’انڈیا سے ڈی پورٹ نہیں کیا گیا۔۔۔ پوسٹس کے باعث لوگوں کی دل آزاری پر شرمندہ ہوں: زینب عباس

بی بی سی اردو  |  Oct 12, 2023

Getty Images

پاکستانی کرکٹ میزبان زینب عباس نے انڈیا میں جاری ورلڈکپ کے دوران اچانک ٹورنامنٹ چھوڑ کر انڈیا سے واپسی کے حوالے سے پہلی بار اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر شیئر کی جانے والی پوسٹس کے حوالے سے شرمندہ ہیں۔

انھوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’میں اس درد کے بارے میں بخوبی آگاہ ہوں جو میری شیئر کی گئی پوسٹس (ٹویٹس) کے باعث لوگوں کو ہوا اور میں اس پر شرمندہ ہوں۔‘

زینب عباس کا مزید کہنا تھا کہ ’میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ ان (پوسٹس) کا میرے اقدار اور جو کچھ بھی میں آج ہوں اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

’اس قسم کی زبان کے لیے کوئی گنجائش یا بہانہ کافی نہیں ہے، اس لیے میں ان تمام افراد سے معافی مانگتی ہوں جن کی اس سے دل آزاری ہوئی۔‘

انھوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ’نہ تو مجھے انڈیا چھوڑنے کی ہدایت کی گئی تھی اور نہ ہی مجھے ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔‘

واضح رہے کہ آئی سی سی کی جانب سے انڈیا جانے والی پاکستانی میزبان زینب عباس کے حوالے سے اس وقت تنازع سامنے آنا شروع ہوا جب انڈین وکیل ونیت جندال نے اپنیٹویٹ میں زینب عباس پر انڈیا اور ہندو مخالف پیغامات لکھنے کا الزام عائد کیا تھا۔

اپنے ان الزاماتکے حوالے سے ونیت جندال نے پانچ اکتوبر کو اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ایڈووکیٹ اور سماجی کارکن ونیت جندال کی جانب سے زینب عباس کے خلاف شکایت پولیس میں درج کر دی گئی ہے۔ جس میں سائبر سیل دہلی پولیس سے درخواست کی گئی ہے کہ زینب عباس کی جانب سے ہندو مذہب کے خلاف توہین آمیز ریمارکس اور انڈیا مخالف بیان دینے پر مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔‘

ونیت جندال نے مزید لکھا تھا کہ ’زینب کو آئی سی سی ورلڈ کپ سے فوری طور پر پریزنٹرز کی فہرست سے نکال دیا جائے۔‘ انڈیامخالف لوگوں کو انڈیا میں خوش آمدید نہیں کیا جاتا۔‘

خیال رہے کہ اس سے قبل ایسی اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ زینب عباس کو ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔ تاہم آئی سی سی نے اس کی تردید کی تھی اور اپنے مختصر جواب میں آئی سی سی کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’زینب عباس ذاتی وجوہات کی وجہ سے انڈیا سے واپس گئی ہیں، انھیں ڈی پورٹ کرنے کی اطلاعات درست نہیں۔‘

واضح رہے کہ کرکٹ کے بین الاقوامی ادارے آئی سی سی نے پانچ اکتوبر 2023 سے انڈیا میں شروع ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے میزبان کے طور پر زینب عباس کا انتخاب کیا تھا۔

زینب کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ’میں انٹرنیٹ پر سامنے آنے والے ردِ عمل سے خوفزدہ ہو گئی تھی۔ حالانکہ میری زندگی کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن دونوں ممالک میں میرے رشتہ دار اور دوست میرے بارے میں فکر مند تھے۔

’مجھے اس بارے میں سوچنے کے لیے کچھ وقت درکار تھا۔‘

انڈیا میں گزرے وقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے زینب نے کہا کہ ’یہاں میری تمام افراد کے ساتھ ملاقاتیں اور بات چیت انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی اور مجھے اپنائیت کا احساس بھی ہوا‘

https://twitter.com/zabbasofficial/status/1712504313376104800?s=46&t=evoOzmcHfdfFLO0wJOVOqQ

