کیا والدین کی بچوں سے مار پیٹ انھیں سدھارنے میں مدد دیتی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Oct 12, 2023

Getty Images

بظاہر یہ کسی ریسٹورنٹ کا منظر ہے۔ کئی نوجوان ٹولیوں کی صورت میں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ شیشے کا دھواں بھی اٹھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اچانک ایک شخص اور ایک سیاہ برقعے میں ملبوس خاتون آتے ہیں اور ایک 16، 17 سالہ نوجوان کو تھپڑ مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی دوران یہ شخص اس نوجوان کے ساتھ بیٹھے دوستوں کو بھی گالیاں دیتا ہے جبکہ پس منظر سے آواز آتی ہے کہ ’یہ اِس کا باپ۔‘

اس واقعے کی ویڈیو حال ہی میں پاکستان میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو ساتھ ہی ایک بحث بھی چھڑ گئی جس میں والدین کی پرورش اور بچوں کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ اختیار کرنے کے اثرات پر مختلف آرا سامنے آئیں۔

ایسے میں یہ سوال بھی سامنے آیا کہ والدین کی جانب سے بچوں سے مارپیٹ یا ناروا سلوک کے ایسے واقعات کے کیا نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کیا پاکستان میں ایسا کوئی قانون یا اتھارٹی موجود ہے جو بچوں کو تحفظ فراہم کرے؟

تاہم ان سوالوں کے جواب جاننے سے قبل یہ دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کیا مؤقف سامنے آیا۔

سوشل میڈیا پر بحث

سعد قیصر نے لکھا کہ ’ایسی بدسلوکی کرنے والے باپ جمہوری ممالک میں جیلوں میں بند ہوتے ہیں۔‘ واسع عظیم لکھتے ہیں کہ ’لڑکوں کو ایسے کیوں مارا جاتا ہے۔ اگر میں اس صورتحال میں ہوتا تو بھاگ جاتا۔‘

تہذیب لکھتی ہیں کہ ’اس شخص کو جیل جانا پڑے گا کیونکہ اس نے جوان روحوں کو نقصان پہنچایا‘ جبکہ تیمور حسین مغل کا کہنا ہے کہ ’پھر بچے ایسے والدین کے ساتھ اگر نافرمانی کرتے ہیں تو ان بیچاروں پر تہمتیں لگتی ہیں، والدین کو بھی اپنا رویہ درست رکھنا چاہیے۔‘

ڈاکٹر صبا عثمان نے لکھا کہ ’میری رائے میں یہ تذلیل ہے اور قابل مذمت ہے۔ ہر کسی کی عزت نفس ہے، بچوں کو روکنے کا یہ اچھا طریقہ نہیں ہے۔ بات چیت کرنے اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے گھر کا اچھا ماحول ہو سکتا ہے۔ ایسے دباؤ کی وجہ سے بچوں میں ذہنی صحت کے مسائل ہوتے ہیں۔‘

’امی مارتی کیوں ہیں؟‘

بی بی سی نے چند والدین سے بھی بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایسے رویوں کے پیچھے کیا ذہنیت ہوتی ہے اور اس پر والدین کی رائے کیا ہے؟

پاکستان میں بچوں سے مارپیٹ کرنے جیسے عمل کو سماجی طور پر قابل قبول سمجھا جاتا ہے جس کا عکاسی معاشرے میں رائج بعض ضرب المثل اور محاوروں میں بھی ملتا ہے۔

فاطمہ مستنصر کا 11 سال بیٹا اور چھ سالہ بیٹی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اُس روز سے انھوں نے اپنے بیٹے پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا جب اس نے ایک بار کہا کہ ’امی آپ سمجھا بھی سکتی ہیں، میں سمجھ جاؤں گا، آپ مارتی کیوں ہیں؟‘

ان کے مطابق ’مارپیٹ سے بچے ڈھیٹ ہو جاتے ہیں، وہ سدھرتے نہیں۔ بچوں سے مار پیٹ کے ذریعے ہم صرف اپنی فرسٹریشن نکالتے ہیں۔ جب باہمی بات چیت کے عمل کو بہتر بنائیں گے، تو وہ جلدی سیکھتے اور سمجھتے ہیں۔‘

