وہ قسمت کا ایک جھونکا تھا جو مجھے فروری کی ایک دوپہر میگھالیہ کے نارتیانگ کے ایک پتھریلے علاقے میں لے گیا۔
ایک دہائی یا اس سے کچھ پہلے تک انڈیا کا یہ شمال مشرقی حصہ عام طور پر مسافروں کے لیے بہت دور دراز کا علاقہ سمجھا جاتا تھا لیکن آج یہ ملک میں سیاحوں کی سب سے پسندیدہ مقامات میں سے ایک ہے۔ اب یہاں سیاحوں کا اس قدر ہجوم ہوتا ہے کہ اکثر ٹریفک جام کی بے مثال صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی اس دن دوپہر کو ہوا تھا۔
ہم اپنے اہلِخانہ کے ساتھ ریاستی دارالحکومت شیلانگ سے چیراپونجی کے لیے ایک دن کے سفر پر نکلے تھے۔ چیرا پونجی کو کرۂ ارض پر سب سے زیادہ بارش برسنے والے مقامات میں سے ایک کے طور جانا جاتا ہے۔ تاہم گاڑیوں کی سانپ جیسی لمبی قطار بہت سست رفتاری کے ساتھ انچ بہ انچ بڑھ رہی تھی۔
وہاں دوسرے سیاحتی مقامات جیسے داوکی اور مالننونگ جانے والوں کی بھی بھیڑ تھی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ہمارے صبر کا امتحان لیا جا رہا تھا۔ چار گھنٹے سے زیادہ ٹریفک میں پھنسے رہنے کے بعد دن کا جو کچھ حصہ بچا تھا اس کا فائدہ اٹھانے کی آخری کوشش کے طور پر یہ مشورہ دیا گیا کہ شہر کو ہی لوٹ چلیں۔
ہم نے آن لائن شیلانگ کے آس پاس قابل دید مقامات کی تلاش شروع کر دی۔ ان میں سے زیادہ تر جانے پہچانے تھے لیکن پھر ایک انجان سا لیکن دلچسپ نام سامنے آيا۔
اس میں کسی نے ذکر کیا تھا کہ ’پراسرار یک سنگی کے لیے نارتیانگ کا دورہ کریں۔‘
اس کی زیادہ تفصیلات نہیں تھیں بس لمبے کھڑے پتھروں کی ایک پُرسکون نظر آنے والی تصویر کے ساتھ ’پراسرار‘ کا لفظ لکھا ہوا تھا۔
پھر گوگل میپ ہمارے بچاؤ کے لیے آیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ یہ جگہ شیلانگ کے جنوب میں بمشکل دو گھنٹے کی مسافت پر ہے اور راستہ بھی ٹریفک سے خالی ہے۔
اس طرح ہم نارتیانگ کے دیوہیکل مونولیتھس یعنی یک سنگیوں کے پاس کھڑے تھے۔ اگرچہ اسی طرح کے گرینائٹ کے بلاک سے سیدھے ستونوں یا افقی سلیبوں میں تراشے گئے ڈھانچے پورے میگھالیہ میں مختلف مقامات پر پائے جاتے ہیں لیکن نارتیانگ وہ علاقہ ہے جہاں یہ سب سے زیادہ گھنے ہیں اور یہاں یہ سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔
جیسے ہی ہم اس مقام پر پہنچے تو ہم نے ایک چھوٹی پہاڑی پر ہر سائز کے کئی سو مونولتھس دیکھے، کچھ تو پڑے ہوئے تھے جبکہ کچھ لمبے اور بڑے درختوں کے ساتھ بلند قامتی کے ساتھ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کھڑے تھے۔ وہاں ایک قسم کی دائمی کہر کی چادر تنی تھی جس نے اس جگہ کی پراسراریت میں میں اضافہ کیا ہوا تھا۔
اس جگہ کے بارے میں بتانے کے لیے وہاں کوئی نہیں تھا۔ البتہ وہاں کچھ دھول آلود سائن بورڈ تھے۔ ان میں درج چند حقائق میں سے ایک نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔
اس میں لکھا تھا کہ ’سب سے لمبا پتھر آٹھ میٹر اونچا اور 18 انچ موٹا ہے اور جینتیا لوک کہانی کے مطابق مار پھالینگکی نامی ایک دیو نے اسے کھڑا کیا تھا۔'
میرا تجسس بڑھنے لگا اور میں پتھروں کے بارے میں مزید جاننے کا خواہشمند تھا۔ لیکن ملحقہ پارک میں فٹ بال کھیلنے والے بچوں کے ایک گروپ کے علاوہ وہاں کوئی اور نہیں تھا۔
بہر حال اس دن شام کو میں گاؤں کے ایک بزرگ خاتون سے ملا۔ ان کا نام ماریو سمبلائی تھا اور انھوں نے مجھے یک سنگی کی کہانی سنائی جو زبانی طور پر نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔
ماریو سمبلائی نے کہا کہ ’پہلے نارتیانگ میں کوئی بازار نہیں تھا اور قریب ترین بازار ریلیانگ میں تھا۔ ایسے ہی بازار کے ایک دن مار پھلانگکی نامی جینتیا دیو واپس جاتے ہوئے موسلا دھار بارش میں پھنس گیا۔
اس نے بارش سے بچنے کے لیے رالیانگ کے سربراہ کی سب سے چھوٹی بیٹی سے چھتری مانگی لیکن اس نے چھتری دینے کے بجائے اس کی افسانوی طاقت کو جانچنا چاہا۔
اس نے چڑھاتے ہوئے کہا کہ ’تم بازار میں اس بڑے پتھر کو اٹھا کر چھتری کے طور پر استعمال کیوں نہیں کر لیتے؟ اس کے چیلنج کو قبول کر کے اس نے ایسا ہی کیا لیکن نارتیانگ پہنچنے سے پہلے بارش رک گئی تو اس نے اس پتھر کو جنگل میں پٹخ دیا۔‘
سمبلائی نے جو قصہ سنایا وہ میرے غیر مانوس کانوں کو حقیقت سے زیادہ فسانہ لگا۔ میرے چہرے پر غیر یقینی کے تاثرات کو دیکھتے ہوئے انھوں نے کہا: 'ہمارے آباؤ اجداد آج کے اوسط پانچ فٹ کچھ انچ کے میگھالیہ کے آدمی نہیں تھے، وہ اس وقت کافی دیو قامت ہوتے تھے۔ مار پھلانگکی کا قد سات فٹ لمبا تھا مارس (ایک اعزازی لقب جو مضبوط، طاقتور اور ایماندار سیاستدانوں کو دیا جاتا تھا) کا ایک سئیم (سردار) تھا۔'
پھر میں نے پوچھا کہ آخر ایک جگہ اتنے یک سنگی کیسے جمع ہو گئے؟ سمبلائی کے مطابق پتھر کے پاس سے گزرنے والے لوگ کسی بھرے پڑے بازار کی طرح کی آوازیں سن سکتے تھے۔
پھر یہ سمجھا گیا کہ یہ پتھر مقدس تھا اور اس لیے اس کے ارد گرد کے جنگل کو بازار بنانے کے لیے صاف کیا جائے۔
اس جگہ کو خوبصورت بنانے کے لیے اس طرح کے مزید یک سنگی یا اکہرے پتھر لائے گئے جس کے نتیجے میں آج یہاں ان کا ایک بڑا زخیرہ نظر آتا ہے۔
لوک کہانی نے واضح کیا کہ یہ قدیم یک سنگی طویل عرصے سے مقامی لوگوں کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ مزید جاننے کے شوق کے تحت میں نے جینتیا لوگوں اور پتھروں دونوں پر تحقیق شروع کی۔
جینتیا پور ریاست ایک مادر شاہی سلطنت تھی جو موجودہ بنگلہ دیش کے صوبہ سلہٹ سے لے کر میگھالیہ کی پہاڑیوں تک پھیلی ہوئی تھی، اور ان کے لوگوں کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ غیر معمولی طور پر لمبے اور مضبوط ہوا کرتے تھے۔
تاہم اس کے سرکاری شواہد موجود نہیں ہیں۔ اس کی ٹھنڈی آب و ہوا اور پہاڑیوں میں مثالی مقام کے پیش نظر، نارتیانگ نے جینتیا پور سلطنت کے موسم گرما کے دارالحکومت کے طور پر کام کیا اور خیال کیا جاتا ہے کہ یک سنگی 1500 عیسوی اور 1835 عیسوی کے درمیان ان کے دور حکومت میں قائم کیے گئے تھے۔
بنارس ہندو یونیورسٹی میں قدیم ہندوستانی تاریخ و ثقافت اور آثار قدیمہ کے شعبہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ونے کمار کا کہنا ہے کہ میگھالیہ میں یک سنگی بشمول نارتیانگ کے یک سنگی ممکنہ طور پر میگالیتھک مقبروں کے طور پر کام کرتے ہوں گے۔
انھوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’میگھالیہ کے کھاسی اور جینتیا قبائل اور آسام کے ناگا مرنے والوں کے اعزاز میں اکہرے کھڑے پتھر یا پتھروں کی ترتیب تیار کرتے تھے۔‘
انھوں نے یہ باتیں دی ٹرائبل ٹریبیون میں لکھیں۔ یہ میگزین انڈیا کی قبائلی برادریوں پر مرکوز ایک آن لائن تعلیمی اشاعت ہے۔
برطانوی حکومت کے تحت 19ویں صدی کے اوائل میں مسیحی مذہب کی آمد سے پہلے زیادہ تر جینتیائی ہندو تھے، جس کا مطلب یہ تھا کہ ان کے مرنے والوں کی آخری رسومات کی جاتی تھیں۔
مسٹر کمار کا کہنا ہے کہ مرنے والے کی راکھ قبیلے کے افراد لے جاتے اور کھلی ایستادہ قبر میں جمع کرتے تھے جو سنگل پتھر کے بہت بڑے سلیبوں سے بنا ہوا تھا، جس میں سے کچھ کسی چھوٹے گھر کی طرح بڑے تھے۔
