ثمر باغ کے ہنرمند نوجوان: ’مزدوری مجبوری ہے اور جمناسٹکس میرا جنون‘

بی بی سی اردو  |  Oct 22, 2023

BBC

’میں دن کے وقت مزدوری کرتا ہوں جو میری مجبوری ہے اور شام کے وقت جمناسٹکس کے لیے جاتا ہوں جو میرا جنون ہے۔‘

یہ کہنا ہے خیبر پختونخوا کے علاقے ثمر باغ کے نوجوان سجاد کا جو دن میں ایک بلاک فیکٹری میں مزدوری کے بعد شام کو جمناسٹکس کلب جاتے ہیں۔

اس علاقے میں صرف ایک سجاد ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ اور بھی مزدور بچے جمناسٹکس کے شوقین ہیں۔

18 سالہ سجاد کے جسم میں اتنی لچک ہے کہ وہ بغیر کسی جمپنگ فلور یا فوم کی مدد کے زمین پر اکھاڑا بنا کر ٹرپل جمپ لگاتے ہیں۔

ہر دن مزدوری کے دوران انھیں بھاری سیمنٹ اور بجری کا مکسچر بلاکس میں ڈالنا پڑتا ہے۔ مگر شام کو وہ اپنا شوق پورا کرنے دریا کے کنارے جمناسٹکس کی پریکٹس کرتے ہیں۔

ان کے ساتھ لگ بھگ 40 دیگر لڑکے روزانہ شام کو اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہو کر دریا کے کنارے جمناسٹک کی پریکٹس کرتے ہیں۔

ثمر باغ ضلع لوئر دیر کا وہ علاقہ ہے جو ماضی میں شدت پسندی کا شکار رہا ہے۔

BBCثمر باغ میں جمناسٹکس کون لایا؟

کسی بھی کھیل کا شوق ہو تو اس کے لیے راستے بن ہی جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر سجاد کی ایک ایسی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ ڈبل سمر سالٹ اور ٹرپل ٹوئسٹ جمپ میں اپنی مہارت دکھاتے ہیں۔ اس ویڈیو کے بارے میں معلوم کیا تو بتایا گیا کہ یہ ثمر باغ کے نوجوان ہیں جنھوں نے ایک جمناسٹکس کلب بنایا ہے۔

ضلع لوئر دیر اور قبائلی ضلع باجوڑ کی سرحد پر واقع تحصیل ثمر باغ میں ایک نوجوان ثنا اللہ عرف ٹائیگر نے پشاور میں دوران تعلیم جمناسٹکس کی تربیت حاصل کی تھی اور قومی سطح پر مقابلوں میں حصہ بھی لیا تھا۔

ثنا اللہ جب واپس آئے تو انھوں نے ثمر باغ میں جمناسٹکس کلب بنایا اور اس میں 40 کے قریب لڑکوں نے شمولیت اختیار کی۔

ثنا اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ثمر باغ میں بیشتر لوگ غریب ہیں، وہ کھیل کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ ’اس لیے ہم جمناسٹکس کے پانچ میں سے صرف ایک کرتب پر ہی توجہ دے سکتے ہیں اور وہ فلور جمناسٹک ہے۔ اس کے لیے بھی ہمارے پاس کوئی سہولت نہیں، جیسے کہ جمپنگ فلور یا فوم وغیرہ۔‘

’بس ہم نے خود ہی دریا کے کنارے زمین پر اکھاڑہ بنایا ہے جس پر ہم جمپ لگاتے ہیں۔‘

ثنا اللہ نے بتایا کہ ’میں نے کلب کھولنے کے لیے پہلے والد سے اجازت لی، پھر کچھ لڑکے ملے جو جمناسٹکس کا شوق رکھتے تھے۔۔۔ اپنی مدد آپ کے تحت کام کیا اور جگہ کرائے پر لی، وہاں پریکٹس شروع کر دی۔‘

جب وہ پشاور میں جمناسٹکس سیکھ رہے تھے تو ’دل میں یہ خیال آتا تھا کہ ثمر باغ میں باقی لڑکے بھی اس طرف آئیں اور اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ بیشتر علاقوں میں بیروزگاری کی وجہ سے نوجوان نشے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ میرا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ بچوں کو نشے سے بچا سکوں۔‘

اس کلب کے بیشتر لڑکے مزدوری کرتے ہیں، چند ایک تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو کوئی فیس وغیرہ بھی نہیں دے سکتے۔

ثنا اللہ نے بتایا کہ انھوں نے پشاور میں بھی کھلاڑی دیکھے ہیں لیکن ’جو ٹیلنٹ یہاں ثمر باغ کے ان لڑکوں میں ہے، وہ کہیں اور نہیں۔ یہاں بس ان لڑکوں کو کوئی سہولت حاصل نہیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ لڑکے باقی چار کرتب نہیں کر پاتے، جیسے ڈبل سمر سالٹ یا ٹرپل ٹوئسٹ۔ ’اس میں لینڈنگ میں کم ہی لوگ مہارت حاصل کر پاتے ہیں۔ سجاد اس میں ماہر ہے لیکن سارا دن مزدوری کرنے کے بعد جب یہاں پریکٹس کے لیے آتا ہے تو اس میں توانائی نہیں ہوتی، وہ جسم پر زور لگاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جمناسٹکس کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ یہاں یہ مزدور بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے ملتی ہے۔‘

