BBC
ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے بہت سے ممالک میں ڈیجیٹل لون ایپس کے ذریعے لوگوں کو پھانسنے، مالی طور پر قرض کے عوض بھاری سود پر وصولیاں کرنے، ان کی تذلیل کرنے اور بلیک میل کرنے کا ایک گھناؤنا کاروبار جاری ہے۔
انڈیا میں کم از کم 60 انڈین شہریوں نےان کمپنیوں کی طرف سے بدسلوکی اور دھمکیوں کے بعد خود کشی کر لی ہے۔ بی بی سی کی خفیہ تحقیقات نے انڈیا اور چین میں اس گھناؤنے سکینڈل سے فائدہ اٹھانے والوں کو بے نقاب کیا ہے۔
ایک صبح آستھا سنہا فون کی گھنٹی پر اُٹھیں۔ فون پر ان کی خالہ نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا کہ ’اپنی ماں کو گھر سے باہر نہ جانے دینا۔‘
جب 17 سالہ آستھا نیم نیند کی حالت میں دوسرے کمرے میں گئیں تو وہ اپنی ماں بھومی سنہا کو روتے ہوئے دیکھ کر گھبرا گئیں۔
ان کی خوش مزاج اور نڈر ماں جو ممبئی میں ایک معزز پراپرٹی وکیل ہیں اور جنھوں نے بیوہ ہونے کے بعد اکیلے ہی اپنی بیٹی کی پرورش کی تھی، اس وقت انتہائی صدمے کی حالت میں تھیں۔
آستھا کہتی ہیں کہ ’وہ اپنے حواس میں نہیں تھیں۔‘ پریشانی اور صدمے سے دوچار بھومی نے آستھا کو بتانا شروع کیا کہ کون سے اہم دستاویزات کہاں رکھے گئے ہیں، کون سے لوگ اہم ہیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ گھر سے نکلنے کے لیے بے چین لگ رہی تھیں۔
آستھا جانتی تھیں کہ انھیں اپنی ماں کو روکنا ہے۔ ان کی خالہ نے ان سے کہا تھا کہ ’ماں کو اپنی نظروں سے دور نہ ہونے دینا ورنہ وہ اپنی جان لے لے گی۔‘
آستھا جانتی تھیں کہ ان کی ماں کو کچھ عجیب و غریب کالیں آرہی تھیں اور انھیں کسی کے پیسے ادا کرنے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ بھومی کو بھی پچھلے کئی مہینوں سے ہراساں کیے جانے اور نفسیاتی اذیت کا سامنا تھا۔
وہ ایک عالمی سکینڈل کا شکار ہو چکی تھیں جس کی جڑیں کم از کم 14 ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ ایک گھناؤنا کاروبار ہے جس میں لوگوں کی تذلیل کر کے اور بلیک میلنگ کے ذریعے منافع کمایا جا رہا ہے اور لوگوں کی زندگیاں برباد کی جا رہی ہیں۔
BBCسنہ 2021 کے اواخر میں بھومی نے اپنی مالی ضروریات کے لیے مختلف لون ایپس سے تقریباً 47,000 روپے ادھار لیے تھے
ان کا کاروباری ماڈل ظالمانہ لیکن بہت سادہ ہے۔
آن لائن بہت سی ایسی ایپس ہیں جو بغیر کسی تصدیق کے چند منٹوں میں قرض دینے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ تمام ایپس بلیک میلنگ نہیں کرتیں لیکن کچھ ایسی بھی ہیں جو ڈاؤن لوڈ ہونے پر آپ کے فون میں موجود تمام کانٹیکٹس، تصاویر اور یہاں تک کہ شناختی کارڈ تک کی معلومات حاصل کر لیتی ہیں۔ یہ ایپس ان معلومات کو بعد ازاں آپ سے بھتہ یا وصولی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
