انقلابی ہیرو بھگت سنگھ کیا واقعی کسی عورت کے عشق میں گرفتار تھے؟

بی بی سی اردو  |  Oct 04, 2023

BBC

’جہاں تک محبت کے اخلاقی معیار کا تعلق ہے، میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک تحریک کے سوا کچھ نہیں لیکن یہ حیوانی جبلت نہیں۔ یہ بہت پیارا انسانی احساس ہے۔ محبت میں حیوانیت نہیں ہو سکتی۔ محبت انسان کے کردار کو بلند کرتی ہے۔ سچی محبت کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ یہ اپنے طریقے سے ہوتی ہے لیکن کوئی نہیں بتا سکتا کہ کب۔‘

’میں کہہ سکتا ہوں کہ ایک مرد اور عورت ایک دوسرے سے محبت کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے جذبوں کی مدد سے، اپنی محبت کی مدد سے تعلق کی پاکیزگی کو بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔‘

بھگت سنگھ نے انڈین پارلیمنٹ میں بم پھینکنے سے پہلے دلی کے سیتا رام بازار میں ایک مکان سے اپنے ساتھی انقلابی سکھدیو کو ایک خط میں یہ جملے لکھے تھے۔ یہ خط شیو ورما (بھگت سنگھ کے انقلابی دوست) نے سکھدیو تک پہنچایا تھا۔

سکھ دیو سے یہ خط اس وقت ملا جب ان کو گرفتار کیا گیا اور پھر یہ خط لاہور سازش کیس میں بطور ثبوت عدالت میں پیش کیا گیا لیکن کیا اس خط میں بھگت سنگھ محبت کا اقرار کر رہے تھے اور اگر ایسا تھا تو وہ کس عورت کا ذکر کر رہے تھے؟

یہ ایک ایسا معمہ ہے جس پر مورخین اور مصنفین متفق نہیں تاہم اس عورت کا ذکر اور بھگت سنگھ کی مبینہ محبت کا ایک ایسا حوالہ ضرور موجود ہے جو کافی اہم لیکن متنازع ہے۔

واضح رہے کہ 23 سالہ نوجوان بھگت سنگھ کو 1923 میں لاہور کی سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی تاہم ان کی شخصیت متعدد وجوہات کی بنا پر تاریخ میں زندہ رہی ہے۔

’میں بھگت سنگھ بول رہا ہوں‘ نامی کتاب میں مصنف اور سینیئر صحافی راج شیکھر ویاس لکھتے ہیں ’جب انڈین پارلیمنٹ میں بم پھینکنے کے منصوبے کے لیے رضاکاروں کے انتخاب کے حوالے سے ایک میٹنگ چل رہی تھی، تو بھگت سنگھ کو بم پھینکنے کی ذمہ داری دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔‘

تاہم اسی موقع پر ایک تاریخی روایت کے مطابق بھگت سنگھ کے قریبی دوست سکھدیو نے بھگت سنگھ پر طنز کیا کہ وہ ’اس عورت سے محبت کی وجہ سے مرنے سے ڈرتا ہے۔‘

ان الزامات کے بعد بھگت سنگھ نے دوبارہ انقلابیوں کا اجلاس بلایا اور پارلیمنٹ میں بم پھینکنے کی ذمہ داری لی۔

سکھدیو کے الزام پر بھگت سنگھ کا ردعمل

بھگت سنگھ پر تحقیق کرنے والے محققین کے مطابق بھگت سنگھ سکھدیو کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی وجہ سے ناراض ہو گئے تھے۔

اس کے بعد انھوں نے سکھدیو کو ایک خط لکھا جو بعد میں ’محبت ہمیں بلند کرتی ہے‘ کے عنوان سے مشہور ہوا۔

