وہ افراد جن کے ڈی این اے ٹیسٹ نے ان کی زندگیاں بدل دیں

بی بی سی اردو  |  Oct 08, 2023

اگر آپ کے جینوم میں آپ کی شناخت کا راز چھپا ہوا ہے تو کیا ہو گا؟ ’دی گفٹ‘ نامی سیریز کی میزبان جینی کلیمین نے ایسے افراد سے ملاقات کی ہے جن پر یہ راز افشاں ہوا تو وہ حیران رہ گئے۔

کارا ربنسٹین نے اپنے والد کے لیے 2017 میں ایک ڈی این اے ٹیسٹ کٹ خریدی تھی تاکہ وہ جان سکیں کہ ان کے آباؤاجداد افریقہ میں کس مقام سے تعلق رکھتے تھے۔ اس سے قبل وہ اپنے خاندان کا ماضی چھانتے چھانتے ٹیکساس کے تین ایسے بھائیوں تک پہنچ چکی تھیں جو ایک زمانے میں غلام تھے۔ لیکن اب وہ جاننا چاہتی تھیں کہ ان کے خاندان کے یہ تین افراد افریقہ میں کس مقام سے تعلق رکھتے تھے۔

ایسی ڈی این اے کٹس اب عام ہو چکی ہیں اور دنیا بھر میں کروڑوں افراد اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروا چکے ہیں۔ کارا بھی ان میں سے تھیں جو اپنی شناخت تلاش کر رہی تھیں اور اسی مقصد سے انھوں نے اپنے لیے اور پھر اپنے والد کے لیے ایک کٹ خریدی۔

سفید فام والدہ اور سیاہ فام والد کے ساتھ امریکی ریاست سیاٹل میں پلنے بڑھنے والی کارا نے نسلی امتیاز کا سامنا کیا۔ ان کو یاد ہے کہ سکول میں بچے ان کو ’اوریو‘ یا ’زیبرا‘ کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ سکول میں ایک بار ان کی والدہ نے اس خانے پر نشان لگایا تھا جس پر لکھا تھا کہ بچی سیاہ فام ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’امریکہ میں یہ رواج ہے کہ اگر آپ میں افریقی رنگ و نسل کا ایک قطرہ بھی موجود ہے تو آپ کو سیاہ فام مانا جائے گا۔‘ اپنی والدہ کے اس فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’شاید انھوں نے سوچا ہو گا کہ مجھے مدد ملے گی۔‘

کارا کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے سکول منتظم نے ان کی والدہ کے فیصلے پر سوال اٹھایا لیکن کارا کہتی ہیں کہ ’نسل کا دارومدار صرف جلد کے رنگ پر نہیں بلکہ آپ کسی کو دیکھ کر اس کی قومیت نہیں جان سکتے۔‘

کارا کے اپنے ڈی این اے ٹیسٹ کا نتیجہ ان کی 44ویں سالگرہ سے کچھ ہی مدت پہلے آیا۔ ان کے سامنے ایک چارٹ موجود تھا جس میں فنش، جرمن اور برطانوی نسب تقریبا نصف حصے پر موجود تھا جبکہ دیگر نصف حصے کے مطابق وہ ایشکینزائی یہودی قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یعنی اس چارٹ کے مطابق جس شخص نے ان کو پالا پوسا تھا، وہ ان کا والد تھا ہی نہیں اور ناہی وہ افریقی امریکی قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔

ان کا تعلق ایک ایسی قومیت سے جوڑ دیا گیا تھا جس کے بارے میں وہ بلکل لاعلم تھیں۔ ’میں نے ایشکینزائی کا نام ہی پہلی بار سنا تھا۔ میرے خیال میں تو میری ماں کبھی کسی یہودی سے ملی تک نہیں۔‘ پھر انھوں نے مسکرا کر کہا ’ایک بار تو ملی ہیں۔‘

انکشافات کے پانچ سال بعد ہونے والی ہماری زوم کال کے دوران انھوں نے سٹار آف ڈیوڈ پہن رکھا تھا۔ انھوں نے یہودیت کو قبول کیا اور حال ہی میں اسرائیل میں چند ماہ گزار کر واپس آئی ہیں۔ ان کو معلوم ہوا کہ ان کے اصلی والد اس ڈی این اے ٹیسٹ سے 10 برس قبل وفات پا چکے ہیں اور ان کا خاندان کارا سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا۔