جب ان ایپس سے قرض حاصل کرنے والے صارفین وقت پر قرض ادا نہیں کر پاتے ہیں اور بعض اوقات جب وہ قرض کی ادائیگی کر بھی دیں، ایپس یہ تمام معلومات ان کمپنیوں کے کال سینٹر کو دے دیتی ہیں جہاں پر نوجوان ایجنٹوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ لیپ ٹاپ اور فون سے لیس ان ایجنٹوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کو ہراساں کر کے اور ان کی توہین یا تذلیل کر کے واجبات وصول کریں۔
سنہ 2021 کے اواخر میں بھومی نے اپنی مالی ضروریات کے لیے مختلف لون ایپس سے تقریباً 47,000 روپے ادھار لیے تھے۔ جبکہ اس وقت کے دوران انھیں اپنے کام کے معاوضے کی مد میں کچھ رقم آنا متوقع تھی۔
انھیں ان ایپس کے ذریعے قرض کی رقم فوری طور پر مل گئی لیکن اس کا ایک بڑا حصہ قرض ایپس کے چارجز میں کاٹ لیا گیا۔
انھیں یہ رقم سات دن میں واپس ادا کرنا تھی لیکن جو رقم انھیں معاوضے کے طور پر ملنے کی توقع تھی وہ نہیں آئی تھی، ایسے میں انھوں نے ایک اور ایپ سے قرض لیا اور پھر دوسری ایپ سے۔ آہستہ آہستہ قرض اور اس کا سود بڑھتا گیا اور کل رقم 20 لاکھ روپے ہو گئی۔
اس کے کچھ ہی عرصہ بعد انھیں ریکوری ایجنٹس کے فون آنے لگے۔ جلد ہی ان ایجنٹوں نے بھومی کی تذلیل کرنا اور انھیں گالیاں دینا شروع کر دیں۔ یہاں تک کہ جب بھومی نے بقایا رقم ادا کر بھی دی تو انھوں نے کہا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہیں۔
وہ دن میں 200 بار انھیں کال کرتے تھے۔ انھوں نے ان سے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ کہاں رہتی ہیں۔ انھوں نے وارننگ کے طور پر انھیں ایک لاش کی تصویر بھی بھیجی۔
رفتہ رفتہ جب ان ایجنٹوں کی جانب سے دھمکیاں اور زیادتی بڑھتی گئی تو انھوں نے دھمکی دی کہ ان کے فون کانٹیکٹ لسٹ میں موجود تمام 486 لوگوں کو پیغام بھیجیں گے کہ وہ چور اور جسم فروش ہیں۔ جب انھوں نے ان کی بیٹی کی کردار کشی یا ساکھ خراب کرنے کی دھمکی دی تو بھومی کی راتوں کی نیندیں اڑ گئیں۔
بھومی یہ قرض چکانے کے لیے دوستوں، خاندان والوں اور دیگر ایپس سے قرض لینے پر مجبور ہو گئیں اور انھوں نے کل 69 ایپس سے قرض حاصل کیا۔ رات کو وہ دعا کرتی تھیں کہ اگلی صبح کبھی نہ آئے۔ لیکن ہر صبح سات بجتے ہی ان کے فون پر کالز اور میسجز آنے لگتے۔
آخر کار بھومی نے قرض کی کل رقم ادا کر دی لیکن ایک مخصوص ایپ ’آسان لون‘ نے انھیں فون کرنا بند نہیں کیا۔ اس سب سے پریشان وہ اپنے کام پر توجہ نہیں دے پا رہی تھیں اور انھیں پینک اٹیکس آنے لگے۔
ایک دن ان کی ایک دفتری ساتھی نے انھیں اپنی میز پر بلایا اور فون پر کچھ دکھایا۔ یہ ان کی عریاں اور فحش تصویر تھی۔
یہ تصویر بہت زیادہ فوٹوشاپ کی گئی تھی۔ بھومی کے چہرے کو کسی اور کے جسم پر لگایا گیا تھا۔ لیکن اس واقعے سے وہ شرمندہ ہو گئیں۔ وہ اپنے ساتھی کی میز پر ہی صدمے سے بے ہوش ہو گئیں۔ یہ تصویر 'آسان لون‘ ایپ کے ذریعے ان کی کنٹیکٹ لسٹ میں موجود ہر کسی کو بھیجی گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد بھومی کے ذہن میں خودکشی کا خیال آیا۔
BBCبھومی کی بیٹی آستھا