اس سے قبل، زینب عباس نے اپنے اس انتخاب پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور دو اکتوبر کو انڈیا روانگی سے قبل انھوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں انتہائی خوشی کا اظہار کیا تھا اور ساتھ ہی لکھا تھا کہ سرحد کے دوسری پار سے مخالفت کے بجائے وہاں کے طور طریقوں اور تہذیب سےہمیشہ سے ایک دلچسپی رہی ہے۔۔۔ جہاں کھیل کے میدان میں ایک دوسرے کے حریف لیکن میدان سے باہر بھائی چارہ اور محبت موجود ہے۔

انھوں نے اپنی خوشی کے اظہار میں مزید لکھا تھا کہ ’ایک ہی زبان سے تعلق اور آرٹ سے محبت کرنے والے۔۔ ایک ارب لوگوں کے ملک میں کرکٹ کو پریزینٹ کرنےکے لیے آئی سی سی کی ایک بار پھر سے شکر گزار ہوں۔۔۔گھر سے دوری کا چھے ہفتوں کا سفر اب شروع ہوتا ہے۔

آئی سی سی نے تو اپنے بیان میں زینب عباس کے جانے کے فیصلے کو ذاتی وجوہات قرار دیا ہے تاہم اس سے قبل یہ اطلاعات سامنے آ رہی تھیں کہپاکستانی میزبان زینب عباس انڈیا میں اپنے خلاف دائر کردہ درخواستوں کے بعد ورلڈ کپ کو چھوڑ کر انڈیا سے واپسی کے لیے روانہ ہو گئی ہیں۔

’زینب عباس کی بحفاظت واپسی پر انتہائی خوشی ہے‘

واضح رہے کہکرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے لیے سینکڑوں پاکستانی شائقین کرکٹ کو انڈیا کی جانب سے ویزوں کا اجرا نہیں کیا گیا۔

اس صورت حال کا سامنا صرف ٹکٹس خریدنے والے پاکستان کےعام افراد کو ہی نہیں کرنا پڑا بلکہ سپورٹس کو کور کرنے والے متعدد صحافیوں کو بھی ویزے جاری نہیں کیے گئے تھے۔

ایسے میں زینب عباس کا ورلڈ کپ میں میزبانی کے فرائض انجام دینے کے آئی سی سی کے اعلان نے پاکستانی شائقین کے دلوں میں امید جگائی تھی اور بہت سے فینز نے ان کے انڈیا جانے پر نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اب انڈیا جا رہی ہیں تو کپ بھی ہمارا ہو گا۔

لیکنپیر کو جب زینب عباس کے انڈیا چھوڑنے کی اطلاعات سامنے آنا شروعہوئیں تو فینز کی جانب سے اس اقدام پر بحث چھڑ گئی۔

کئی صارفین نے جہاں اس اقدام پر انڈیا کی مذمت کی وہیں آئی سی سی اور پی سی بی کی خاموشی اور پاکستانی شائقین کو ویزہ نہ دیے جانے پر انڈین حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

زبیر علی خان نامیکرکٹ فین نے ایکس(سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ پاکستانیوں کے لیے نو گو ایریا بن گیا ہےاور اس سارے معاملے پر دفتر خارجہ سے لے کر پاکستان کرکٹ بورڈ ڈاکیا سے زیادہ کا کردار ادا نہیں کر رہا۔ ‘

’آج خبر آئی ہے کہ زینب عباس جو کہ آئی سی سی کی جانب سے کرکٹ ورلڈ کپ کی پریزنٹر تھیں، دھمکیوں کی وجہ سے انڈیا چھوڑ کر چلی گئیں لیکن آئی سی سی اس سارے معاملے پر خاموش رہے گا۔‘

https://twitter.com/ZubairAlikhanUN/status/1711313511760924957?s=20

کئی صارفین نے زینب کی واپسی کے اقدام پر انڈیا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

