Getty Images
ہمارے منھ کے اندر بیکٹیریا کی موجودگی فطری نظام کا ایسا حصہ ہے جو غذا کو ہضم کرنے میں مددگار رہتے ہیں تاہم ان صحت مند بیکٹیریا کے ساتھ اگر کچھ نقصان دہ بیکٹیریا بھی ہمارے منہ کو اپنے رہنے کا ٹھکانہ بنا لیں تو پھر صحت کے کئی مسائل کا آغاز یہیں سے شروع ہو سکتا ہے۔
طبی سائنسدان گلینڈا ڈویژن نے اسی اہم موضوع پر تحقیق میں بتایا ہے کہ منھ کی صفائی حفظان صحت کے لیے کیوں ضروری ہے۔
کیا منھ کی ناقص صفائی سنگین بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے؟
منہ کی صفائی (اورل ہائیجین) میں اگر حفظان صحت کے اصولوں کو مد نظر نہ رکھا جائے تو اس سے غیر معمولی بیکٹیریل کمیونٹیز پنپنے لگتی ہیں جس سے جگر کی بیماری، گردے کی خرابی، کینسر، دل کی بیماری اور ہائی بلڈ پریشر تک ہو سکتا ہے۔
منھ کو معدے اور باقی جسم کی بیماریوں کا ’دروازہ‘ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ ہماری آنتوں کی طرح ہمارا منہ بیکٹیریا، پھپوندی، وائرس اور پروٹوزوا کی کئی متنوع کالونیوں کا گھر ہے۔
منھ میں پلنے والے جراثیموں (مائیکرو آرگینیزم ) کی 700 سے زیادہ اقسام ہیں تاہم ایس 16 جیسی نئی ٹیکنالوجیز نے محققین کو ان کے جینیاتی طور پر بننے اور ان کے نسلوں تک منتقل ہونے جیسے موضوع کا مطالعہ کرنے کی اجازت دی ہے۔
منہ کے اندر پائے جانے والے یہ جرثومے ہمارے دانتوں، مسوڑھوں، زبان، تالو اور تھوکسمیت پورے منہ میں پائے جاتے ہیں اور عام طور پر ان کا ہمارا ساتھ زندگی بھر کا ہوتا ہے تاہم اگر ان میں توازن بگڑ جائے تو صحت کے لیے نقصان دہ بیکٹیریا غالب ہو سکتے ہیں جو مسوڑھوں سے خون بہنے اور مسوڑھوں کی سوزش، دانتوں پر پلاک جمنےسمیت منہ کی بہت سی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
Getty Imagesجرثوموں کا غیر متوازن عمل جو معدے کی خرابی پیدا کرے
منہ کے اندر پی ایچ (تیزابیت یا الکلائنٹی) کا تناسب، درجہ حرارت اور آکسیجن میں تبدیلیاں بیکٹیریا کے گروپوں کی غیر معمولی نشوونما کا سبب بنتی ہیں تاہم عام طور پروہ بے ضرر ہوتے ہیں لیکن جب کسی وجہ سے جب وہ صحت مند جرثوموں پر غالب آ جائیں تو بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔
منہ کے اندر پائے جانے والے بیکٹیریا کی ترتیب میں خلل آنے سے منہ کے اندر سوزش اور مسوڑھوں کی بیماریوں، ان سے خون کا اخراج اور دانتوں کے سڑنے کا سبب بنتا ہے۔
چونکہ مسوڑھوں کی بیماری انھیں تباہ کر کے ہڈی کو ختم کرنا شروع کر دیتی ہے تو اس سے سائٹوکائنز نامی سوزش کے مالیکیول خون میں داخل ہو کر قوت مدافعت کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں ٹائپ ٹو ذیابیطس، خون کی شریانوں کا سخت ہو جانا اور موٹاپے سمیت بہت سی دیگر بیماریوں کی نشوونما کے ساتھ دائمی مگر کم درجے کی سوزش تک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بیکٹیریا خود بھی مسوڑوں کےآس پاس کی بافتوں تک سفر کر کے زہریلے مادوں کو چھوڑ سکتے ہیں جو پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں۔
سائنس کے مطابق اسی طرح بڑی آنت میں بیکٹیریا کی ایک ہزار سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں جو ہاضمے، غذا کو جذب کرنے، قوت مدافعت اور زہریلے اور نقصان دہ بیکٹیریا سے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