ان کو یہودیت سے آشنا کرنے والا کوئی نہیں تھا لیکن ان کے مطابق قبولیت کے بعد ہی ان کو محسوس ہوا کہ وہ اس مذہب سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔ ’میں پہلی بار ٹیمپل پر گئی اور پیچھے بیٹھ کر میں نے عبرانی زبان سنی تو فورا جیسے کسی چیز نے مجھے جھنجھوڑا۔‘

’دی گفٹ‘ نامی سیریز کی تیاری کے دوران میں نے دریافت کیا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کروانے والے کئی لوگوں کی زندگیاں نتائج کے بعد تبدیل ہو جاتی ہیں۔ جب آپ کو اچانک علم ہوتا ہے کہ آپ کا تعلق تو اس قوم سے تھا ہی نہیں جس پر آپ یقین کرتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں تو آپ کیا کریں گے؟ ہماری کتنی اساس ہماری جینیات سے آتی ہے؟ اور ہمیں اس قسم کے ٹیسٹ پر کتنا اعتماد کرنا چاہیے؟

شناخت کی سیاست کے دور میں آپ کی قومیت کی شناخت آپ کو حقوق دے سکتی ہے، مخصوص مقامات تک رسائی فراہم کر سکتی ہے اور آپ کو دوسروں سے دور بھی کر سکتی ہے۔ ایک اقلیتی گروہ سے تعلق رکھنے کا مطلب ہے کہ آپ کو امتیاز کا سامنا ہو گا، شاید بربریت تک کا لیکن جیسا کہ کارا کی والدہ جانتی تھیں کہ ایک شناخت موجودہ زمانے میں سکالر شپ دلوا سکتی ہے اور قسمت تک بدل سکتی ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ کی مقامی نسل سے تعلق رکھنے والے قبائل کے افراد کو مخصوص فوائد حاصل ہیں جیسا کہ وسکونسن کی ’ہو چنک قوم‘ جو ہائی سکول پاس کرنے پر قبیلے کی اجتماعی دولت سے دو لاکھ ڈالر تک کا حصہ دیتی ہے لیکن اس کے لیے یہ شرط ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ میں ثابت ہو کہ جینیات میں ایک مخصوص مقدار میں ہو چنک قوم کا ڈی این اے بھی شامل ہے۔

لیکن قوم کی شناخت میں صرف جینیات ہی اہم نہیں ہیں۔ مارک تھامس برطانیہ میں یونیورسٹی کالج لندن میں ارتقائی جینیات کے پروفیسر ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’ایسی ٹیسٹنگ کی تاریخ کافی متنازع ہے کیوں کہ لوگوں نے ماضی میں مضحکہ خیز دعوے کیے ہیں۔‘

ان کی جانب سے ایسے دعووں پر پہلی بار سوالات اٹھانے کے بعد کے برسوں میں چیزیں بہتر ہوئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اب بڑی کمپنیاں ایسا نہیں کرتیں لیکن مجھے ان کی جانب سے قومیت کا لفظ کا استعمال پسند نہیں ہے کیونکہ آپ کا حیاتیاتی نسب آپ کی قوم نہیں بلکہ یہ ایک معاشرتی طور پر طے ہونے والی کیٹیگری ہے۔‘

’میرے خیال میں وہ اس لفظ کو نسل کے طور پر استعمال کر رہے ہیں جو خود بھی ایک معاشرتی طور پر طے شدہ مفہوم ہے لیکن نسل کے بارے میں خیالات کا روایتی طور پر نسب سے تعلق رہا۔‘

گھر پر ڈی این اے ٹیسٹ کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنیاں اپنی وی سائٹ پر یہ تسلیم کرتی ہیں کہ ان کے نتائج غلطیوں سے پاک نہیں۔ مائی ہیریٹیج نامی سائٹ کا کہنا ہے کہ یہ اندازے ہوتے ہیں جن کی حدود ہیں اور یہ حدود مبہم ہیں جو ماضی میں بہت زیادہ پیچھے تک نہیں جا سکتیں۔

ٹوئنٹی تھری اینڈ می نامی سائٹ نے ایسے بہت سے عوامل کی نشاندہی کی ہے جو اس تخمینے اور ٹیسٹ کے نتائج کو ناقص بنا سکتے ہیں مثال کے طور پر لوگوں کا تعلق عام طور پر ایک سے زیادہ قوموں سے ہوتا ہے اور بائیو میڈیکل تحقیق یورپی قومیت کے ڈی این اے پر فوکس کرتی ہے جس کا مطلب ہے کہ متنوع آبادیوں کا بہت زیادہ ڈیٹا موجود نہیں ہے۔

اینسیسٹری ڈی این اے سائٹ واضح کرتی ہے کہ اس کے نتائج بلکل سو فیصد یہ نہیں بتا سکتے کہ کسی کے آباواجداد کہاں سے آئے۔

