BBC
انڈین ریاست راجستھان میں کوالٹی انجینیئر کے طور پر کام کرنے والی شازیہ بٹ جب نوکری چھوڑ کر کشمیر واپس پہنچیں تو والدین کو نہیں بتایا کہ وہ اب وادی میں ہی فیشن پروموٹر کے طور کام کرنا چاہتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’اُن کو لگا میں چھٹی پر آئی ہوں لیکن جب مجھے کام ہی نہیں ملا تو انھیں پتا چل گیا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ لڑکی پاگل ہو گئی ہے، دن بھر فون اور کیمرا لے کر آوارہ گردی کرتی ہے۔‘
لیکن آج شازیہ انسٹاگرام اور سوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارمز پر مختلف برانڈز کی پرموٹر ہیں۔ ’اچھی خاصی کمائی بھی ہو رہی ہے، اور لوگ عزت بھی کرتے ہیں، اب میرے والدین کہتے ہیں کہ انھیں مجھ پر فخر ہے۔‘
شروعات میں شازیہ جیسی لڑکیوں کو اس لیے مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ یہاں برانڈ پروموشن کی روایت نہیں تھی۔ شازیہ کہتی ہیں کہ ’وہ لوگ مجھے کہتے کہ سکرین پر آنے کا موقع ہی کافی ہے، پیسے ہم نہیں دیں گے، وہ لوگ درجنوں لڑکیوں سے مفت کام کرواتے تھے۔‘
لیکن بعد میں شازیہ نے انسٹاگرام کے ذریعے چند برانڈز کی پروموشن کی تو ان کا کام پسند کیا گیا اور انھیں باقائدہ آفرز آنے لگیں۔
یوں تو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں خواتین کی بڑی تعداد خودمختار ہے اور خواتین تقریباً زندگی کے ہر شعبے خاص طور پر صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کافی سرگرم ہیں لیکن فیشن انڈسٹری میں لڑکیوں کی اینٹری کشمیری سماجکے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔
انتیس سالہ شازیہ کہتی ہیں کہ ’میری پوسٹس پر ہر طرح کے کمنٹ آتے ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں میں پاگل ہوں، کچھ لوگ کہتے ہیں خاندان کا نام خراب ہو رہا ہے، لیکن میں ان کمنٹس پر دھیان نہیں دیتی، میرے خواب بہت بڑے ہیں، اور میں انھیں پورا کر کے ہی رہوں گی۔‘
BBC
سوشل میڈیا پر بعض حلقوں کے شدید ردعمل کی وجہ سے شازیہ جیسی لڑکیوں کا اپنے پروفیشن میں ڈٹے رہنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’گھر سے نکلتے وقت بہت ساری چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ہمیں سیفٹی کا مسئلہ بھی ہوتا ہے۔ دیکھنا پڑتا ہے کہ جس کیمرا مین کے ساتھ ہیں اس کا بیک گراؤنڈ کیا ہے، کس جگہ شوٹنگ ہونی ہے، وہاں لوگ جمع تو نہیں ہوں گے اور کس برانڈ کا پروموشن ہے، اُس کی ریپوٹیشن کیا ہے۔‘
شازیہ کہتی ہیں کہ معاشرہ ابھی فیشن انڈسٹری کو لڑکیوں کے روزگار کے طور پر دیکھ نہیں پا رہا ہے۔
ان کے مطابق ’لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ یہ ہمارا روزگار ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ مائنڈ سیٹ جلدی تبدیل ہو جائے گا۔‘
تیس سالہ صبا شفیع اس وقت نہایت مقبول میک اپ آرٹسٹ ہیں۔ یہاں تک کا سفر ان کے لیے بھی مشکلات سے پُر رہا ہے۔ وہ دس سال قبل چھٹیوں کے لیے لندن گئی تھیں جہاں وہ خالی وقت گزارنے کے لیے میک اپ کلاسز میں شامل ہوئیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں انڈیا واپس آئی تو مجھے لگا دلی میں کام کر کے مزید تجربہ حاصل کرنا ضروری ہے۔
’میں نے وہاں بڑے ویڈنگ پلانرز کے ساتھ کام کیا اور میک اپ خاص طور پر دلہن کے میک اپ میں میری دلچسپی بڑھ گئی۔‘
کشمیر لوٹنے پر صبا نے پہلے اپنی کچھ کزنز کی شادی پر اُن کا میک اپ کیا اور ساتھ ہی انسٹاگرام پر پیج بنا لیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے لگا کہ یہ تو اچھی بات ہے، جس چیز میں میری دلچسپی ہے وہی میرا روزگار بھی بنے گا۔‘
BBC
لیکن سوشل میڈیا پر انھیں بھی لوگوں کی تلخ تنقید کا سامنا رہا۔ ’مجھے بتایا گیا کہ اچھے خاندان کی لڑکیاں یہ کام نہیں کر سکتیں۔ یہاں اکثر لوگوں کا ایک قدامت پسند مائنڈ سیٹ ہے۔ لڑکی اگر والدین سے میک اپ کے لیے پیسے مانگے تو اُس کو ڈانٹ پڑتی ہے، خود کو سنوارنا ایک گناہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن میں نے اس مائنڈ سیٹ کو کسی حد تک تبدیل کیا ہے۔‘
سنہ 2019 کے اگست میں جب جموں کشمیر کی نیم خودمختاری کو ختم کیا گیا تو عوامی ردعمل کو دبانے کے لیے کئی ماہ تک انٹرنیٹ اور ٹیلی فون بند کیے گئے۔ صبا ایک سال سے یہ کام کر رہی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ ’میرا سارا کام ای میل پر ہوتا ہے۔ بُکِنگ ای میل پر آتی ہے اور دلہن کا پتہ بھی۔ میں صبح کی فلائٹ سے دلی جا کر ایئر پورٹ پر ای میل چیک کرتی تھی اور شام کی فلائٹ سے واپس آ کر دلہن کے گھر کی طرف روانہ ہوتی تھی۔ خُدا نہ کرے وہ وقت پھر آئے لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔‘
سوشل میڈیا پر جب صبا اُن دلہنوں کی تصویریں پوسٹ کرتی ہیں جن کا انھوں نے میک اپ کیا ہوتا ہے، تو لوگ اس پر بھی اُن کا مذاق اُڑاتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’سوشل میڈیا پر جو لوگ سرگرم ہوتے ہیں ان میں سے اکثر حساس نہیں ہوتے۔ کبھی دلہن کو موٹی اور کبھی اسے عمر رسیدہ کہتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو بلاک کر دیتی ہوں، کیونکہ میں منفی رویوں کو بہت دیر تک برداشت چکی ہوں۔‘
صبا کہتی ہیں کہ میک اپ انڈسٹری کے لیے کشمیر میں ایک وسیع مارکیٹ ہے اور یہاں ہنر کی بھی کمی نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں تو دوسری لڑکیوں کو بھی میک اپ کے گُر سِکھاتی ہوں، کیونکہ لڑکیاں سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے ہنر کا مظاہرہ کر کے خود روزگار کما سکتی ہیں۔
’میں تو چاہتی ہوں کو حکومت کالجوں کے نصاب میں میک اپ سٹڈیز کو شامل کرے تاکہ اس صنعت کو بڑھاوا بھی ملے اور یہاں کی خواتین خود روزگار بھی کمائیں اور آزاد بھی ہوں۔‘