے تربیت یافتہ شویتنگ سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ مرد اب بھی پدرشاہی خیالات رکھتے ہیں۔
ان کے مطابق وہ کسی بھی نس بندی کو اپنی مردانہ ذہنیت سے جوڑتے ہیں۔ مردوں کو نس بندی کے بارے میں آگاہ کرنا اور تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ’حکومت کو اس کی تعمیری انداز میں تشہیر کرنی چاہیے۔‘
جب میں نے دہلی کے بیگم پورہ علاقے کے ایک نوجوان کو انجیکشن کے بارے میں بتایا تو اس نے کہا ’اولاد پیدا کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے پر قائم رہنے کے لیے 13 سال کی مدت بہت طویل مدت ہے۔‘
Getty Images
دوسری جانب لکھنؤ کے نوجوانوں کو یہ انجیکشن محفوظ نہیں لگتے۔ ظاہر ہے مستقبل میں انڈیا کی حکومت کی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کو اس انجیکشن کے بارے میں عوامی مہم چلانی ہوگی کیونکہ مردوں میں نس بندی سے متعلق غلط فہمیوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
انھیں آگاہ کیا جائے گا کہ خاندانی منصوبہ بندی میں مرد اور عورت دونوں کو شامل ہونا چاہیے۔ مردانہ نس بندی آسان اور محفوظ ہے لیکن خواتین کی نس بندی میں بہت سے مسائل ہیں اور یہ ان کی صحت کے لیے خطرناک بھی ہے۔
انھیں نس بندی سے اندرونی خون بہنے اور کئی قسم کے درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا وزن بھی بڑھ جاتا ہے۔ یقین ہے کہ اس انجیکشن کی وجہ سے خواتین کو ان تمام مسائل سے نجات مل جائے گی۔