تاہم یہ بھی کمپنیاں اپنی مارکیٹنگ میں نسل اور قوم کی شناخت کے بارے میں بات کرتی ہیں۔ اور یہیں سے صارفین کی دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔

جیکبسن نیو یارک میں پلی بڑھیں۔ ان کے والدین 1947 میں ڈینمارک سے امریکہ آئے تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ جب وہ 16 سال کی تھیں تو ان کی والدہ کے بوائے فرینڈ نے کہا کہ جیکبسن کا اصلی والد تو سیاہ فام ہے۔ اس سے پہلے ان کو کبھی یہ شک بھی نہیں گزرا کہ وہ ڈینمارک کے علاوہ کہیں سے نسلی طور پر تعلق رکھتی ہیں۔

’میں حیران رہ گئی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔ میں دیکھنے میں بلکل سفید فام لگتی تھی۔‘

اپنے والد سے اس بات کا تذکرہ کیا تو انھوں نے جیکبسن سے کہا کہ وہ اپنی دادی سے اتنی ملتی ہیں کہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ لیکن ان کے ذہن میں شک کا بیج بو دیا گیا تھا۔ 60 سال کی عمر میں اس سوال کا جواب پانا ایک تھوک سے ممکن ہو گیا اور انھوں نے اپنا ڈی این اے ٹیسٹ بھجوا دیا۔

جب نتیجہ آیا تو اس پر لکھا تھا کہ وہ 25 فیصد مغربی افریقی ہیں۔ ’یہ اس سوال کی تصدیق تھی جو میرے ذہن میں 50 سال سے موجود تھا۔‘

انھوں نے اپنے بارے میں جاننے کی کوشش کا آغاز کیا۔ ان کا ڈی این اے ایک فرسٹ کزن سے میچ ہو گیا جن کو انھوں نے پیغام بھجوایا۔ انھوں نے مل کر تلاش کیا کہ جیکبسن کے اصلی والد پال میریز جونیئر نامی ایک رقاص تھے۔

جیکبسن نے اپنے اصلی والد کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھی اور انھوں نے اپنی نئی شناخت کو قبول کرتے ہوئے اپنا لباس بھی بدل لیا۔ انھوں نے نائجیریا میں پہنا جانے والا ایک مخصوص سکارف استعمال کرنا شروع کیا اور اپنے 28 سالہ بیٹے کے لیے بھی ایک رنگا رنگ مغربی افریقی شرٹ خریدی۔

لیکن ان کے بیٹے کو یہ آرام دہ محسوس نہیں ہوا۔ الیک کہتے ہیں کہ ’یہ بہت خوبصورت تھی لیکن مجھے لگا یہ کوئی مذاق ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو میں پہن سکوں۔‘

الیک نے اپنی والدہ سے کہا کہ ان کا ڈی این اے جو بھی دکھائے لیکن اگر ایک شخص سفید فام نظر آتا ہے تو وہ ایک سیاہ فام کے طور پر دنیا کو نہیں دیکھ سکتا۔ ’نسل کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ آپ کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ اس سلوک کے بارے میں ہے جو معاشرہ آپ سے روا رکھتا ہے۔‘

جیکبسن کہتی ہیں کہ ’جب مجھے اپنے بیٹے کی بات سمجھ آئی تو یہ ایک نئی جدوجہد کا آغاز تھا۔ اس سے نسل کے بارے میں میری سوچ بدل گئی۔ مجھے بہت کچھ سیکھنا تھا۔‘

جیکبسن نے سیاہ فاموں کی تاریخ اور ثقافت پر کتابیں پڑھنا شروع کر دیں خصوصا 1960 کے سول حقوق کے دور کے بارے میں۔ پھر 2020 میں جارج فلوئڈ کا قتل ہوا۔

تاہم یہ ایک ایسا راستہ تھا جس میں وہ اپنی نئی شناخت کو نہ تو مسترد کر پا رہی تھیں اور نہ ہی اسے قبول کر پا رہی تھیں جو کافی مشکل ثابت ہوا۔ وہ کہتی ہیں ’یہ کسی بارودی سرنگ جیسا تھا۔‘

کارا اور جیکبسن اپنے ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج سے ظاہر ہونے والی شناخت کے بارے میں جاننا چاہتی تھیں۔ لیکن اگر ایسا ہی ٹیسٹ کسی کو کوئی ایسی بات بتا دے جو وہ جاننے کا خواہش مند ہی نہ ہو تو پھر؟

