’ہماری کرسیاں صاف ہو جائیں گی۔ کم از کم ہم کرکٹ گراؤنڈز میں تماشائیوں کے بیٹھنے کے لیے شادی والی کرسیاں استعمال نہیں کرتے جنھیں پاکستان کے تین، چار بڑے سٹیڈیمز میں استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔‘
یہ طنزیہ ٹویٹ ایک انڈین صارف نے پاکستان میں کرکٹ شائقین کی جانب سے کی جانے والی اس مسلسل تنقید کے جواب میں کی جو انڈین شہر حیدر آباد کے راجیو گاندھی انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں گندی سیٹوں کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین دوسرا وارم اپ میچ منگل کے روز راجیو گاندھی سٹیڈیم میں کھیلا گیا تھا۔
دورانِ میچ کرکٹ تجزیہ کار اور کمنٹیٹر ونکاتیش کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ’ایکس‘ پر سٹیڈیم میں تماشائیوں کے لیے نصب سیٹوں کی چند تصاویر پوسٹ کی گئیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ سیٹیں کافی خستہ حال ہیں اور میچ سے قبل ان کی صفائی ستھرائی نہیں کی گئی جبکہ ان پر جا بجا پرندوں کا فضلہ بھی پڑا ہے۔
یہ تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے ونکاتیش نے لکھا کہ ’اُپل سٹیڈیم میں زیادہ کچھ نہیں بدلا۔ کچھ ظاہری چمک دمک کے علاوہ تماشائیوں کے آرام کا مکمل خیال نہیں رکھا گیا۔‘
راجیو گاندھی سٹیڈیم حیدرآباد کے نواحی علاقے اُپل میں واقع ہے جس کی وجہ سے اسے اُپل سٹیڈیم بھی کہا جاتا ہے۔
اس معاملے پر بی سی سی آئی کی جانب سے فی الحال کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔
https://twitter.com/C4CRICVENKATESH/status/1709156900997083305
یہ تصاویر پوسٹ ہونے کی دیر تھی کہ سوشل میڈیا پر یہ موضوع بحث بن گئیں۔ ان تصاویر پر ملنے والے ردعمل کے جواب میں اپنی ٹویٹ کی وضاحت کرتے ہوئے ونکاتیش نے کہا کہ ’اُپل سٹیڈیم کے کچھ سٹینڈز میں سیٹوں کی خراب حالت پر میرے ٹویٹس وائرل ہوئے ہیں۔ ملک سے باہر کچھ لوگ ان تصاویر کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس سٹیڈیم میں (ورلڈ کپ سے قبل) بالکل نئی سیٹیں نصب کی گئی ہیں مگر سٹیڈیم کے صرف ویسٹرن ٹیرس میں نصب پرانی سیٹیں خراب ہیں۔‘
انڈین کرکٹ بورڈ نے ورلڈ کپ سے قبل کرکٹ سٹیڈیمز کی کروڑوں روپے کی لاگت سے تزین و آرائش کا اعلان کیا تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ چند صارفین اس بات پر یقین نہیں کر پا رہے تھے کہ سیٹیں اتنی گندی ہو سکتی ہیں۔
ایسے ہی صارفین کو جواب دینے کے لیے ونکاتیش نے ایک اور تصویر پوسٹ کی جس میں ان سیٹوں کے سامنے وہ پاکستان اور آسٹریلیا کے تین اکتوبر کو ہونے والے وارم اپ میچ کاٹکٹ تھامے کھڑے ہیں۔
پاکستانی صارف فرید خان نے ان ٹویٹس کے جواب میں لکھا کہ ’بی سی سی آئی والوں، حد ہے ویسے۔ یہ عالمی ایونٹ ہے۔‘
https://twitter.com/kartikwamdev/status/1709189430228193403?s=48&t=2ZWhN9MHJ1deCiEV0foKJQ
رودھرا نیندو نامی انڈین صارف نے لکھا کہ ’یہ سٹیڈیم ورلڈ کپ کے ایک بھی میچ کی میزبانی کا مستحق نہیں۔‘
ایک اور صارف نے کہا کہ ’اُپل سٹیڈیم حیدر آباد کی حالت۔ امیر ترین بورڈ ملک کے لوگوں کو یہ سہولت پیش کر رہا ہے اور وہ ورلڈ کپ جیسے ایونٹ میں۔ کیا راجر بنی اور جے شاہ ان سیٹوں پر بیٹھنا پسند کریں گے؟ بی سی سی آئی کتنی شرم کی بات ہے۔‘
https://twitter.com/_faridkhan/status/1709188778567332283?s=48&t=2ZWhN9MHJ1deCiEV0foKJQ
انڈین خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان دہلی سٹیڈیم میں رواں برس ہونے والی ٹیسٹ سیریز کے دوران بھی شائقین نے سٹیڈیم میں دستیاب سہولیات اور سیٹوں کے حوالے سے تنقید کرتے ہوئے بی سی سی آئی سے صورتحال کو بہتر بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
ورلڈ کپ 2023 کے آغاز سے چند ماہ قبل بی سی سی آئی نے ملک میں واقع چند بڑے سٹیڈیمز، جن میں ایونٹ کے بڑے مقابلے ہونا ہیں، کی تزین و آرائش اور وہاں شائقین کے لیے دستیاب سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے 500 کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان کیا تھا۔
جن سٹیڈیم میں سہولیات کو بہتر بنانے کے حوالے سے جائزہ لیا گیا تھا، وہ دہلی، حیدرآباد، کولکتہ، موہالی اور ممبئی میں واقع ہیں۔
Getty Imagesورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے افتتاحی میچ سے قبل احمد آباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں سیٹوں کی صفائی کی جا رہی ہے
پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بی سی سی آئی نے دلی سٹیڈیم کی تزین و آرائش پر 100 کروڑ، حیدرآباد سٹیڈیم پر 117 کروڑ، کولکتہ کرکٹ سٹیڈیم پر 127 کروڑ، موہالی سٹیڈیم پر 79 کروڑ اور اسی طرح دیگر سٹیڈیمز پر رقم مختص کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ انڈیا میں ہونے والے ورلڈ کپ کے 46 مقابلے 12 مختلف سٹیڈیمز میں ہوں گے، جو بنگلورو، چنئی، دہلی، دھرم شالا، گوہاٹی، حیدرآباد، کولکتہ، لکھنؤ، اندور، راجکوٹ، ممبئی اور احمد آباد میں ہوں گے۔