انھوں نے لکھا کہ وہ ڈھانچے آج بھی نارتیانگ، چیراپونجی، جوائی، ماوفلانگ اور لائلگ کوٹ کے یک سنگی زخائر کے طور پر موجود ہیں۔
چپٹے افقی پتھر یا ڈولمین عورتوں کے لیے تھے جبکہ سیدھے کھڑے پتھر یا منہر مردوں کے لیے تھے۔
تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے اور ٹریول کمپنی چلانے والے سیموئیل ساویان نے کہا کہ ’اس کے باوجود نارتیانگ کا معاملہ قدرے دلچسپ معاملہ ہے، کیونکہ اس بات کے ٹھوس شواہد نہیں ہیں کہ ان مونولتھوں کی اتنی کثیر تعداد ایک جگہ پر کیونکہ جمع ہوئی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ممکنہ طور پر، سب سے اونچا پتھر قبیلے کے کسی اہم شخص کے لیے کھڑا کیا گیا تھا اور باقی کو چند نسلوں میں دوسرے اراکین کے لیے شامل کر دیا گیا۔
’یہ جگہ رفتہ رفتہ ایک بازار بن گئی اور پتھر کے سلیبوں کو سامان کی نمائش اور فروخت کے لیے سٹال کے طور پر یا بیٹھنے اور آرام کرنے کے لیے ان کا استعمال کیا جانے لگا۔‘
نوآبادیاتی راج کی آمد کے ساتھ ریاستی بادشاہت اپنی طاقت کھونے لگی تاہم جینتیا معاشرے میں یک سنگی نے ایک اہم کردار ادا کرنا جاری رکھا۔
1800 کی دہائی کے اوائل میں بنگال میں اپنے قدم جمانے کے بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اپنی زمینی آمدنی کے علاقوں کو بڑھانے کے لیے بے چین تھی۔ انھوں نے مشرق میں دور دراز کے علاقوں کی تلاش شروع کی اور پھر سلہٹ میں جینتیا پور سلطنت تک پہنچ گئے۔ اس علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں میں انگریزوں نے 1835 میں جینتیا پور کے راجہ کو شمال کی پہاڑیوں میں جلاوطن کر دیا۔ انھوں نے وہیں سے اپنی سیاسی سرگرمی جاری رکھی۔
مؤرخ اور پلیسنگ دی فرنٹیئرز ان نارتھ ایسٹ انڈیا' کے مصنف ڈاکٹر ریجو رے نے کہا کہ 'نارتیانگ کی سیاسی اہمیت اس وقت بڑھ گئی جب جینتیا کے راجہ کو سلہٹ کے میدانی علاقوں میں اپنی نشست سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا گیا۔ اس وقت یک سنگی کے ساتھ علاقہ بھی مختلف سرگرمیوں، جیسے راجوں کی تاجپوشی یا عدالتی اور انتظامی امور پر میٹنگ کی جگہ کے لیے اہمیت اختیار کر گیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نارتیانگ یک سنگی کی کچھ سیاسی اہمیت بھی رہی ہوگی۔'
اگرچہ نارتیانگ کے مونولتھ کے گرد بنی لوک داستانیں پرکشش لگتی ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ ان ڈھانچے نے مختلف ادوار میں حقیقی مقاصد کی تکمیل بھی کی ہوگی۔
مسٹر رے نے کہا: 'نارتیانگ یک سنگی کے معاملے میں داستان اور یادداشت کا ایک خاص ملاپ ہے۔ مقامی لوگوں کا اس جگہ کے وجود میں آنے کی کہانی افسانوں یا لوک داستانوں پر مبنی ہے۔ لیکن وہ اسے اس مقصد کے لیے بھی یاد رکھتے ہیں کہ اس نے ایک ہفتہ وار بازار، ایک یادگار، سیاسی اجتماعات کی جگہ کے طور پر ان کے آباؤ اجداد کی خدمت کی تھی۔ زبانی تاریخ اس طرح کام کرتی ہے اور یہ حقیقت و فسانے کو اجتماعی یادداشت میں ضم کر دیتی ہے۔'
آج نارتیانگ کے مونولتھ یا یک سنگی کا کوئی مقصد نہیں سوائے اس کے کہ گزرے ہوئے زمانے کے عظیم آثار کے طور پر کھڑے ہیں۔ تفصیلی آثار قدیمہ کا کام ابھی تک اس جگہ کی صحیح وجہ اور کس طرح کا پتہ لگانے کے لیے کیا جانا باقی ہے۔ اگرچہ لوک داستانوں اور مزید ثابت شدہ تاریخی اکاؤنٹس سائٹ کے بارے میں کچھ بصیرت پیش کرتے ہیں، پتھر کے دیوؤں کا راز برقرار ہے۔