ہمیں دنیا بھر سے اس قسم کی دھوکہ دہی اور بلیک میلنگ کے ثبوت ملے ہیں، لیکن بی بی سی کو علم ہوا کہ صرف انڈیا میں ہی کم از کم 60 افراد نے ان لون ایپس کمپنیوں کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے بعد خودکشی کی ہے۔ ان خودکشیوں میں 50 فیصد سے زیادہ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں ہوئی ہیں۔
خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تر کی عمریں 20 سے 40 سال کے درمیان تھیں۔ ان میں ایک فائر فائٹر، ایک ایوارڈ یافتہ موسیقار، ایک نوجوان شادی شدہ جوڑا جنھوں نے اپنی تین اور پانچ سالہ بیٹیوں کو پیچھے چھوڑا، ایک دادا اور پوتا شامل ہیں جو ان لون ایپس کا شکار ہوئے۔ خودکشی کرنے والوں میں سے چار نوعمر تھے۔
اس قسم کے فراڈ کا شکار ہونے والے زیادہ تر لوگ اس کے بارے میں بات کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ انھیں ہراساں کرنے والے عموماً گمنام ہوتے ہیں اور سامنے نہیں آتے۔
بی بی سی نے کئی مہینے ایسے شخص کی تلاش میں گزارے جو اس کاروبار کے بارے میں جانتا ہو۔ آخر کار ہم ایک نوجوان سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئے جس نے مختلف لون ایپس کے کال سینٹرز میں کلیکشن ایجنٹ کے طور پر کام کیا تھا۔
روہن (فرضی نام) نے ہمیں بتایا کہ وہ لوگوں کے ساتھ ان کمپنیوں کی جانب سے ہونے والی بدسلوکی اور ہراساں کیے جانے کے وجہ سے بہت حد تک پریشان رہا۔
انھوں نے بتایا کہ ’بہت سے صارفین روتے تھے، جبکہ کچھ نے خودکشی کرنے کی بھی بات کی تھی۔ روحان نے بتایا کہ ان واقعات کے بعد ’میں پوری رات سو نہیں سکا۔‘
انھوں نے دھوکہ دہی اور بلیک میلنگ کے اس کھیل کو بے نقاب کرنے کے لیے بی بی سی کی مدد کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
انھوں نے دو مختلف کال سینٹرز - میجسٹی لیگل سروسز اور کالفلیکس کارپوریشن میں ملازمتوں کے لیے درخواست دی۔ اور انھوں نے کئی ہفتوں تک خفیہ طور پر ان کمپنیوں کے کال سینٹرز کے کام کے طریقہ کار اور حالات کو فلمایا۔
ان کی ویڈیوز میں کم عمر ایجنٹوں کو صارفین کو ہراساں کرتے ہوئے دیکھا اور سنا گیا ہے۔ ایک ویڈیو میں ایک خاتون ایجنٹ صارف کو گالیاں دے رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ ’اپنا رویہ ٹھیک کرو ورنہ میں تمہیں تھپڑ ماروں گی۔‘
اس نے ایک صارف پر اپنے خونی رشتے کے ساتھ جسمانی تعلق بنانے کا الزام بھی عائد کیا اور جب صارف نے فون کاٹ دیا تو اس ایجنٹ کو ہنستے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک اور ایجنٹ نے گاہک سے کہا کہ وہ قرض کی ادائیگی کے لیے اپنی ماں سے جسم فروشی کروا لے۔
روہن نے اسی طرح کی ہراسانی اور توہین کے 100 سے زیادہ واقعات ریکارڈکیے ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ اس منظم بلیک میلنگ اور بھتہ خوری کے کاروبار کو کیمرے میں فلمایا گیا ہے۔
