Getty Imagesانڈیا کے کوٹہ میں کوچنگ مراکز میں سے ایک کے کلاس روم کے اندرکا منظر
طلبا میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے باعث شمالی انڈیا کے شہر کوٹہ کے کوچنگ سینٹر کو سخت ضابطوں کا سامنا ہے۔
بی بی سی ہندی کے ونیت کھرے نے ایسے طلبا سے بات کی جنھوں نے بڑے کالجوں کے داخلہ ٹیسٹ پاس کرنے کی غرض سے کوٹہ شہر سے ٹیوشن حاصل کی۔
ان سے بات کر کے یہ معلوم ہوا کہ زیر تعلیم طلبا کی اکثریت ٹیسٹ میں کامیاب ہونے کے لیے شدید دباؤ کا سامنا کرتی ہے۔
21 سال کے وجے (فرضی نام) تین بار میڈیکل کالج کے داخلہ ٹیسٹ میں فیل ہوئے۔ انھیں امید تھی کہ انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان کہ شہر کوٹہ کے ایک مہنگے کوچنگ سینٹر میں جانے اور ٹیوشن لینے سے وہ ٹیسٹ میں کامیاب ہو جائیں گے۔
بہت سارے دیگر طلبا کی طرح وجے کوٹہ کو ایسی جگہ تصور کر رہے تھے جہاں خواب حقیقت میں بدلتے ہیں۔
اس شہر میں ہر طرف آپ کو ایسے بِل بورڈز اور اشتہار نظر آتے ہیں جن پر کامیاب ہونے والے طلبا کی تصویرں، نام اور پوزیشنز لکھی نظر آتی ہیں۔
دو لاکھ سے زیادہ طلبا اس شہر میں پڑھنے کے لیے آتے ہیں اور وہ یہاں ہاسٹلز میں یا نجی رہائش گاہوں میں رہتے ہیں۔ ان طلبا میں کچھ کی عمر 13 سال کی ہوتی ہے۔
یہ شہر ان تعلیمی اداروں کی وجہ سے کافی مشہور ہے جہاں نوجوانوں کو میڈیکل اور انجینیئرنگ کالجز کے انتہائی مسابقتی امتحانات کی تیاری کروائی جاتی ہے۔ یہاں 12 بڑے جبکہ کم از کم 50 چھوٹے کوچنگ سینٹرز ہیں۔
فخر، دباؤ اور اضطراب
ان بڑے کالجوں میں داخلہ ہونا انڈین والدین کے لیے باعث فخر چیز ہے جبکہ ناکامی بالکل پسند نہیں کی جاتی ہے۔ یہ ادارے ایک سال کے ایک ہزار سے 1200 امریکی ڈالر تک فیس لیتے ہیں جو بہت سے گھرانوں کے لیے بہت مہنگا سودا ہے۔
لیکن کسی اچھے کالج میں داخلے کا مطلب ہے کہ مستقبل میں اچھی تنخواہ والی نوکری اس کامیاب طالب علم کے لیے پکی سمجھیں۔
وجے کے گھر والے دیہی علاقے میں رہتے ہیں اور ان کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ان کے والد ایک کسان ہیں اور ان کے والدین کے مایوس ہونے کا خوف ان کے ذہن پر بہت زیادہ بوجھ ڈالتا تھا۔
وہ یہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنے والدین سے اپنے ٹیسٹ کے خراب نتائج کے بارے میں جھوٹ بولتا تھا۔‘
Getty Imagesکوٹہ میں انفرادی طلبا کے نتائج بل بورڈز پرلگائے جاتے ہیں
وہ مجھے بتاتے ہیں کہ ایک ایسا وقت آیا جب بڑھتی ہوئی بے چینی کی وجہ سے انھیں سر اور سینے میں درد شروع ہونے لگا تھا اور دوسری دفعہ امتحانات میں ناکامی کے بعد وہ اپنی جان لینے کے بہت قریب تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے محسوس ہوا کہ میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا۔‘
’میں نے اپنے والدین کے پیسے ضائع کیے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس ’صورتحال نے خودکشی کے خیالات پیدا کیے لیکن میں نے ان خیالات کو اپنے تک محدود رکھا۔‘
وجے کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے بالی وڈ سٹار دیپیکا پڈوکون کو اپنے ڈپریشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔
اداکارہ نے کُھل کر اس بارے میں بات کی کہ کس طرح زیادہ کام کرنے کی اکثر تعریف کی جاتی ہے اور دماغی صحت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ان کے کُھلے پن نے وجے کو طبی مدد حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ وجے کا اب نفسیاتی علاج ہو رہا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ وہ ہر دن اس سب سے باہر آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وجے کے علاوہ دوسرے طلبا نے بھی مجھے اکیلے رہنے کی مشکلات، والدین کی توقعات، ساتھیوں کی طرف سے دباؤ، سخت مقابلہکرنے اور دن میں 14-14 گھنٹے پڑھنے کے بارے میں بتایا۔
پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ 10 سالوں میں کوٹہ میں 100 سے زیادہ طلبا اپنی جانیں لے چکے ہیں جن میں رواں سال کم از کم 25 طلبا شامل ہیں، یہ ایک سال میں اب تک کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
ان خودکشیوں میں سے ایک میرے شہر کے دورے کے دوران ہوئی۔ وہ ایک 15 سالہ لڑکی تھی، یہ واضح نہیں ہے کہ اس نے اپنی جان کیوں لی۔ اس لڑکی کے والدین نے اس کی موت کی خبر ملنے کے بعد کوٹہ کی طرف سفر کرتے ہوئے مجھ سے فون پر بات کی۔
انھوں نے بتایا کہ ’اس نے کبھی بھی پڑھائی سے متعلق کسی پریشانی کا ہم سے ذکر نہیں کیا۔ لیکن اس نے کوٹہ میں طالب علم کی خودکشی کے بارے میں بات کی۔۔۔ میں نے اس سے کہا کہ اس کے بجائے اپنی پڑھائی پر توجہ دے۔‘
BBCہری شنکر کا کہنا ہے کہ خودکشی حل نہیں ہے
ایک مقامی اخباردی ہندوستان ٹائمز کی جانب سے حکومتی اعداد و شمار کے تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کوٹہ میں 2023 میں زیادہ تر طالب علموں کی خودکشی میں 18 سال سے کم عمر کے لڑکے میڈیکل ٹیسٹ کی تیاری کر رہے تھے، جو زیادہ تر انڈیا کے شمال کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے کم آمدنی والے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔
آدرش راج کا تعلق ایک کاشتکار خاندان سے تھا اور وہ کوٹہ میں پڑھتے تھے۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتے تھے لیکن اگست میں 18 سال کی عمر میں انھوں نے اپنی جان لے لی۔ ان کا خاندان شدید صدمے میں ہے۔
ان کے چچا ہری شنکر نے مجھے بتایا کہ ’ہم نے اس پر دباؤ نہیں ڈالا۔ ہمیں لگتا ہے کہ اس کے ٹیسٹ میں کم نمبر اس کے ڈپریشن کا باعث بنے، جس کی وجہ سے اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا لیکن خودکشی مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘
ضابطہ، ہیلپ لائنز اور دماغی صحت کی ورکشاپس
کوٹہ میں طلبا میں خودکشی کے واقعات میں حالیہ اضافے کی وجہ سے راجستھان کی ریاستی حکومت نے ان کوچنگ اداروں کے لیے سخت قوانین کا اعلان کیا ہے۔
29 ستمبر کو حکومت نے گائیڈلائنز جاری کیں جن میں نویں جماعت (14 سال کی عمر کے طالب علم) سے نچلی جماعتوں کے داخلوں کی حوصلہ افزائی نہ کرنا اور ٹیسٹ کے نتائج کو عام نہ کرنا شامل ہے۔
ذہنی صحت کی ورکشاپس اور طلبا کے لیے پروگراموں کو بھی زیادہ اہمیت دی جائے گی۔ سٹوڈنٹ سپورٹ ہیلپ لائن کی تشہیر کے لیے مزید پوسٹرز لگانے کو یقینی بنانے کی کوششیں بھی جاری ہے۔
BBCطالب علم ارنب انوراگ ڈاکٹر بننا چاہتے ہیںکورونا کی وبائی بیماری اور تنہائی
عالمی ادارہ صحت نے خودکشی کو عالمی سطح پر 15 سے 29 سال کی عمر کے افراد میں موت کی چوتھی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں سنہ 2021 میں 13 ہزار سے زیادہ طلبا نے خود کو ہلاک کیا، جو سنہ 2020 کے مقابلے میں 4.5 فیصد زیادہ ہے۔