اس خط میں بھگت سنگھ نے لکھا کہ ’میں اس سوال پر اپنا موقف پیش کر سکتا ہوں جس پر ہم بحث کر رہے ہیں۔ میں امیدوں اور امنگوں سے بھرا ہوا ہوں۔ میں زندگی کے رنگوں سے مغلوب ہوں لیکن اگر ضروری ہو تو میں یہ سب چھوڑنے کو تیار ہوں۔ یہ واقعی ایک قربانی ہے۔‘

بھگت سنگھ اس خط میں مزید لکھتے ہیں کہ ’کسی کے کردار پر الزام لگانے سے پہلے غور کرنا چاہیے کہ کیا محبت نے کسی شخص کی مدد کی؟ تو میرا جواب ہاں میں ہے، آپ نے مازینی (اطالوی انقلابی اور مصنف جس نے اٹلی کو متحد کرنے کی کوشش کی) پڑھا ہوگا۔ اپنی پہلی بغاوت کی ناکامی کے بعد وہ یا تو پاگل ہو جاتا یا خودکشی کر لیتا لیکن اس کی محبوبہ کے ایک خط نے اسے مزید مضبوط کر دیا۔‘

’میں نے ایک محبت کو ٹھکرا دیا۔ یہ بھی ایک مثالی دور تھا لیکن محبت کا احساس مضبوط ہونا چاہیے جو ایک شخص سے اوپر اٹھ کر پوری دنیا کے ساتھ بانٹا جا سکتا ہے۔‘

اس خط نے بھگت سنگھ کی محبت کے معمے کو مزید پراسرار بنا دیا کیونکہ نہ تو انھوں نے یہ اعتراف کیا کہ وہ اس عورت سے محبت کرتے تھے یا نہیں اور نہ ہی اس عورت کا نام لکھا۔

وہ عورت کون تھی؟

معروف صحافی اور مصنف کلدیپ نیر اپنی کتاب ’سرفروشی کی تمنا-بھگت سنگھ کی زندگی اور مقدمہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سکھدیو نے بھگت سنگھ کے دل کو بہت تکلیف دی۔ اس نے کہا کہ اب تمھیں انقلاب کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ تم ایک عورت کی زلفوں میں پھنس گئے ہو۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’سکھدیو درگا دیوی کا ذکر کر رہے تھے جس نے برطانوی پولیس افسر سانڈرز کے قتل کے بعد بھگت سنگھ کو گرفتاری سے بچانے کے لیے لاہور سے کلکتہ تک ٹرین میں ان کی بیوی بن کر سفر کیا تھا۔‘

کلدیپ نیر لکھتے ہیں کہ ’یہ سچ ہے کہ درگا دیوی کی شادی ہو چکی تھی۔ اس کا ایک بیٹا بھی تھا لیکن دونوں مل کر پارٹی کے لیے کام کر رہے تھے۔ پارٹی میں اچھے اور برے لمحات ایک ساتھ بانٹتے تھے۔ تو کیا دونوں کے درمیان کوئی اور رشتہ تھا؟ بھگت سنگھ نے اس بارے میں کبھی کچھ نہیں کہا۔‘

کلدیپ نیر لکھتے ہیں کہ ’کسی اور انقلابی نے بھی کبھی وہ بات نہیں کہی جس جانب سکھدیو نے اشارہ کیا۔ یہاں تک کہ چندر شیکھر آزاد نے بھی نہیں، جو ان کے لیے باپ جیسا تھا۔ شاید آزاد نے یہ بھی محسوس کیا کہ محبت کوئی ایسا رشتہ نہیں جس پر تنقید کی جائے یا اس کا مذاق اڑایا جائے۔‘

’سکھدیو کے الزامات کے بعد، آزاد سمجھ سکتے تھے کہ بھگت سنگھ پر کیا گزر رہی ہے۔‘

کلدیپ نیر نے درگا دیوی سے بھی ملاقات کی لیکن کتاب میں ذکر نہیں کہ ان سے اس سلسلے میں کوئی بات چیت ہوئی یا ان کی طرف سے کوئی وضاحت کی گئی۔