انھوں نے صارفین کے ساتھ سب سے زیادہ بد سلوکی نوئیڈا کے کالفلیکس کارپوریشن کے دفر میں دیکھی۔ یہاں ایجنٹوں نے صارفین کو دھمکیاں دینے اور ان کی توہین کرنے کے لیے گندی زبان استعمال کی۔ یہ لوگ اصول نہیں توڑ رہے تھے اور نہ من مانی کر رہے تھے بلکہ کال سینٹر کے منیجر ان پر نظر رکھتے تھے اور انھیں ہدایات بھی دیتے تھے۔ ان میں سے ایک منیجر کا نام وشال چورسیا تھا۔
روہن نے چورسیا کا اعتماد جیت لیا اور ایک سرمایہ کار کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے ان کی ایک صحافی سے ملاقات کروائی۔ جس میں چورسیا سے پوچھا گیا کہ یہ سارا گھناونا کاروبار کیسے چلتا ہے؟
چورسیا نے بتایا کہ جب کوئی صارف قرض لیتا ہے، تو وہ انجانے میں ایپ کو اپنے فون کے کنٹیکٹس حاصل کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔
پھر قرض دینے والی ایپ کالفلیکس کارپوریشن کو رقم کی وصولی کا معاہدہ دیتی ہے۔ اگر صارف واجبات ادا نہیں کرتا تو کمپنی اسے اور اس کے جاننے والوں کو ہراساں کرنا شروع کر دیتی ہے۔
چورسیا نے بتایا کہ ان کا عملہ رقم واپس لینے کے لیے کچھ بھی کہنے کے لیے آزاد ہے۔
چورسیا نے کہا کہ ’پھر شرم کے مارے گاہک رقم ادا کرتا ہے۔ آپ کو اس کی کانٹیکٹ لسٹ میں کم از کم ایک شخص مل جائے گا جو اس کی زندگی برباد کر سکتا ہے۔‘
ہم نے براہ راست چورسیا سے موقف لینے کے لیے رابطہ کیا لیکن انھوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔اسی طرح کالفلیکس کارپوریشن نے بھی ہمارے رابطے کی کوششوں کا جواب نہیں دیا۔
BBC
اس فراڈ سے برباد ہونے والوں میں کیرنی مونیکا کا نام بھی شامل ہے۔
24 سالہ مونیکا اپنے خاندان کی سب سے ذہین رکن تھیں۔ سرکاری نوکری حاصل کرنے والی اپنے سکول کی اکلوتی طالبہ اور تین بھائیوں کی پیاری بہن۔ والد ایک خوشحال کسان تھے جو مونیکا کو ماسٹرز کی تعلیم کے لیے آسٹریلیا بھیجنے کے لیے تیار تھے۔
تین سال پہلے پیر کو جب مونیکا نے خودکشی کی تھی، وہ معمول کے مطابق اپنے سکوٹر پر کام پر گئی تھی۔
ان کے والد کیرنی بھوپانی کہتے ہیں کہ ’وہ ہمیشہ مسکراتی رہتی تھی۔‘
پولیس نے جب مونیکا کے فون اور بینک اکاؤنٹس کی تلاشی لی تو پتہ چلا کہ انھوں نے 55 مختلف لون ایپس سے قرض لے رکھا تھا۔ قرضہ 10 ہزار روپے سے شروع ہوا اور 30 گنا بڑھ گیا۔ جب مونیکا نے خودکشی کا فیصلہ کیا تو وہ پہلے ہی 10 ہزار روپے کی بجائے تین لاکھ روپے سے زائد کی رقم ادا کر چکی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ایپس نے مونیکا کو کال کر کے اور فحش پیغامات بھیج کر ہراساں کیا اور اس کے کانٹیکٹ کو بھی پیغامات بھیجنا شروع کر دیے۔
مونیکا کے کمرے میں اب صرف یادیں رہ گئی تھیں۔ دروازے پر سرکاری ملازمت کا شناختی کارڈ لٹکا ہوا ہے۔ ماں نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے جو سامان اکٹھا کیا تھا اس سے بھرا بیگ ابھی تک وہیں پڑا ہے۔
مونیکا کے والد کو سب سے زیادہ پریشانی یہ ہے کہ ان کی بیٹی نے انھیں کبھی بھی اپنی صورتحال کے بارے میں نہیں بتایا۔ آنسو پونچھتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’ہم آسانی سے رقم کا بندوبست کر سکتے تھے۔‘