ذکیہ بتول کا بھی ایک 11 سال کا بیٹا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بچے اگر والدین سے بد زبانی یا بداخلاقی کر رہے ہیں تو یہ سوچ عام ہے کہ اگر ہم مار پیٹ کریں گے تو وہ ٹھیک ہو جائیں گے اور ہماری بات سننے لگیں گے، لیکن یہ غلط ہے کیونکہ آج کے وقت کے جو بچے ہیں انھیں ان کی سوچ کے مطابق ہینڈل کرنا پڑتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میرا بیٹا پڑھائی میں ٹھیک ہے، وہ سمجھ جاتا ہے۔ جہاں وہ نہیں سمجھتا تو ایک آدھا ہاتھ لگا دیے لیکن یہ اس کی سرزنش کے لیے ہوتا ہے۔ اگر آپ زیادہ کریں گے تو بچے میں ایک باغی پن آ جاتا ہے۔‘

’بچوں کے تحفظ کے لیے اتھارٹی موجود ہے‘Getty Images

سندھ کے سابق ایڈووکیٹ جنرل ضمیر گھمرو کہتے ہیں کہ سندھ میں بچوں کے تحفظ کے لیے چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ موجود ہے جس کے تحت ایک اتھارٹی بنی ہوئی ہے جو بچوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔

’یہ اتھارٹی سوشل ویلفیئر محکمے کے ماتحت ہے، اگر کوئی شکایت آتی ہے تو اس اتھارٹی کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو تحفظ فراہم کرے۔‘

ضمیر گھمرو کہتے ہیں کہ ’چائلڈ پروٹکشن یونٹ کو شکایت کہیں سے بھی آ سکتی ہے اور وہ متعلقہ پولیس تھانے کی مدد بھی لے سکتا ہے اور اس بچے کے لیے کاؤنسلنگ بھی کر سکتا ہے۔‘

ضمیر گھمرو بتاتے ہیں کہ ’والدین کے ناروا سلوک سے متاثرہ بچہ تھانے میں خود بھی شکایت کر سکتا ہے اگر کوئی جرم ہوا ہے۔ لیکن عام حالات میں بچے ایسے کرتے نہیں ہیں کیونکہ جوائنٹ فیملی سسٹم ہے۔‘

’ایسے میں ریاست کا کام ہے کہ بچوں کو تحفظ فراہم کرے۔ اسی لیے یہ اتھارٹی بنائی گئی ہے جس میں بچے پر کسی بھی نوعیت کا تشدد قابل دست اندازی جرم ہے۔‘

یاد رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بھی چائلڈ پروٹکشن اتھارٹی قائم کی جا چکی ہے اور قومی اسمبلی نے اس کی قانون سازی کی تھی۔

اتھارٹی کے مطابق جسمانی اور نفسیاتی تشدد اور تجارتی جنسی استحصال کا نشانہ بننے والے بچوں کو تحفظ فراہم کیا جائیگا۔

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 89 کے مطابق کسی بچے سے مارپیٹ کرنا قابل تعزیر جرم ہے اور اس قانون کے مطابق بچے پر تشدد میں ملوث فرد کو زیادہ سے زیادہ ایک سال قید اور پچاس روپے جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ تاہم اگر کوئی زخم یا چوٹ ہے تو یہ سزا زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔

’بچوں پر تشدد سے جسمانی، ذہنی اور جذباتی نقصان ہوتا ہے‘

ماہر ذہنی صحت ڈاکٹر ہیر لال لوہانہ کہتے ہیں کہ ’والدین کی مارپیٹ کے بچوں پر بُرے اور طویل مدتی اثرات ہوتے ہیں۔ اس تشدد سے جسمانی، ذہنی اور جذباتی نقصان ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کی مار پیٹ سے بچوں کی ذہنی صحت سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے اور بچے پوسٹ ٹرامک ڈس آرڈر، انگزائیٹی، ڈپریشن، موڈ ڈس آرڈر جیسے مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر ہیرا لالل کے مطابق جو بچے مار پیٹ کے ساتھ بڑے ہو رہے ہوتے ہیں اُن میں اعتماد اور سماجی رابطہ کاری کا فقدان پیدا ہو سکتا ہے۔

’بچوں میں رشتوں کے حوالے سے بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے، وہ غصیلے اور پرتشدد بھی ہو سکتے ہیں اور آگے چل کر منشیات کے عادی بن جانے کے بھی خطرات موجود ہوتے ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More