لوئی الفریڈو گاراویٹو کو ’حیوان‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس نام کی وجہ تقریباً 200 سے زیادہ بچوں کا گھناؤنا قتل تھا جس نے لوئی کو لاطینی امریکہ کا بدنام زمانہ سیریئل کلر بنا دیا تھا۔
جمعرات کو کولمبیا کے حکام نے اس بات کی تصدیق کی کہ سرطان اور لیوکیمیا سے متاثر ہونے کے بعد لوئی الفریڈو 66 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔
اسے کولمبیا کے شمال میں انتہائی سخت سکیورٹی جیل میں قید رکھا گیا تھا۔ لوئی کی موت سے اس کا شکار بننے والے بچوں کے اہلخانہ سمیت کولمبیا بھر کے شہریوں کی زندگی کا ایک تکلیف دہ اور درناک باب اپنے انجام کو پہنچا کیوں کہ ان سب کو اس بات کا خوف تھا کہ وہ جیل سے چھوٹ نہ جائے۔
لوئی کو سنہ 1999 میں قید کی سزا ہوئی تھی جس کا ابتدائی دورانیہ 1853 سال تھا۔ تاہم کولمبیا کے نظام انصاف میں عمر قید دینے کی اجازت نہیں اور لوئی کی حتمی سزا 40 سال کر دی گئی تھی۔
کولمبیا کے قانون میں یہ شق موجود ہے کہ قید کا تین چوتھائی حصہ کاٹنے کے بعد مجرمان کو رہا کیا جا سکتا ہے اور لوئی بھی اس قانون کے تحت رہا ہو سکتے تھے۔
یہ معاملہ کافی عرصہ کولمبیا میں زیر بحث رہا جس کے مرکزی نکتہ بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کرنے والے مجرمان کا مستقبل تھا جن کو طویل قید کی سزا سنائی جا چکی تھی۔ سنہ 2021 میں کولمبیا کی عدالت نے ان کے خلاف فیصلہ سنایا۔
قید کے دوران لوئی نے متعدد انٹرویو دیے جن میں اس سفاک قاتل کی شخصیت نظر آئی۔ ایک مشہور انٹرویو کولمبیا کے صحافی آرٹورو پریٹو کو 2006 میں دیا گیا تھا جس میں لوئی نے بچوں کا ریپ کرنے کے الزام کو رد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ جرائم کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس پر شیطان طاری ہو گیا تھا۔
سنہ 2016 میں لوئی نے ہسپانوی صحافی کو انٹرویو میں کہا کہ ’میں کسی اور شخص جیسا ہی ہوں جس میں کچھ خرابیاں ہیں لیکن ایسا نہیں کہ میں خطرناک ہوں۔‘
لوئی کا کہنا تھا کہ ’اہم بات یہ ہے کہ یہ سب ماضی ہو چکا ہے۔ مجھے کسی انسان سے معافی نہیں چاہیے لیکن ہاں، خدا سے معافی کا طلب گار ہوں۔‘
متعدد بار لوئی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بچپن میں اس کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی۔
لوئی کیسے پکڑا گیا؟
عدالت میں لوئی نے سات سال میں 140 بچوں کو اغوا کرنے کے بعد ان کا ریپ کرنے، تشدد کرنے اور انھیں قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ لوئی نے کولمبیا کے علاوہ ایکواڈور اور وینیزویلا میں بھی قتل کیے۔
تاہم پراسیکیوٹر کے مطابق لوئی نے 32 اور جرائم بھی کیے تھے۔
اس مقدمے کا آغاز 1998 میں اس وقت ہوا تھا جب نو سے 13 سال کی عمر کے تین بچوں کی تشدد زدہ لاشیں ملی تھیں۔
ایک سال بعد لوئی کو ایک دیہی علاقے سے گرفتار کر لیا گیا جب وہ ایک اور نابالغ بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش کر رہا تھا۔
حکام نے اس مقدمے کے لیے ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم بنائی جس نے آٹھ گھنٹے کی تفتیش کے بعد لوئی سے جرائم کا اعتراف کروا لیا۔
لوئی کا طریقہ کار
کسی نفسیاتی مریض جیسی شخصیت کا حامل لوئی اپنے جرائم کافی منظم انداز میں کرتا تھا۔
تفتیش کاروں کو علم ہوا کہ لوئی کبھی کسی راہب کا بھیس اپناتا تو بھی کسی بے گھر شخص کا اور کبھی معزور یا ریڑھی والا بن کر جرم کرتا۔
لوئی کا نشانہ بننے والے تقریبا تمام بچے مردانہ صنف سے تعلق رکھتے تھے اور آٹھ سے 14 سال کی عمر کے درمیان تھے جن کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا۔ لوئی ان بچوں سے پارک، کھیلوں کے میدان یا بس اڈوں پر تعلق قائم کرتا۔
پھر وہ ان بچوں کو پیسوں کا لالچ دیکر ویران مقام پر لے جا کر قتل کر دیتا۔ لوئی نے ایک نوٹ بک میں ہر اغوا ہونے والے بچے کا نام، عمر اور وہ مقام تحریر کیا ہوا تھا جہاں ان کو قتل کیا گیا تھا۔
لوئی کو جاننے والے جیل کے محافظ، صحافی اور عدالتی عملہ اس بات پر متفق ہیں کہ لوئی ایک شاطر شخص تھا جو اپنی مرضی سے شخصیت بدل لیتا تھا۔
رافائیل پوویڈا نے 2022 میں لوئی کا انٹرویو کیا تھا۔ ان کے مطابق ’ایسا لگتا تھا جیسے لوئی اپنی دائیں آنکھ سے، جو اس کی واحد فعال آنکھ تھی، کسی ایکس رے کی طرح آپ کے جسم کے اندر ہڈیوں تک دیکھ سکتا ہے۔‘