انھوں نے صرف اتنا ذکر کیا کہ پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے درگا دیوی نے بھگت سنگھ کے ساتھ لاہور سے کلکتہ تک ٹرین کے ذریعے دلچسپ سفر کی معلومات دی تھیں۔

BBCسکھدیو کو بھی بھگت سنگھ اور راجگرو کے ساتھ 23 مارچ 1923 کو لاہور کی سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی’بھگت سنگھ کے عشق کا کوئی ثبوت نہیں‘

بھگت سنگھ کی بھانجی وریندر سندھو نے بھی ایک کتاب میں اس معاملے پر کوئی روشنی نہیں ڈالی۔

وریندر سندھو نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’پارلیمنٹ پر بم پھینکنے والے انقلابیوں کے ابتدائی گروپ میں بھگت سنگھ کا نام نہ ہونے پر بھگت سنگھ اور سکھدیو کے درمیان لڑائی ہوئی تھی اور سکھدیو نے انھیں بزدل بھی کہا تھا۔‘

انھوں نے اس خط کا بھی ذکر کیا، جو بھگت سنگھ نے سکھدیو کو لکھا تھا۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر چمن لال، جنھوں نے بھگت سنگھ پر تحقیق کرنے کے بعد ایک کتاب بھی لکھی ہے، نے بی بی سی گجراتی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس (عشق) کا کوئی ثبوت نہیں۔‘

چمن لال کہتے ہیں کہ ’یہ سچ ہے کہ کچھ کتابوں میں یہ ذکر ہے کہ سکھدیو اور بھگت سنگھ کے درمیان اس معاملے پر لڑائی ہوئی تھی۔ سکھدیو ایک سخت مزاج شخص تھا اور تند و تیز الفاظ استعمال کرتا تھا لیکن سیاق و سباق سے ہٹ کر یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ بھگت سنگھ کا درگا دیوی سے محبت کا رشتہ تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’بہت سی انقلابی خواتین بھگت سنگھ سے متاثر تھیں۔ بھگت سنگھ ایک موثر، ہنر مند، منطقی، ذہین انسان تھے جو خواتین کے ساتھ شائستگی سے پیش آتے اور نہایت مہذب تھے۔‘

’لوگ ان کے خیالات کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے اور اسی وجہ سے خواتین انقلابیوں نے بھگت سنگھ کے ساتھ بات چیت اور کام کرنے میں زیادہ آسانی محسوس کی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام خواتین کا بھگت سنگھ سے کوئی خاص تعلق تھا۔‘

چمن لال سوال کرتے ہیں کہ ’اگر بھگت سنگھ نے دوسرے انقلابیوں کی بہنوں کو بھی خطوط لکھے تھے، تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ان کے محبت کے تعلقات تھے جن سے وہ خط و کتابت کرتے تھے؟ نہیں، ایسا نہیں۔ ہرگز نہیں۔‘

چمن لال کا دعوی ہے کہ کچھ لوگوں نے ایسی سنسنی خیز معلومات خود گھڑی ہیں جو کہ انتہائی قابل اعتراض بات ہے۔

جب درگا دیوی بھگت سنگھ کی ’بیوی‘ بن گئیں

سائمن کمیشن 30 اکتوبر 1928 کو لاہور پہنچ رہا تھا تو اس کمیشن کیخلاف ایک مظاہرے کے دوران پولیس سپرنٹنڈنٹ جے اے سکاٹ نے لاٹھی چارج کا حکم دیا اور لالہ لجپت رائے جی کو لاٹھیوں سے بے رحمی سے مارا گیا۔ زخمی لالہ جی کا انتقال 17 نومبر 1928 کو ہوا۔

اس واقعے کے بعد 10 دسمبر 1928 کی رات انقلابیوں کا اجلاس ہوا۔ درگا دیوی نے اجلاس کی صدارت کی اور لالہ جی کی موت کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ چار لوگوں کو ذمہ داری سونپ دی گئی جن میں بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد، راج گرو اور جئے گوپال شامل تھے۔