’ٹی وی پر جمناسٹکس دیکھ کر گھر میں خود سے کرنے لگا‘ BBC

سوشل میڈیا پر سجاد کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ان سے ملنے کا شوق پیدا ہوا تو ہم لوئر دیر کے علاقے ثمر باغ پہنچ گئے۔

جمناسٹکس کلب ایک چھوٹے سے ہال میں قائم کیا گیا ہے جو ایک چھوٹی مارکیٹ میں واقع ہے۔ اس کلب میں چھوٹے بچوں سے لے کر 20 سال تک کے لڑکے پریکٹس کرتے ہیں۔

سجاد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے والد وفات پا چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ صرف چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کر سکے۔ ’چھ بھائی اور چار بہنوں میں سے صرف ایک بھائی سکول جاتا ہے، باقی سب کوئی نہ کوئی مزدوری کرتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جمناسٹکس کا شوق تو بچپن سے ہی تھا۔ گھر میں کچھ نہ کچھ کرتب کرتا رہتا تھا۔ ایک دن ٹی وی پر جمناسٹکس دیکھ کر مجھے حوصلہ ملا اور میں اسے توجہ سے دیکھنے لگا۔‘

وہ ٹی وی میں دکھائی جانے والی جمناسٹکس خود گھر میں کرنے لگے۔ ’ایک دن دوست نے بتایا کہ یہاں ایک جمناسٹکس کلب بنا ہے وہاں جا کر دیکھو۔ اس کلب میں جب آیا تو ثنا اللہ سے ملاقات ہوئی اور یہاں انھوں نے میری تربیت کی۔ اس کے بعد میں یہ مشکل ڈبل سمرسالٹ اور ٹرپل ٹوئسٹ جمپ سیکھ گیا۔ میری کوشش ہے کہ اس کھیل میں اپنا نام پیدا کروں اور اگر میری طرف توجہ دی گئی تو مجھے یقین ہے کہ میں بہت اچھی کارکردگی دکھا سکتا ہوں۔‘

انھیں صبح پانچ بجے سے دوپہر ایک بجے تک بلاک فیکٹری میں کام کے سات سو روپے یومیہ ملتے ہیں جو وہ گھر دیتے ہیں۔

کلب میں شامل عطا الرحمان اور بلال کو یقین ہے کہ اگر انتظامیہ کی طرف سے انھیں سہولیات فراہم کی جائیں تو ثمر باغ سے اچھے کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔

BBC’کھلاڑی وسائل کی کمی کی وجہ سے عالمی مقابلوں میں شرکت نہیں کر پاتے‘

پاکستان میں مختلف کھیلوں کے ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو ہنر میں کسی سے کم نہیں لیکن ان کے پاس نہ تو سہولیات ہیں اور نہ ہی انھیں مواقع مل رہے ہیں۔

سنوکر، جیولن تھرو، کراٹے، بیڈ منٹن اور دیگر کھیلوں میں ایسے کھلاڑی آئے جنھوں نے اپنے طور پر محنت کی اور دنیا میں نام پیدا کیا۔

پشاور میں حیات آباد سپورٹس کمپلیکس کے انچارج شاہ فیصل نے بی بی سی کو بتایا کہ ثمر باغ کے ان کھلاڑیوں کو چاہیے کہ وہ خود کو مقامی طور پر انتطامیہ، سپورٹس ایسوسی ایشن اور سپورٹس افسر کے پاس رجسٹرڈ کرائیں اور تاکہ انھیں بنیادی ضروریات فراہم کی جا سکیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس طرح کے بہت سے کھلاڑی سامنے آئے ہیں جو مزدوری کے ساتھ کھیلوں میں نام پیدا کرتے ہیں۔

شاہ فیصل نے بتایا کہ پشاور کے جہانگیر پورہ کے علاقے میں ’چپلیاں بنانے والے اسماعیل نے کوششیں کیں اور انھیں یہاں سہولیات فراہم کی گئیں تو انھوں نے قومی سطح پر گولڈ میڈلز حاصل کیے۔ اس کے بعد واپڈا نے انھیں روزگار دیا۔‘

ان کے مطابق صرف حکومت کچھ نہیں کر سکتی جب تکہ کہ نجی سطح پر ادارے ان کھلاڑیوں کو سپورٹ نہیں کرتے۔ ’ایسے کھلاڑی یہاں آئے ہیں جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کے لیے منتخب ہو جاتے ہیں لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ آگے نہیں جا سکتے اور نہ ہی ان کھلاڑیوں کے خاندان اتنے امیر ہیں کہ انھیں ٹکٹ فراہم کر سکیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More