’سٹورم فرنٹ‘ نیو نازیوں اور سفید فام برتری میں یقین رکھنے والوں کا ایک آن لائن فورم ہے جہاں ایسی کئی پوسٹس موجود ہیں جن میں لوگوں نے بتایا ہے کہ جب انھوں نے اپنی نسل کی شناخت کے لیے ٹیسٹ کروایا تو ان کو علم ہوا وہ اتنے سفید فام نہیں جتنا وہ سمجھتے تھے۔

ایک پوسٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’میں 61 فیصد یورپی ہو اور اپنی سفید نسل پر فخر کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سے لوگ مجھ سے زیادہ سفید ہیں لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ ہمارا مقصد ایک ہی ہے۔ میں سفید فام نسل کے تحفظ کے لیے جو ممکن ہو کرنے کو تیار ہوں۔‘

اس پوسٹ پر ایک جواب میں کہا گیا ’میں نے تمھارے لیے ایک مشروب تیار کیا ہے جس میں 61 فیصد پانی ہے اور باقی پوٹاشیئم سائینائیڈ ہے۔ میرا خیال ہے تمھیں اس کو پینے میں کوئی تحفظات نہیں ہوں گے۔ (تمھیں اس کو پہلے ہلانا ہو گا کیوں کہ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ یہ صرف پانی نہیں ہے۔) سائینائیڈ پانی نہیں ہوتا اور تم بھی سفید فام نہیں ہو۔‘

ایرون پنوفسکی، کیلیفورنیا یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف سوسائٹی اینڈ جینیٹکس کے ڈائریکٹر، اور ہارورڈ کینیڈی سکول کے سوشیالوجسٹ جوان ڈونووان نے اسی فورم کی 639 پوسٹس کا تجزیہ کیا تاکہ وہ جان سکیں کہ سفید فام برتری پر یقین رکھنے والے غیر متوقع ڈی این اے نتائج پر کیا ردعمل دیتے ہیں۔

انھوں نے جانا کہ مختلف لوگوں کی حکمت عملی مختلف ہوتی ہے۔ چند معاملات میں ایسے صارف کو کمیونٹی نے مسترد کر دیا جبکہ دیگر میں ٹیسٹ کے نتیجے کو مسترد کر دیا گیا۔

ایرون بتاتے ہیں کہ ’کچھ نے جواب دیا کہ اپنی سفیدی کو جاننے کے لیے سائنس کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ سفید فام قوم پرست ہیں تو آپ نسل کو دیکھ سکتے ہیں، جان سکتے ہیں، محسوس کر سکتے ہیں اور کوئی بھی ٹیسٹ یہ نہیں بتائے گا۔‘

’کبھی سازشی نظریے بھی نظر آتے ہیں جیسا کہ کہا جائے گا کہ ایسی کمپنیوں کو ڈی این اے کیوں بھیجا جو سفید فام قوم پرستوں پر نظر رکھنے اور کنٹرول کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم کون ہیں۔‘

ایرون کے مطابق سفید فام قوم پرست بھی سفید نسل کے بارے میں کوئی مستحکم اور مستقل سمجھ بوجھ نہیں رکھتے اور مسلسل بحث اور تنازعات میں گھرے رہتے ہیں۔

کارا کے لیے اب شناخت کو بدلنا ممکن نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں افریقی امریکی ثقافت سے اور اپنی یہودی شناخت دونوں سے محبت کرتی ہوں۔‘ وہ ایک ایسی تنظیم چلاتی ہیں جو لوگوں کو غیر متوقع ڈی این اے نتائج کے بعد مدد فراہم کرتی ہے۔

جیکبسن کہتی ہیں کہ ’میں لوگوں کو یہ نہیں کہتی کہ میں سیاہ فام ہوں لیکن میں دل میں جانتی ہوں اور اپنی اس شناخت کو محسوس کرتی ہوں۔‘

ڈی این اے نتائج آپ کو یہ بتا سکتے ہیں کہ آپ کے رشتہ دار کون ہیں لیکن جینیاتی طور پر سفید فام یا سیاہ فام ہونے جیسی کوئی چیز نہیں اور یہ شناختیں مستقل طور پر بدلتی رہتی ہیں، ان کمپنیوں میں بھی جو یہ کٹس فروخت کر رہی ہیں۔ ایک کمپنی کے نتائج کسی دوسری کمپنی سے مختلف ہو سکتے ہیں۔

کارا کا کہنا ہے کہ ’ہمارے معاشرے میں شناخت کے کئی پہلو ہیں۔ ہم پیچیدہ ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا ڈی این اے کارڈ کیا کہتا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More