’پاکستان کا پرچم انڈیا کے ترنگے سے بڑا اور اونچا کیوں؟‘ یہ فلیگ کوڈ کی خلاف ورزی ہے‘

بی بی سی اردو  |  Oct 11, 2023

ان دنوں انڈیا میں جشن کا ماحول ہے۔ جہاں ایک جانب کرکٹ کا ورلڈ کپ جاری ہے وہیں آن لائن خریداری پر زبردست ڈیلز دی جا رہی ہے۔ ایسے میں اگر آپ کی فیڈ پر لولو مال کا اشتہار نظر آ جائے تو آپ اسے دیکھنے سے خود کو نہیں روک پاتے۔

آج ایسا ہی ہوا میرے موبائل پر پہلی ہی فیڈ لولو مال کی تھی۔ جو لوگ لولو مال کو جانتے ہیں انھیں اچھی طرح پتا ہے کہ خلیجی ممالک کے ساتھ اس کے مالز انڈیا میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔

لیکن یہاں بات کچھ اورتھی اور وہ یہ تھی کہ ورلڈ کپ کی مناسبت سے کیرالہ کے لولو مال نے اپنے ایک مال کو سجایا تھا جس میں ان تمام ممالک کے پرچم لہرا رہے تھے جو کہ ورلڈ کپ میں شرکت کر رہے ہیں۔

تنازع اس بات پر ہے کہ اس میں انڈیا کا قومی پرچم ترنگا پاکستان کے قومی پرچم سے سائز میں چھوٹا ہے اور اسے پاکستانی پرچم سے نیچے بھی رکھا گيا ہے۔

صحافی پردیپ بھنڈاری نے لولو مال کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ تصویر کیرالہ کے لولو مال کی ہے۔ جاری کرکٹ ورلڈ کپ کا جشن منانے کے لیے پاکستان کا جھنڈا، انڈین ترنگے کے اوپر لگایا گیا ہے۔ یہ انڈین پرچم کے قانون کی خلاف ورزی ہے، متعلقہ حکام اس کا نوٹس لیں۔‘

https://twitter.com/pradip103/status/1711745721412841685

اس طرح کے بہت سارے ٹویٹس ہیں جن میں لولو مال کو اس بات کے لیے نشانہ بنایا گیا ہے اور تصاویر پوسٹ کی گئی ہیں۔

مہارتھی نامی ایک صارف نے لولو مال میں آویزاں پرچموں کی تصویر ڈالتے ہوئے لکھا کہ ’یہ لاہور، پشاور یا اسلام آباد میں نہیں، یہ کیرالہ میں ہے!! یہ تصویر کوچی کے لولو مال میں لی گئی ہے جہاں ورلڈ کپ کا جشن منانے کے لیے مختلف ممالک کے جھنڈے آویزاں ہیں۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ فلیگ کوڈ یعنی پرچم کے قانون کے مطابق ’کوئی دوسرا جھنڈا ترنگے کے اوپر، اس سے اونچا یا اس کے ساتھ نہیں لگایا جانا چاہیے۔ دوسرے جھنڈوں کے ساتھ بیک وقت ڈسپلے کی اجازت نہیں ہے۔‘

انھوں نے لولو مال کے مالک یوسف علی کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان کا جھنڈا انڈیا کے جھنڈے سے اوپر اور بڑا کیوں ہے؟ اس کے ذریعے آپ اپنے صارفین کو کیا پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ پاکستان آپ کے لیے ترجیح ہے؟‘

https://twitter.com/MahaRathii/status/1711722013172150421

لیکن دیگر لوگوں ان اعتراضات کا واضح الفاظ میں جواب دیا ہے۔ سری کانت کے ایم آر نے بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’بی جے پیکا آئی ٹی سیل دنیا کی بڑی فیک فیکٹری ہے۔ جلد ہی اس کا خاتمہ ہوگا۔ اس میں وقت لگ سکتا ہے لیکن مستقبل میں ان پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔ در حقیقت سارے پرچم ایک ہی سائز کے ہیں۔‘

جبکہ دھرمیش جٹ نامی صارف نے لکھا کہ تمام پرچم ایک ہی سائز کے ہیں اور ایک ہی سطح پر لگے ہیں۔ آپ اسے دوسرے زاویے سے دیکھیں تو دوسرے پرچم بڑے نظر آئيں گے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ اسے کس زاویے دیکھتے ہیں۔ کس طرح تصویر لیتے ہیں۔ اور آپ کس فلور سے تصویر لے رہے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

کیا جلد ہی پاکستانی پرچم کو انڈین ترنگے پر برتری حاصل ہو پائے گی؟

انڈیا پاکستان گنڈا سنگھ بارڈر پر 200 فٹ بلند پاکستانی پرچم

https://twitter.com/aapkadharm/status/1711982552570110225

فیکٹ چیک کرنے والی ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے بھی اسے فیک قرار دیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ’بہت سے دائیں بازو کے انفلوئنسروں نے کیرالہ میں کوچی کے لولو مال کی تصویر شیئر کی ہے جہاں ایک پاکستانی پرچم انڈین پرچم سے اوپر اور بڑا نظر آ رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ نہیں ہے۔ تمام پرچم ایک ہی سائز کے ہیں اور ایک ہی سطح پر ہیں۔‘

https://twitter.com/zoo_bear/status/1711844191679267107

انھوں نے دوسرے ٹویٹس میں کئی تصاویر ڈالی ہیں اور اس کے ذریعے اپنی بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہت سے لوگوں نے انھیں سچائی بتانے کے لیے شکریہ ادا کیا ہے تو کئی لوگوں نے انھیں ٹرول بھی کیا ہے۔

دی انٹینٹ ڈیٹا نامی ہینڈل نے لکھا ہے کہ لولو مال کی انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ انڈین پرچم پاکستانی پرچم کے نیچے نہیں لگایا گيا ہے۔ جبکہ انٹینٹ نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’سوشل میڈیا انفلوئنسرز خاص ایجینڈے کے تحت پاکستانی پرچم کو کسی خاص زاویہ سے بڑا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

https://twitter.com/dintentdata/status/1711849603363123402

لولو مال کیرالہ کے تاجر ایم اے یوسف علی نے سنہ 2000 میں شروع کیا تھا۔ اس کا ہیڈکوارٹر ابوظہبی میں ہے جبکہ اس سوپر مارکیٹ کی برانچز کئی ممالک میں ہیں۔ صرف خلیجی ممالک میں اس کے 238 سٹورز ہیں۔ اس کے 13 مالز خلیجی ممالک میں ہیں جبکہ پانچ مالز انڈیا میں ہیں۔ تازہ ترین مال اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں کھلا ہے جو کہ انڈیا میں لولو کا سب سے بڑا مال ہے۔ اس کے علاوہ ملائیشیا اور انڈونیشیا میں بھی اس کی برانچز ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More