سفیان مقصود نامی صارف نے لکھا کہ ’کتنی شرم کی بات ہے انڈیا۔۔ یہ وہ ملک ہینہیں ہے جس کی میں وکالت کرتا تھا اور اس کی تعریفکرتے نہ تھکتا تھا۔۔ سب سے بڑی جمہوریت اور سب سے بڑے سیکولر ملک سےایک انتہا پسند ملک تک ۔۔ کیا ہی بات ہے آپ کی ۔‘

https://twitter.com/IamSufiyanM/status/1711366271722258471

شیخ عاطف نامی صارف نے لکھا کہ زینب عباس ہمارے ملک کا فخر ہیں۔ وہ پاکستان کی نمائندگی کرتی ہیں اور ان پر کوئی الزام نہیں لگا سکتا۔

https://twitter.com/shatif167/status/1711379456206549398

کئی صارفین نے زینب عباس کیانڈیا سے واپسی پر اپنی خوشی اور بھرپور اطمینان کا اظہار بھی کیا وہیں انڈیا میں خواتین کے غیر محفوظ ہونے کا معاملہ اٹھانا بھی نہیں چوکے۔

ایک صارف نے لکھا کہ ’زینب عباس کی بحفاظت واپسی پر انتہائی خوشی ہے اور ان تمامخواتین کے سلامتی کے لیے بہت دعا ہے جو ابھی انڈیا میں رہ رہی ہیں۔‘

https://twitter.com/rantspakistani/status/1711330572415504517

ثوریا نامی صارف نے لکھا کہ زینب عباس جیسے سپورٹس جرنلسٹ کو ہندو مذہب اور ہمارے ملک کے بارے میں کچھ بھی بولنے کا حق حاصل ہے ...کیا یہ درست ہے...میں نے پاکستان میں بہت سے واقعات دیکھے...اگر کوئی وہاں مذہب کا مذاق اڑائے تو لوگوں نے کیا کیا...سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔

https://twitter.com/surya_2708/status/1711379721630654632

زینب عباس کے حوالے سے بنایا جانے والا تنازع تھا کیا؟

ایڈووکیٹ ونیت جندال نے اپنی ٹوئٹس میں زینب عباسپر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ ان کی جانب سے سوشل میڈیا پر نو سال قبل ہندو مذہب اور انڈیا مخالف ٹوئٹس کی گئی تھیں اور اس وقت ان کے اکاؤنٹ کا نام ’زینب لوو ایس آر کے‘ تھا جو اب تبدیل ہوکر ’زیڈ عباس آفیشل‘ کردیا گیا ہے۔

اسی تناظر میں نو اکتوبر کی سہہ پہر کو ونیت جندال نے اپنی ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ ان کی شکایت کے بعد ایکشن لیتے ہوئے پاکستانی پریزینٹر کو ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے۔

تاہم ان کے اس دعوے کے جواب میں آئی سی سی نے اپنے مختصر جواب میں زینب کے ڈی پورٹ کیے جانے کیخبروں کی تردید کی ہے۔

https://twitter.com/vineetJindal19/status/1711313383184830841

صحافیوں اور شائقین کو معاہدے کے باوجود ویزا نہ ملنے کا معاملہ انڈین وزارت داخلہ کے سامنے اٹھایا جائے: پی سی بی

پی سی بی کی انتظامی کمیٹی کے چیئرمین ذکا اشرف نے آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کی کوریج کے لیےشائقین اور صحافیوں کے انڈین ویزوں میں تاخیر پر شدید تشویش اور کا اظہار کیا ہے۔

ذکا اشرف نے پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی سے ملاقات میں نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دفتر کے ذریعے یہ مسئلہ انڈین وزارت داخلہ کے ساتھ اٹھانے کی بھی درخواست کی۔

پی سی بی نے انڈین میڈیا میں رپورٹ ہونے والے سکیورٹی خطرات کا بھی سخت نوٹس لیا ہے اور حکومت سے انڈیا میں کھلاڑیوں کی سکیورٹی کا جائزہ لینے کی درخواست کی ہے انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی سکواڈ کی سلامتی اور حفاظت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

پی سی بی سے جاری بیان میں اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے کہ ’پاکستان کے صحافیوں اور شائقین کو ابھی تک آئی سی سی ورلڈ کپ 2023 میں ویزا کےحصول کے معاہدے کے باوجودپاکستان کے کھیلوں کی کوریج کے لیے انڈین ویزا ملنے میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More