وہ ان لوگوں سے بہت ناراض ہے جو یہ سب کرتے ہیں۔
جب وہ ہسپتال سے اپنی بیٹی کی لاش لے کر آ رہے تھے تو ان کے فون کی گھنٹی بجی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’فون اٹھانے پر دوسری طرف سے ایک بار پھر رقم کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ رقم ادا کرنی پڑے گی۔ ہم نے انھیں بتایا کہ وہ مر چکی ہے۔‘
وہ حیران ہے کہ یہ کون لوگ ہیں۔
BBC
ہری (فرضی نام) ایک ایسی ایپ کے کال سینٹر میں وصولی کا کام کرتےتھے جس سے مونیکا نے قرض لیا تھا۔
ہری بتاتے ہیں کہ ان کی تنخواہ اچھی تھی لیکن مونیکا کی موت سے پہلے ہی انھیں اپنے کام کے بارے میں برا لگنے لگا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کبھی دھمکی آمیز کال نہیں کی، لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جسے ابتدائی طور پر شائستگی سے بات کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ مینیجرز نے ملازمین کو لوگوں سے بدسلوکی اور دھمکیاں دینے کو کہا تھا۔
ریکوری ایجنٹ اکثر کنٹیکٹ لسٹ میں شامل لوگوں کو پیغامات بھیجتے تھے، قرض لینے والے شخص کو دھوکے باز اور چور کہتے تھے۔
ہری کہتے ہیں کہ ’ہر کسی کو خاندان کے سامنے اپنی مثبت ساکھ برقرار رکھنی ہوتی ہے۔ کوئی بھی اس تصویر کو صرف پانچ ہزار روپے میں خراب نہیں کرنا چاہے گا۔‘
جیسے ہی قرض لینے والے کی طرف سے ادائیگی کی جائے گی، ایجنٹوں کے سسٹم میں ’کامیابی‘ کا پیغام آجائے گا اور پھر وہ دوسرے قرض لینے والے کے پیچھے چلے جائیں گے۔
گاہکوں نے خودکشی کی بات کی تو کسی نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن پھر خودکشیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ملازمین نے اپنے باس پرشورام تاکوے کو فون کیا اور پوچھا کہ کیا انھیں یہ سب بند کرنا چاہیے؟
اگلے دن تاکوے دفتر آیا۔ وہ غصے میں تھا۔ اس نے کہا کہ ’جو کچھ تم سے کہا جائے وہ کرو اور رقم واپس لو۔‘
ہری کا کہنا ہے کہ ملازمین نے وہی کیا جو انھیں کہا گیا تھا۔
چند ماہ بعد مونیکا کی موت ہو گئی۔
BBC
تاکوے بے رحم شخص تھا۔ لیکن وہ یہ کاروبار اکیلا نہیں چلا رہا تھا۔ ہری کا کہنا ہے کہ کئی بار ان کے سافٹ ویئر کا انٹرفیس خود بخود چینی زبان میں بدل جاتا ہے۔
تاکوے نے لیانگ تیان تیان نامی چینی خاتون سے شادی کی تھی۔ دونوں نے مل کر پونے میں ’جیالیانگ‘ کے نام سے قرض کی وصولی کا کاروبار قائم کیا تھا۔ ہری یہاں کام کرتے تھے۔
ہراساں اور بلیک میل کرنے کے ایک کیس کی تفتیش کرنے والی پولیس نے دسمبر 2020 میں تاکوے اور لیانگ کو گرفتار کیا تھا اور انھیں چند ماہ بعد ضمانت پر رہائی مل گئی تھی۔
اپریل 2022 میں ان کے خلاف بھتہ خوری، دھمکیاں دینے اور خودکشی کے لیے اکسانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ لیکن سال کے آخر تک وہ مفرور ہو گئے تھے۔
ہم تاکوے کو تلاش نہیں کر سکے، لیکن جب ہم نے ان ایپس کی چھان بین کی جن کے لیے ان کی ’جیالیانگ‘ کمپنی کام کر رہی تھی، تو ہماری تحقیقات کے نتیجے میں لی ژیانگ نامی ایک چینی تاجر کا نام سامنے آیا۔
