’مجھے اغواکرنے والے جنگجو موٹر سائیکل پر بٹھا کے لے گئے۔ ہمیں غزہ میں زیر زمین ایک سرنگ میں رکھا گیا جہاں ہم زمین پر بچھائے گئے گدوں پر سوتے تھے۔ وہاں گارڈز اور طبی عملہ موجود ہوتا تھا جبکہ ایک ڈاکٹر بھی ہر دوسرے، تیسرے دن یرغمالیوں کے چیک اپ کے لیے آتا تھا۔‘
85 سالہ يوشويد لیفشتس ان دو خواتین یرغمالیوں میں شامل ہیں جنھیںگذشتہ روز حماس کی جانب سے رہا کیا گیا ہے۔ حماس کی قید کے دوران اُن پرکیا بیتی، عمر رسیدہ يوشويد اس کی تفصیل اپنی بیٹی کے ہمراہ تل ابیب میں کی جانے والی پریس کانفرنس میں بتا رہی تھیں۔
’مجھے میرے گھر سے (سات اکتوبر کو) حماس کے بندوق بردار جنگجوؤں نے اغوا کیا اور موٹر سائیکل پر بٹھا کر غزہ لے گئے۔ اس سفر میں مجھے کئی جگہ چوٹیں بھی آئیں اور مجھ سے سانس بھی مشکل سے لیا جا رہا تھا۔‘
حماس سے گذشتہ رات رہائی پانے کے بعد سے يوشويد تل ابیب کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں اور انھوں نے ہسپتال سے ہی پریس کانفرنس میں اپنی قید کے دنوں کی روداد سنائی۔ اس پریس کانفرنس میں ان کے ساتھ ان کی بیٹیبھی موجود رہیں جواپنی والدہ کی باتوں کا ترجمہ کر رہی تھیں۔
يوشويد نے مزید بتایا کہ ’ہمیں سرنگوں میں رکھا گیا جہاں ہمیں کھانے کے لیے سفید پنیراور ککڑی دی گئی۔ اوریہ وہی کھانا تھا جو ہمیں اغوا کرنے والے جنگجو بھی کھاتے تھے۔‘
واضح رہے کہسات اکتوبر کو اسرائیلی شہروں پر حملے کے نتیجے میں جہاں 1400 کے لگ بھگ اسرائیلی ہلاک ہوئے وہیں اسرائیلی فوج کے مطابق جنگجو 200 سے زائدافراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ بھی لے گئے تھے۔
حماس کے حملوں کے جواب میں اسرائیلی فضائیہ کی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 5800 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد بچوں اور عورتوں کی بھی ہے۔
’ہم قرآن پر یقین رکھتے ہیں، آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہو گی‘
يوشويد نے پریس کانفرس میں حماس کی قید کے دنوں سے متعلقجنگجوؤں کے رویے سے متعلق بھی تفصیل سے بتایا۔
ان کے مطابق جن 24 دیگرلوگوں کے ساتھ انھیں سرنگوں میں لے جایا گیا وہاں کا فرش نرم اور گیلا تھا۔
’وہاں پہنچنے پر جب موٹر سائیکل سے اُتارا گیا تو ہمارا استقبال کرنے والوں نے کہا ہم قرآن پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے آپ لوگوں کو یہاں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔‘
’ان لوگوں نے قید کے دوران ہر باریکی کا خیال رکھا یہاں تک کے خواتین کی نسوانی صحت سے متعلق باریکیوں کو بھی مد نظر رکھا گیا تھا۔‘
’دو یا تین گھنٹے کے بعد انھوں نے اغوا کیے گئے پانچ افراد کو ایک علیحدہکمرے میں رکھا۔‘
’مکڑی کے جالے‘ جیسا زیر زمین سرنگوں کا بڑا نیٹ ورک
يوشويد نے حماس کے زیر انتظام زیر زمین سرنگوں کے ایک ’بڑے نیٹ ورک‘ کی وضاحت اسے مکڑی کے جالےسے تشبیہ دے کر کی۔
ہسپتال میں پریس کانفرنس کے دوران عمر رسیدہ یوشيفيد کی بیٹی شیرون والدہکے ساتھ رہیں اور انھوں نےتمام گفتگو کا ترجمہ کیا۔
اسی دورانان کا کہنا تھا کہ جب والدہ کویرغمال بنایا گیا تو غزہ لے جانے کے دوران اغوا کاروں نے ان کی گھڑی اور زیورات اتار دیے۔
شیرون کے مطابق ’والدہ کے جسم پر زخم دراصل چھڑی سے مارنے کے نشانات ہیں تاہم والدہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر یرغمالیوں کو انھوں نے بہت خیال کے ساتھ رکھا۔‘
شیرون نے مزید کہا کہ اغوا کار ان کی عمر رسیدہ والدہ کوگیلی زمین پر بھیچند کلومیٹر پیدل چلاتے ہوئے لے گئے۔
يوشويد کو تو سوموار کے روز حماسکے جنگجوؤں سے رہائی مل گئی لیکن اُن کے شوہر ابھی تک حماس کے پاسقید ہیں۔
يوشويد نےاپنی پریس کانفرنس کے دوران اسرائیل پر بھی تنقید کی۔
انھوں نے کہا کہ ’(اسرائیلی) حکومت نے سرحدی باڑ پر اربوں روپے خرچ کیے لیکنپھر بھی حماس کو پیش رفت سے روک نہ سکے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ میں جہنم سے گزر کر آئی ہوں۔‘
رخصت ہوتے وقت بندوق بردار جنگجو سے مصافحہ
دوسری جانب حماس نےاسرائیلی خاتون يوشويد کی رہائی کے وقت کی ایک 11 سیکنڈ کی مختصر ویڈیو بھی جاری کی ہے جو اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔
اس ویڈیو کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جس وقت انھیں رہا کیا جا رہا تھا تو ریڈ کراس کے اہلکاروں کے ساتھ جاتے وقت يوشويد پیچھے مڑتی ہیں اور بندوق بردار جنگجو کی جانب مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتی ہیں۔
ویڈیو کلپ میں نظر آتا ہے کہ يوشويد کا بڑھا ہوا ہاتھ وہ جنگجو تھامتا ہے اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے احتراماً ان سے ہاتھ ملاتا ہے اورپھر انھیں رخصت کرتا ہے۔
واضح رہے کہاسرائیل نے سوموار کے روز 222 شہری حماس کی جانب سےیرغمال بنائے جانے کی تصدیق کی تھی تاہم اس کے بعد دو بزرگ خواتین کو رہاکیا گیا۔ اس سے قبل بھی دو امریکی شہریوں (ماں بیٹی) کو رہا کیا گیا تھا۔
اسرائیل نے مصر اور ریڈ کراسکی معاونتمیں ’اہم کردار‘ ادا کرنے کے لیے کے لیے ان کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
دوسری جانب حماس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے انسانیت کے ناطے اور صحت کے پیش نظر يوشويد اور ان کے ساتھ ایک اور بزرگ اسرائیلی خاتون کو رہا کیا ہے۔
اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے ایک بیان میں کہا کہ ان کی رہائی کے بعد انھیں تل ابیب کے ایک ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں خاندان کے افراد ان کا انتظار کر رہے تھے۔