17 دسمبر 1928 کو سکاٹ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا لیکن جئے گوپال کی غلطی کی وجہ سے سکاٹ کی جگہ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جے پی سانڈرز مارے گئے۔ انقلابی فرار ہو گئے اور ان کا پیچھا کرنے والا ایک پولیس ہیڈ کانسٹیبل بھی فائرنگ میں مارا گیا۔

بھگت سنگھ چھپتے چھپتے درگا دیوی کے پاس پہنچے جو انقلابیوں کے ساتھی بھگوتی چرن وہرا کی بیوی تھیں۔ سکھدیو نے منصوبہ بنایا کہ درگا دیوی بھگت کی ’بیوی‘ بنیں گی اور بھگت سنگھ کو فرار ہونے میں مدد کریں گی۔

درگا دیوی کے شوہر پہلے ہی ایک کیس میں فرار تھے اور کانگریس کانفرنس میں شرکت کے لیے کلکتہ گئے ہوئے تھے۔

درگا دیوی ’سجاتا‘ اور بھگت سنگھ ’رنجیت‘ بن گئے۔ درگا دیوی کا تین سالہ بیٹا سچن بھی ان کے ساتھ تھا۔ راج گرو ان کے نوکر بن گئے۔ شوہر نے یورپی لباس پہنا اور بیوی نے مہنگی ساڑھی اور اونچی ایڑی کے سینڈل پہنے۔

BBC

دونوں ٹرین میں بیٹھ گئے لیکن درگا دیوی نے انھیں کانپور اترنے کا مشورہ دیا جہاں وہ دونوں ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔

درگا دیوی نے اپنے شوہر کو ٹیلی گراف کیا کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ کلکتہ آ رہی ہیں۔ یہ ٹیلی گرام ملنے کے بعد درگا دیوی کے شوہر حیران رہ گئے کیونکہ درگا دیوی کا کوئی بھائی نہیں تھا۔

کلدیپ نیر لکھتے ہیں کہ ’بھگت سنگھ نے درگا دیوی کے ساتھ دو دن کی رفاقت کے دوران کچھ مختلف تجربہ کیا۔ بھگت سنگھ نے درگا دیوی کو کھل کر اپنی زندگی اور اپنے عقائد کے بارے میں سب کچھ بتایا۔‘

کلدیپ نیر لکھتے ہیں ’ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے خیالات، احساسات اور خوف درگا دیوی کے ساتھ شیئر کرنا چاہتے ہیں۔ بھگت سنگھ کی مختلف شخصیت جان کر درگا دیوی بھی دنگ رہ گئیں۔ اس سے پہلے وہ بھگت سنگھ کو ایک انقلابی کے طور پر جانتی تھیں جو صرف اپنے سر سے سوچتا ہے نہ کہ اپنے دل سے۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’بھگت سنگھ پہلے درگا دیوی کو اپنے ساتھی انقلابی کی بیوی کے طور پر جانتے تھے تاہم بعد میں وہ ایک مختلف روپ میں نظر آئیں جب انھوں نے بطور محافظ بھگت سنگھ کو برطانوی پولیس کے چنگل سے بچایا اور یہ انوکھا رشتہ قربت میں بدل گیا۔‘

سکھدیو پر جھوٹ پھیلانے کا الزام

یہ درست ہے کہ بھگت سنگھ اور سکھدیو کے درمیان اس بات پر گرما گرم بحث ہوئی کہ پارلیمنٹ میں کون بم پھینکنے جائے گا لیکن انقلابیوں اور ان کے بارے میں کتابیں لکھنے والے مصنفین میں اس بات پر اختلاف ہے کہ سکھدیو نے دراصل کیا کہا تھا۔

کچھ مصنفین نے درگا دیوی کو ہی وہ ’عورت‘ قرار دیا لیکن کچھ مصنفین یہ مانتے ہیں کہ سکھدیو بھگت سنگھ سے اس لیے ناراض تھے کہ وہ پارلیمنٹ میں بم پھینکنے والی ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔

بھگت سنگھ کی انقلابی ٹیم کے رکن شیو ورما اپنی کتاب ’سنسمرتیان‘ کے صفحہ 106 اور 107 پر لکھتے ہیں کہ بھگت سنگھ اور سکھدیو کے درمیان لڑائی ہوئی تھی لیکن اس میں کسی عورت کا ذکر نہیں ہوا۔

سکھدیو کے چھوٹے بھائی متھراداس تھاپر اپنی کتاب ’میرے بھائی شہید سکھدیو‘ میں لکھتے ہیں کہ ’انھوں نے بھگت سنگھ کے خلاف سخت زبان استعمال کی اور کہا کہ تم بزدل ہو، موت سے ڈرتے ہو۔ جس کی وجہ سے بھگت سنگھ کو برا لگا اور اس نے اپنی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کو ذاتی طور پر جا کر پارلیمنٹ میں بم پھینکنے پر راضی کیا۔‘

بھگت سنگھ کے ایک ساتھی انقلابی سکھدیو راج کی لکھی ہوئی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے (سکھدیو اور سکھدیو راج دونوں مختلف انقلابی تھے) کہتے ہیں کہ ’بھگت سنگھ نے پھانسی سے پہلے درگا بھابھی کو لکھا تھا کہ میرے مرنے کے بعد تم رونا نہیں، یہ لکھتے لکھتے میرا قلم رک جاتا ہے۔ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہ میرے اور آپ کے رشتے کو نہیں سمجھ سکتا کیونکہ آپ میرے دوست کی بیوی بھی ہیں۔‘

تاہم متراداس لکھتے ہیں کہ اس خط کی زبان اور انداز گمراہ کن اور من گھڑت معلوم ہوتا ہے۔

یشپال اپنی کتاب سنگھاولوکن کے صفحہ نمبر 180 پر لکھتے ہیں کہ ’سکھدیو نے بھگت سنگھ سے کہا تھا کہ وہ عورت سے پیار میں پارٹی کی ذمہ داری کو بھول گئے ہیں۔‘

متراداس لکھتے ہیں کہ یشپال اور سکھدیو راج جیسے مصنفین نے ’جھوٹ کا پرچار کیا اور بھگت سنگھ اور درگا دیوی کے درمیان مقدس رشتے پر بھی سوال اٹھایا۔‘

متراداس لکھتے ہیں کہ ’اس معاملے پر میری شیو ورما (بھگت سنگھ کے ساتھی انقلابی) سے بات چیت ہوئی جنھوں نے کہا کہ درگا بھابھی بھگت سنگھ اور سکھدیو دونوں سے یکساں سلوک کرتی تھیں۔‘

’شیو ورما نے واضح طور پر کہا کہ سکھدیو راج کی لکھی ہوئی بات پر یقین کرنا دراصل غلط ہے کیونکہ سکھدیو راج کو درگا دیوی کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔‘

مترا داس سکھدیو راج کے لکھے ہوئے ایک واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’بھگت سنگھ سکھدیو کا یہ خط لے کر درگا بھابھی کے گھر گیا اور وہ رونے لگا۔‘

’بھگت سنگھ نے درگا بھابھی سے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں (بشمول سکھدیو) جو بغیر کسی وجہ کے دن رات کیچڑ اچھالنے میں لگے رہتے ہیں۔ دوسری طرف وہ (درگا کے شوہر بھگوتی چرن) ایسے دیوتا ہیں جو یہ باتیں سن کر بھی کبھی اداس نہیں ہوتے۔‘

اس قصے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے متراداس لکھتے ہیں کہ ’سکھدیو راج کی اس دلچسپ کہانی کا نفسیاتی مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ یہ فطری بات ہے کہ لوگ اپنی باہمی محبت کو معاشرے سے چھپاتے ہیں۔ 1929 میں ہندوستان اتنا ترقی پسند نہیں تھا کہ محبت کے معاملات عام لوگوں میں بحث کا موضوع بن سکیں۔‘