ہمیں لی کے بارے میں آن لائن کوئی معلومات نہیں مل سکیں، لیکن ہمیں ایک فون نمبر ملا جو اس کے ملازمین میں سے ایک کا تھا۔ ایک سرمایہ کار کے طور پر ہم نے لی کے ساتھ ایک میٹنگ طے کی۔
BBC
ملاقات کے دوران لی نے اپنے چہرے کو کیمرے کے بہت قریب رکھا اور اس دوران وہ انڈیا میں اپنے کاروبار کے بارے میں پُرجوش انداز میں بات کرتے رہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم اب بھی کام کر رہے ہیں، صرف انڈین کو یہ نہیں بتا رہے کہ ہماری کمپنی چینی ہے۔‘
انڈین پولیس نے لون ایپس کی سرگرمیوں کی تحقیقات کرتے ہوئے 2021 میں لی کی دو کمپنیوں پر چھاپے مارے اور ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے تھے۔
لی کا کہنا تھا کہ ’آپ کو سمجھنا ہوگا کہ ہمارا مقصد اپنی سرمایہ کاری کو فوری طور پر واپس حاصل کرنا ہے۔ ہم انڈیا میں ٹیکس ادا نہیں کرتے اور ہماری شرح سود بھی مقامی ضوابط کی خلاف ورزی کرتی ہے۔‘
لی نے ہمیں بتایا کہ ان کی کمپنی کی انڈیا، میکسیکو اور کولمبیا میں ڈیجیٹل قرض کی ایپس ہیں۔ انھوں نے جنوب مشرقی ایشیا میں رسک کنٹرول اور قرض کی وصولی کی خدمات میں مارکیٹ لیڈر ہونے کا دعوی کیا اور بتایا کہ اب وہ لاطینی امریکہ اور افریقہ میں اپنا کاروبار پھیلا رہے ہیں۔
نیز ان کے پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میں ’پوسٹ لون سروسز‘ کے لیے 3000 سے زیادہ ملازمین ہیں۔
پھر انھوں نے بتایا کہ ان کی کمپنی قرض کی وصولی کے لیے کیا کرتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’اگر آپ قرض ادا نہیں کرتے ہیں تو ہم آپ کو واٹس ایپ پر ایڈ کر سکتے ہیں اور پھر تیسرے دن سے ہم آپ کو یا آپ کے جاننے والوں کو کال کر کے پیغامات بھیجیں گے۔ پھر اگر رقم ادا نہیں کی جاتی ہے تو چوتھے دن سے ہم ایک خاص تفصیلی طریقہ کار اپناتے ہیں۔‘
’ہم قرض لینے والے کے کال ریکارڈ تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور اس کے بارے میں بہت سی معلومات اکٹھی کرتے ہیں۔ یعنی ایک طرح سے وہ ہمارے سامنے بالکل برہنہ ہو جاتا ہے۔‘
BBC
بھومی سنہا نے ان اذیتوں، دھمکیوں، گالیوں اور تذلیل کو برداشت کیا لیکن ایک فحش تصویر کے ساتھ منسلک ہونے کی شرمندگی برداشت نہ کر سکیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اس پیغام نے مجھے پوری دنیا کے سامنے برہنہ کر دیا۔ میں نے اپنی عزت نفس، اخلاقیات، شہرت سب کچھ ایک سیکنڈ میں کھو دیا۔‘
اس کی تصویر وکلا، آرکیٹیکٹس، سرکاری افسران، بزرگ رشتہ داروں اور والدین کے دوستوں کے ساتھ شیئر کی گئی تھی، جن کا ان کے بارے میں نقطہ نظر اب پہلے جیسا نہیں رہ سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اس نے مجھے اپنے اندر تک ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اگر آپ ٹوٹے ہوئے شیشے کو ٹھیک کر لیں تب بھی اس میں دراڑیں باقی رہیں گی۔‘
پڑوسیوں نے انھیں اس جگہ سے بے دخل کر دیا جہاں وہ گذشتہ 40 سالوں سے رہ رہی تھی۔
