’چاند جیسا بنجر‘ جزیرہ جو چند برسوں میں ماحولیاتی بحالی کی عالمی مثال بنا

بی بی سی اردو  |  Oct 16, 2023

ایک چھوٹے کیریبئن جزیرے کی ناقابل یقین ماحولیاتی بحالی نے عالمی شہرت حاصل کی ہے۔ صرف چند سالوں میں ایک ویران چٹان کا جنگلی حیات کے لیے سرسبز پناہ گاہ میں تبدیل ہونا دنیا بھر کے ماحولیاتی ماہرین کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔

اینٹیگوا اور باربوڈا کے سخت باشندے جنھوں نے ملک میں تیسرے نمبر پر واقع غیر معروف جزیرے ریدوندا کے میٹامورفوسس کے عمل کو پایہ تکمیل پہنچایا اور اب وہ ایک اور اہم کارنامے کا جشن منا رہے ہیں۔

ایک کلومیٹر سے بھی چھوٹے علاقے کو ملک کی حکومت نے باضابطہ طور پر ایک پروٹیکٹڈ یعنی ’محفوظ علاقہ‘ قرار دیا ہے، جہاں پر کسی قسم کی تعمیرات اور کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتی ہیں۔ اس کا مقصد یہاں ہجرت کر کے آنے والے پرندوں اور نایاب انواع کا محفوظ مسکن اور پناہ گاہ بنانا ہے جو اور کہیں نہیں۔

ریدوندا ایکو سسٹم ریزرو، جو سمندری گھاس کے میدانوں اور ایک مرجان کی چٹان کو بھی گھیرے ہوئے ہے اس وقت 30,000 ہیکٹر پر پھیلا ہوا ہے۔

اس بڑے حجم کا مطلب ہے کہ ملک نے پہلے ہی اپنا 30x30 کا ہدف پورا کر لیا ہے، جو کہ سنہ 2030 تک کرہ ارض کے 30 فیصد حصے کو محفوظ بنانے کا عالمی ہدف ہے۔

اب اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ریدوندا حیاتیاتی تنوع سے بھرپور ہے۔ معدومیت کے خطرے سے دوچار درجنوں انواع، نایاب سمندری پرندے اور مقامی چھپکلیاں یہاں لوٹ آئی ہیں۔

ماضی کی غلطیوں کی اصلاح

لیکن ریدوندا ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ رینگنے والے جانوروں اور پرندوں کے انڈے کھانے والے کالے چوہوں اور ابتدائی آباد کاروں کے بکروں نے اس جزیرے کے پودوں کو تباہ کر دیا تھا۔ یہ جزیرہ چاند کی بنجر سطح جیسا نظر آنے لگا تھا۔

بکروں کو کہیں اور منتقل کرنے اور چوہوں کے خاتمے کے لیے سنہ 2016 میں شروع کیے گئے ایک خاص منصوبے نے پھر سے اس جزیرے کو سرسبز کر دیا، جس کی وجہ سے مقامی انواع میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔

اس منصوبے کو غیر سرکاری تنظیم انوائرمنٹل اویئرنس گروپ (ای اے جی) نے حکومت اور غیرملکی پارٹنرز جیسے فاؤنا اور فلورا انٹرنیشنل کے تعاون سے پروان چڑھایا۔

اس این جی او کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر آریکا ہل نے زون کی نئی حیثیت کو ’اینٹیگوا اور باربوڈا کے باشندوں کے لیے ایک عظیم فتح‘ قرار دیا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ مشرقی کیریبئن کا سب سے بڑا سمندری تحفظ والا علاقہ ہے اور یہ وہ ناقابل یقین کام دکھاتا ہے جو تحفظ پسند اور ماہرین ماحولیات کر سکتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے قانونی طور پر اس کام کے لیے ہم پر اعتماد کیا ہے۔‘