’درحقیقت اگر ان دونوں کے درمیان ایسی بات ہوتی تو پارلیمنٹ پر بم پھینکنے سے پہلے بھگوتی چرن درگا بھابھی کے ساتھ بھگت سنگھ سے ملنے کیوں جاتے؟‘

درگا دیوی کون تھیں؟

درگا دیوی جو درگا بھابھی کے نام سے مشہور ہیں، 7 اکتوبر 1907 کو الہ آباد کے ایک گجراتی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔

درگا دیوی کی شادی لاہور میں رہنے والے ایک گجراتی برہمن بھگوتی چرن وہرا سے صرف 11 سال کی عمر میں ہو گئی تھی۔ بھگوتی چرن کے آباؤ اجداد گجرات سے آگرہ اور پھر لاہور چلے گئے تھے۔

ان کا بیٹا 3 دسمبر 1925 کو پیدا ہوا جس کا نام سچن رکھا گیا۔

بی بی سی گجراتی نے مالویندرجیت سنگھ سے بات کرنے کی کوشش کی جنھوں نے بھگت سنگھ پر تحقیق کی ہے اور ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ اپنی خراب صحت کے باعث انھوں نے اپنے ساتھی کے ذریعے بی بی سی گجراتی سے بات کی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’درگا بھگت سنگھ کو اپنا چھوٹا بھائی سمجھتی تھیں اور اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ کہانی پر توجہ دینے کے بجائے، ملک کی آزادی کے لیے ان کی قربانیوں کو سراہیں۔‘

سدھیر ودیارتھی، کتاب ’شہید بھگت سنگھ - ایویڈینس آف ریوولوشن‘ کے ایڈیٹر، درگا دیوی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ ہتھیار اور بم بھی دینے اور لینے جاتی تھیں۔ ’وہ ایک بار بم لانے ملتان گئی تھی اور پستول لانے جے پور بھی گئی تھی۔‘

’وہ نہ صرف پستول رکھنا جانتی تھی بلکہ اسے استعمال کرنا بھی جانتی تھی۔‘

ان کے شوہر بھگوتی چرن وہرا بم ٹیسٹ کے دوران مارے گئے تھے۔ درگا دیوی بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت کو جیل سے رہا کرنا چاہتی تھیں۔ بھگت سنگھ کی پھانسی رکوانے کے لیے وہ گاندھی جی سے بھی ملیں۔

اپنے شوہر کی موت کے بعد درگا بھابی انقلابیوں کے کام میں پوری طرح سرگرم ہو گئیں۔ اپنے شوہر کی موت اور بھگت سنگھ کی پھانسی کے بعد، چندر شیکھر آزاد نے انھیں انگریزوں سے بدلہ لینے کے مقصد سے بمبئی (ممبئی) بھیج دیا۔

انھوں نے بمبئی کے پولیس کمشنر لارڈ ہیلی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن سارجنٹ ٹیلر اور ان کی بیوی درگا کی گولی سے زخمی ہو گئے اور وہ وہاں سے بھاگ گئیں۔

وہ پولیس سے چھپنے کے لیے بعض اوقات برقع پہنتی تھیں اور ایک بار خود کو ایک مسلمان عورت کا روپ بھی دیا۔

آزاد کی موت کے بعد انھوں نے پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ تفتیش کے بہانے انھیں تقریباً 6 ماہ تک قاتلوں کے ساتھ جیل میں رکھا گیا۔ پولیس کے پاس ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا اس لیے بعد میں انھیں رہا کر دیا گیا تاہم 3 سال تک لاہور سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

انھوں نے بعد میں دلی میں کانگریس پارٹی میں بھی کام کیا اور بعد میں تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔

ان کا انتقال 15 اکتوبر 1999 کو غازی آباد، اتر پردیش میں ہوا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More