وہ اداس ہنسی کے ساتھ کہتی ہیں کہ ’آج میرا کوئی دوست نہیں ہے، میں اکیلی ہوں۔‘
ان کے خاندان کے کچھ لوگ آج بھی ان سے بات نہیں کرتے۔ وہ سوچتی رہتی ہے کہ جن مردوں کے ساتھ وہ کام کرتی ہے کیا وہ انھیں بغیر کپڑوں کے تصور کر رہے ہیں۔
جس صبح ان کی بیٹی آستھا نے ان کی دیکھ بھال کی، وہ اپنی زندگی کی بدترین حالت میں تھی۔ لیکن اسی لمحے انھوں نے لڑنے کا فیصلہ کیا اور فیصلہ کیا کہ ’میں اس طرح مرنا نہیں چاہتی۔‘
انھوں نے پولیس کو شکایت درج کروائی تھی لیکن اس کے بعد سے پولیس کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ وہ صرف اپنا نمبر تبدیل کرنے اور پرانے سم کارڈ کو پھینکنے میں کامیاب رہی۔
مگر جب ان کی بیٹی آستھا کو بھی فون آنے لگے تو انھوں نے بھی اپنی موبائل سم پھینک دی۔ بھومی نے خاندان، دوستوں اور ساتھیوں سے ان کالز اور پیغامات کو نظر انداز کرنے کو کہا اور آخر کار وہ کالز اور پیغامات آنا بند ہو گئے ہیں۔
بھومی کو اپنی بہنوں، اپنے باس اور قرض دینے والی ایپس سے پریشان لوگوں کی آن لائن کمیونٹی کی طرف سے کافی تعاون حاصل ہوا۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے سب سے زیادہ طاقت اپنی بیٹی سے ملی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے کچھ اچھا کیا ہوگا کہ مجھے ایسی بیٹی ملی۔ اگر وہ میرے ساتھ نہ کھڑی ہوتی تو میں بھی لون ایپس کی وجہ سے خودکشی کرنے والوں میں شامل ہوتی۔‘
ہم نے اس رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کو ’آسان لون‘ ایپ کمپنی، لیانگ تیان تیان اور پرشورام تاکوے کے سامنے رکھا جو اس وقت روپوش ہیں۔ لیکن نہ تو کمپنی نے جواب دیا اور نہ ہی ان دونوں افراد نے کوئی تبصرہ کیا۔ جب لی ژیانگ سے تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اور ان کی کمپنی مقامی ضوابط کی پاسداری کرتے ہیں، انھوں نے کبھی بھی ایسی لون ایپس نہیں چلائی اور انھوں نے جیالیانگ کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور وہ صارفین کی ذاتی معلومات اور ڈیٹا نہ اکٹھا کرتے ہیں اور نہ ہی یا استعمال کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ان کے قرض کی وصولی کے کال سینٹر سخت معیارات پر عمل کرتے ہیں اور انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہ وہ عام انڈین شہریوں کو ہراساں کر کے منافع کماتے ہیں۔
میجسٹی لیگل سروسز نے اس بات کی تردید کی کہ انھوں نے قرضوں کی وصولی کے لیے صارفین کے ذاتی ڈیٹا کا استعمال کیا۔ انھوں نے کہا کہ ایجنٹوں سے کہا گیا ہے کہ وہ بدسلوکی اور دھمکی آمیز کالیں نہ کریں اور اگر وہ کمپنی کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو انھیں نوکری سے نکال دیا جائے گا۔
اس تحقیقاتی تحریر کے لیے رونی سین، شویتیکا پراشر، سید حسن، انکور جین اور بی بی سی آئی ٹیم نے اضافی رپورٹنگ کی ہے۔ ان خفیہ رپورٹرز کا بھی شکریہ جن کا نام ان کی حفاظت کے پیش نظر نہیں لیا جا سکتا۔