ایک ٹیچر نے مجھے بتایا کہ کوچنگ سینٹر میں کلاس میں بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے، 300 تک، اور بعض اوقات اساتذہ کو اپنے شاگردوں کے انفرادی نام بھی معلوم نہیں ہوتے، جس سے بچے تنہائی محسوس کر سکتے ہیں۔
کورونا وبائی بیماری اور متعدد لاک ڈاؤن کا بھی بڑا اثر ہوا ہے۔
انڈیا کے معروف کوچنگ سینٹرز موشن ایجوکیشن میں سے ایک کے مینجنگ ڈائریکٹر نتن وجے نے مجھے بتایا کہ ’کووڈ کے بعد کے طلبا میں ذہنی تناؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت پہلے سے کم ہے۔‘
لیکن وہ اصرار کرتے ہیں کہ ’اس میں وقت کے ساتھ بہتری آئے گی۔‘
BBCکوٹہ کے وگیان نگر علاقے میں ارنب انوراگ کی رہائش
کئی دہائیوں سے تعلیم کے میدان میں کام کرنے والی ارمل بخشی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ وبائی امراض نے طلبا کی اپنے ساتھیوں اور اساتذہ کے ساتھ بات چیت کرنے کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔ لیکن وہ موجودہ صورتحال کے لیے کوٹہ میں کوچنگ کی کمرشلائزیشن کو بھی ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کلاسوں میں سینکڑوں طلبا ہوتے ہیں۔ اساتذہ کو ان کے نام تک نہیں معلوم ہوتے۔ ایک بچہ دوست بنانے سے قاصر ہوتا ہے، اسے ڈر ہوتا ہے کہ دوسرا طالب علم اس کی پڑھنے کی حکمت عملی جان کر اس سے آگے نہ بڑھ جائے۔ بچہ اکیلا رہ جاتا ہے۔‘
کوٹہ میں 3500 سے زیادہ ہاسٹل اور ہزاروں پرائیویٹ کرائے کی جگہیں ہیں جہاں طلبا رہ سکتے ہیں۔ یہ شہر کی معیشت کا بہت بڑا حصہ ہے۔
میں نے کوٹہ کے وگیان نگر علاقے میں ملنے والی رہائش کی اقسام پر ایک نظر ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ ایک غیر روشن راستہ سیڑھیوں کی طرف جاتا ہے جو مجھے ایک طالب علم کے دوسری منزل کے فلیٹ تک لے جاتا ہے۔
میں خستہ حال کمرے میں اپنا راستہ بناتا ہوں جس کے ساتھ ہی ایک بیت الخلا بھی ہے۔ یہاں 18 سال کے ارنب انوراگ رہتے ہیں جو ڈاکٹر بننے کے لیے وہاں آئے ہیں۔ انھیں بچپن سے ہی ڈاکٹر بننے کا شوق ہے۔
کچھ کتابیں شیلف پر رکھی ہوئی ہیں اور زیادہ بستر پر بکھری ہوئی ہیں۔ ایک طرف لیپ ٹاپ اور دوسری طرف ایئر کولر ہے۔ دروازے کے پچھلے حصے پر کپڑے ٹنگے ہوئے ہیں اور پریاڈک ٹیبل کا پوسٹر دیوار پر لٹکا ہوا ہے۔
انوراگ تسلیم کرتے ہیں کہ ’یہاں دم گھٹ رہا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’لیکن ایک بار جب میں امتحان پاس کر لیتا ہوں، تو میں یہاں سے جا سکتا ہوں اور اعلان کر سکتا ہوں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں میں نے پڑھا تھا۔‘
نئی ہدایات میں ہاسٹلز کے وارڈنز اور طلبا کی رہائش کے دیگر عملے کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور انسٹیٹیوٹ مینیجرز کے لیے لازمی تربیت شامل ہے۔
ان میں مشکل حالات کا سامنا کرتے طلبا کے لیے ’آسانی سے نکلنے اور رقم کی واپسی کی پالیسی‘ کا انتظام بھی شامل ہے۔
لیکن وجے کی رائے میں، ایک مکمل کلچرل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بچوں کو ان کے شوق کی پیروی کرنے دیں۔‘
انھوں نے کہا ’والدین کو اپنے بچوں کو بتانا چاہیے کہ انجینیئرنگ اور میڈیسن سے آگے بھی ایک دنیا ہے۔ بچے کی زندگی کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہے۔‘