انسان آنتوں میں پائے جانے والے صحت مند اور متنوع بیکٹیریا کے بنا رہ نہیں سکتا۔ اگر جرثوموں کا متوازن عمل بحال نہ ہو تو معدے کی خرابی کا سامنا ہوتا ہے۔
حالیہ تحقیق نے آنتوں میں پائے جانے والے بیکٹیریا کی غیر معمولی افزائش کو مختلف بیماریوں سے جوڑ دیا ہے جیسا کہ قوت مدافعت کا متاثر ہونا، موٹاپا، قلبی بیماری یہاں تک کہ الزائمر۔
Getty Imagesجسم میں بیکٹیریا کہاں سے آتے ہیں؟
انسانی جسم میں 39 کھرب جرثومے (مائیکروبس) موجود ہیں جو ایک اندازے کے مطابق 30 کھرب انسانی سیلز سے بھی ذیادہ ہیں اور یہ انسانی جسم کے تقریباً ہر عضو اور شگاف میں رہتے ہیں
یہ جرثومے ہماری آنت، جلد، پھیپھڑوں، مرد وخواتین کے جنسی اعضا کی رطوبتیں، آنکھوں، کھوپڑی اور منہ میں جاتے ہیں۔
جرثوموں کی ان آماجگاہوں میں سے ہر ایک کا اپنا ماحول ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ اور آس پاس کے بافتوں کے ساتھ ہم آہنگی میں رہتے ہیں۔ اگر دوستی کا یہ رشتہ خراب ہو جائے تو نتیجہ کسی نہ کسی بیماری کی صورت میں نکلتا ہے۔
ان میں سے زیادہ تر جرثومے پیدائش کے وقت ہمیں ہماری ماؤں سے مل جاتے ہیں اور دنیا میں آنے کے ساتھ ہی ہمارے اندر منتقل ہو جاتے ہیں۔
بچہ دانی جراثیم سے پاک ہوتی ہے لیکن جیسے ہی بچہ ماں کے پیٹ سے نکل کر باہر کی دنیا میں آتا ہے، بیکٹیریا اور دیگر جرثومے نومولود پر قبضہ کر لیتے ہیں اور ایک منفرد ماحولیاتی نظام تشکیل دیتے ہیں جسے ’ہیومن مائیکرو بایوم‘ کہا جاتا ہے۔
جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے جاتے ہیں یہ جرثومے مزید متنوع ہوتے جاتے ہیں اور ہماری خوراک، طرز زندگی، جانوروں کے ساتھ معاملات اور ماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔
یماریوں کے بڑھنے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے اس توازن کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔
ماؤتھ واش کا ضرورت سے زیادہ استعمال خرابی کا باعث
منہ کی اچھی صحت ( اورل ہیلتھ) میں دانتوں کا باقاعدگی سے معائنہ، دانتوں کو پابندی سے برش کرنا، کاربوہائیڈریٹس اور شوگر والی والی غذاؤں سے پرہیز کرنا شامل ہے کیونکہ یہ غذائیں دانتوں کی خرابی اور کیویٹی میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔
منہ میں بیکٹیریا کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیےیہ سفارشبھی کی جاتی ہے کہ تازہ پھل اور سبزیوں پر مشتمل اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور غذاؤں کو خوراک میں شامل کیا جائے۔
دانتوں کے ڈاکٹر اینٹی بیکٹیریل ماؤتھ واش کے استعمال سے گریز کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ ان کے مسلسل استعمال سے جرثوموں (مائیکروبس) کے توازن میں بگاڑ آ سکتا ہے۔
ماوتھ واش کا ضرورت سے زیادہ استعمال فائدے کی بجائے خرابی کا باعث بن سکتا ہے اور بیکٹیریا افزائش کو متحرک کر کے بیماری کا سبب بن سکتا ہے۔
ورزش کی کمی اور بڑھتے تناؤ (سٹریس) کی کیفیت بھی منہ میں موجود بیکٹیریاکے توازن میں رکاوٹ کا سبب بن جاتے ہیں لہذا مناسب آرام کے ساتھ ایک متوازن غذا اور حفظان صحت کے اصولوں کے ساتھ منہ کی اچھی صفائی کی سفارش کی جاتی ہے.
منہ آنت اور باقی جسم کا گیٹ وے ہے۔ بیماری کے خطرے کو کم کرنے کے لیے وہاں رہنے والے جرثوموں کی ہم آہنگی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