Getty Imagesکھٹملوں کے کاٹنے سے بڑی خارش ہوتی ہے لیکن پھر خود بخود ختم ہو جاتی ہے
کہا جا رہا ہے کہ پیرس اور دیگر فرانسیسی شہروں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے کیونکہ حالیہ ہفتوں میں بظاہر بیڈ بگز یا بستر میں پلنے والے کیڑے یا کھٹملوں کے کاٹنے سے انفیکشن میں اضافہ ہوا ہے۔
اگرچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی نیا رجحان نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب ہیں۔
چلیے ان کے متعلق کچھ بنیادی حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ کھٹمل کیسے نظر آتے ہیں؟
کھٹمل چھوٹے ہوتے ہیں، بالغ کھٹملوں کی لمبائی تقریباً 5 ملی میٹر تک ہوتی ہے (چاول کے دانے سے بھی کم) اور یہ بیضوی شکل کے ہوتے ہیں۔ ان کی چھ ٹانگیں ہیں اور یہ گہرے پیلے، سرخ یا بھورے رنگ کے ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق کھٹملوں کی دنیا بھر میں تقریباً 90 انواع ہیں، حالانکہ عام بیڈ بگ (cimex lectularius) نے اپنے آپ کو انسانی ماحول کے لیے بہترین طریقے سے ڈھال لیا ہے۔
’بیڈ بگ‘ لفظ شاید تھوڑا سا گمراہ کن بھی ہوسکتا ہے کیونکہ کھٹمل گدوں کے ساتھ ساتھ، لباس، فرنیچر، بستر کے فریموں، یا ڈھیلے وال پیپر کے پیچھے بھی مل سکتے ہیں۔
کس طرح پتہ چلے گا کہ بستر میں کھٹمل ہیں؟
سب سے پہلے تو ان کے کاٹنے سے ہی پتہ چل جائے گا اور یہ سب سے اہم بھی ہے اور جس کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس جگہ پر عموماً خارش ہوتی ہے۔ ان کے کاٹنے کے نشان اکثر ایک لائن میں ہوتے ہیں یا پھر ایک جگہ گروپ کی شکل میں۔
سفید جلد پر کاٹے عام طور پر سرخ نظر آتے ہیں، جبکہ سیاہ یا بھوری جلد پر وہ جامنی اور دیکھنا مشکل ہو سکتے ہیں۔
دوسری چیزیں جن کا خیال رکھنا ہے وہ ہیں بستر پر خون کے دھبے، یعنی کہ کھٹمل کچلا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہبستر یا فرنیچر پر چھوٹے بھورے دھبے، جو ان کا پاخانہ ہو سکتا ہے۔
برٹش پیسٹ کنٹرول ایسوسی ایشن سے تعلق رکھنے والی نٹالی بنگے کہتی ہیں کہ سفر کے دوران کیڑوں کی جانچ کرنا بہت ضروری ہے اور یہ کہ ’پرہیز ہمیشہ علاج سے بہتر ہوتا ہے۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کسی ایسے علاقے میں ہیں جہاں تھوڑی سی وبا پھیلی ہوئی ہے، تو سب سے بہتر کام یہ ہے کہ آپ اپنی تمام اشیا کو چیک کریں - ہو سکتا ہے کہ وہ سوٹ کیس میں سفر کر رہے ہوں۔‘
’کسی بھی سامان کو چیک کریں جو آپ نے کمرے میں رکھا ہے کیونکہ ہم اکثر اپنے سوٹ کیس یا بیگ بستر پر رکھتے ہیں۔‘
آپ کھٹمل کے کاٹنے کا علاج کیسے کرتے ہیں؟
اگرچہ یہ اکثر تکلیف دہ ہوتا ہے، لیکن پھر بھی کھٹمل کا کاٹنا عام طور پر خطرناک نہیں ہوتا۔
اس جگہ پر بہت خارش ہو سکتی ہے، یا پھر کچھ پُر درد سوجن، لیکن وہ عام طور پر تقریباً ایک ہفتے میں خود ہی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ یا پھر ان کا علاج کے لیے کچھ بنیادی اقدامات کیے جا سکتا ہیں۔
جیسا کہ:
اس جگہ پر کوئی ٹھنڈی چیز لگانا، جیسے گیلا کپڑامتاثرہ جگہ کو صاف رکھنااور بار بار زور زور سے خارش سے پرہیز کریں
اگر آپ کو کھٹملوں کے کاٹنے کے بعد بہت زیادہ خارش ہو تو اینٹی ہسٹامائنز مدد کر سکتی ہیں، جبکہ ہائیڈروکارٹیزون جیسی ہلکی سٹیرائیڈ کریم مفید ہو سکتی ہے۔
ایک شدید الرجک رد عمل، جسے anaphylaxis کہا جاتا ہے، ممکن ہے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔
اگر فارماسسٹ سے علاج کروانے کے بعد کاٹنے کی جگہ پر درد، سوجن یا خارش جاری رہے، یا کاٹنے کے ارد گرد درد یا سوجن پھیل جائے تو ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنا احوال بتائیں۔
کھٹملوں سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے؟
یہ مشکل ہوسکتا ہے لیکن کچھ ایسے اقدامات ہیں جو ان سے بچا سکتے ہیں، جیسا کہ:
آلودہ بستروں اور کپڑوں کو گرم پانی میں دھونا اور کم از کم 30 منٹ تک انھیں خشک ہونے دیناکپڑے یا بستر کی چادر کو پلاسٹک کے تھیلے میں ڈال کر تین یا چار دن کے لیے فریزر میں رکھنا
گھر کو باقاعدگی سے صاف کرنا۔ کھٹمل صاف اور گندی دونوں جگہوں پر پائے جاتے ہیں، لیکن باقاعدگی سے صفائی ان کی نشاندہی کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔
دوسرے اقدامات میں بستروں کے ارد گرد بہت زیادہ اشیا جمع کرنے سے گریز کرنا، یا سیکنڈ ہینڈ فرنیچر کی گھر کے اندر لے جانے سے پہلے جانچ کرنا بھی شامل ہے۔
بی سی پی اے سے تعلق رکھنے والی محترمہ بنگے کہتی ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ آپ گھر میں کھٹملوں کی موجودگی پر شرمندہ نہ ہوں اور کسی ماہر پیسٹ کنٹرولر کو بلائیں کریں، اور انھیں ’عوامی صحت کے خلاف کیڑوں‘ کے طور پر بیان کریں، اگرچہ ایسا بنیادی طور پر زیادہ نفسیاتی وجوہات کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ بیماری کو منتقل کرتے ہیں لیکن جب وہ آپ کے گھر میں پائے جاتے ہیں تو اس کا ایک نفسیاتی اثر ہوتا ہے۔‘
’وہ ہمارے خون پر پلتے ہیں، وہ ہمیں بس پسند کرتے ہیں۔‘