اس گروہ نے کئی سال قبل ریدوندا میں پائی جانے والی متعدد انواع کو دوبارہ متعارف کرانے پر تحقیق کرائی تھی۔ ان انواع میں الوؤں کی ایک نسل اور زیرِ زمین گھونسلا بنانے والے پرندے شامل ہیں۔

ایسا مضبوط نظام بھی متعارف کرایا جائے گا تاکہ جزیرے پر معدومیت کے خطرے سے دوچار انواع کو تحفظ فراہم کیا جائے، جیسے کیمروں کی مدد سے چوہوں پر نظر رکھی جائے گی اور مچھلیاں پکڑنے کے خلاف سختی ہوگی۔

فلورا اینڈ فاؤنا انٹرنیشنل کی جینی ڈیلٹری نے کہا کہ کیریبئن جزیرے پر جدید تاریخ کی سب سے زیادہ معدومیت کی شرح ہے، یعنی ریدوندا پر بحالی اور تحفظ کے اقدامات نہایت ضروری ہیں۔

مشترکہ کوشش

بحالی کے اقدامات کی شروعات سے اب تک 15 قسم کے پرندے جزیرے پر واپس آچکے ہیں جبکہ ریدوندا کی ’لینڈ ڈریگن‘ چھپکلی کی تعداد بھی کافی بڑھ چکی ہے۔

ای اے جی کی شانا چیلنجر نے کہا کہ مقامی باشندے ان اقدامات کے حق میں اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔ ’ہمارا چھوٹا جزیرہ، جسے کئی لوگوں نے اب تک نہیں دیکھا، قومی فخر بن گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے فخر ہے کہ میں نے اس کام کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔‘

چھوٹے جزیروں کے اعتبار سے، جو ماحولیاتی تبدیلی کا شکار رہے ہیں، ریدوندا کی کامیابی امید اجاگر کرتی ہے۔

چیلنجر نے کہا کہ ’ہم اہداف پورے کر کے دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ یہ ممکن ہے۔ ہم کاربن خارج نہیں کرتے مگر اس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں اور اس کے باوجود ہم نے جلد اپنے اہداف حاصل کیے۔‘

’مجھے امید ہے کہ اس سے دیگر ممالک کو سبق ملے گا۔ اگر اینٹیگوا اور باربوڈا کر سکتے ہیں تو باقی بھی کر سکتے ہیں۔‘

’ہم ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں میں سرِفہرست ہیں‘

ماحولیاتی ماہر جونیلا بریڈشا کے لیے یہ کامیابی ذاتی اہمیت کی حامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’سکول کے دنوں میں بچپن میں ماحولیات کے شعبے میں کیریئر بنانے کا کوئی نہیں سوچتا۔ ہمیں ڈاکٹر، ڈینٹسٹ یا وکیل بننے کا کہا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب آپ ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں سوچتے ہیں تو آپ کو اکثر امریکہ یا یورپ کا خیال آتا ہے، کیریبئن کے کسی چھوٹے جزیرے کا نہیں۔ اب ہم تحفظ کی بین الاقوامی کوششوں میں سرِفہرست ہیں۔ ہم اپنی نوجوان نسل کو بتا سکیں ہیں کہ ہم بھی یہ کر سکتے ہیں۔‘

انھیں یقین ہے کہ یہ کام صرف کاغذات پر ہی نہیں بلکہ حقیقت میں بھی جاری رہے گا۔

انھیں معلوم ہے کہ ملک مستقبل میں بھی شدید موسمی حالات کا شکار ہوگا۔ چھ سال قبل باربوڈا میں سمندری طوفان سے تباہی ہوئی تھی۔ سمندروں میں درجہ حرارت بڑھنا خطے کے کئی جزیروں کے لیے خطرے کا باعث ہے۔

’آپ ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتے درجہ حرارت اور طوفانوں کے بارے میں سنتے ہیں مگر ہم اس کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ گرمیاں بہت بُری رہی ہیں۔ اس بار شدید گرمی پڑی۔‘

’اگر ہم اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے تو آپ تبدیلی لا سکتے ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More