Getty Images
جیت بھی ایک عادت سی ہوتی ہے۔ جب کسی ٹیم کو یہ عادت پڑ جائے تو پھر وہ ہار گوارا ہی نہیں کرتی بھلے کچھ بھی داؤ پہ نہ لگا ہو۔ کیونکہ بہرحال عادتیں بنانے اور بگاڑنے میں بہت وقت لگتا ہے۔
اگرچہ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں وارم اپ میچز چنداں معنی نہیں رکھتے اور اصل معرکے سے پہلے فقط لہو گرم کرنے کا اک بہانہ ہوتے ہیں مگر یہ خدشہ تو بہر طور منڈلاتا ہی رہتا ہے کہ سہل پسندی میں کہیں عادت ہی نہ بگڑ جائے۔
تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان نے دراصل یہاں آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست نہیں کھائی کہ اگر بابر اعظم اپنی سبک رفتاری کے ساتھ کریز پہ ٹِکے رہتے تو پاکستان مقررہ وقت سے کہیں پہلے فتح یاب ہو چکا ہوتا۔ مگر دانشمندی کا تقاضا یہی تھا کہ اصل مقابلے شروع ہونے سے پہلے لوئر آرڈر کو بھی بلے بازی کی مشق مہیا کی جائے۔
سو، بابر نے بالکل بجا فیصلہ کیا۔ بابر ہی کی طرح پیٹ کمنز نے بھی راست اقدام چنا اور اپنے ریگولر بولرز کی تکان سے احتراز برتتے ہوئے بیچ کے اوورز میں ڈیوڈ وارنر تک کو بولنگ کا موقع فراہم کر ڈالا کہ کیا خبر کل کلاں کسی اہم میچ میں کوئی انہونی ہو رہے تو سبھی کھلاڑی ممکنہ بوجھ اٹھانے کو تیار ہوں۔
مگر یہ سب سہل پسندی اپنا کر بھی پیٹ کمنز فتح یاب ٹھہرے اور پہلے وارم اپ میچ کی طرح یہاں بھی پاکستان فتح سے روشناس نہ ہو پایا۔ سو، ایشیا کپ کے سپر فور مرحلے سے جو جیت کی عادت پاکستان سے چھوٹی تھی، وہ قریب چار ہفتے بعد بھی پلٹ کے نہیں دی۔
Getty Images
پاکستان کی کرکٹ تاریخ میں یہ غالباً پہلی نادر نظیر ہے کہ بلے بازی ایک تگڑا پہلو بن چکا ہے اور بولنگ کمزوری کو مائل ہے وگرنہ ہمیشہ یہ معاملہ الٹ رہا ہے کہ پاکستانی بولنگ ہی اس کرکٹ کلچر کی قوت رہی ہے جبکہ بیٹنگ عموماً ڈگمگاتی پگڈنڈیوں پہ چلتی نظر آئی ہے۔
بولنگ کی حالیہ کوتاہ ہمتی میں اگرچہ ذرا سا حصہ اس غیر متوقع انجری کا بھی ہے جو نسیم شاہ جیسے شاندار پیسر کی عدم دستیابی پہ منتج ہوئی مگر اصل دقیقہ یہاں سپن بولنگ کا ہے جہاں پاکستان کے باقاعدہ لیگ سپنر شاداب خان ون ڈے کرکٹ کے مزاج سے ہم آہنگ ہونے کی تگ و دو میں الجھے ہوئے ہیں۔
پے در پے ٹی ٹونٹی اور فرنچائز کرکٹ کھیلنے کا نقصان یوں ابھر کر آ رہا ہے کہ وہ شاداب خان جو کسی بھی ٹی ٹونٹی فرنچائز کی جان بن سکتے ہیں، وہی پچاس اوورز کی کرکٹ میں اپنی ٹیم کے لئے ایک عقدہ سا بنتے جا رہے ہیں۔
ٹی ٹونٹی میں بلے باز کے پاس وقت کی اس قدر قلّت ہوتی ہے کہ وہ ہر گیند سے نفع بٹورنے کی کوشش میں رہتا ہے اور یوں وہی ہاف ٹریکر جو ون ڈے میں حرزِ جاں بن جاتے ہیں، ٹی ٹونٹی میں بسا اوقات وکٹ کے حصول کا ذریعہ بن جایا کرتے ہیں۔ وہی لو فل ٹاس جو مختصر ترین فارمیٹ میں ایک کامیاب چال ہو سکتی ہے، ون ڈے میں بولر کے گلے کا طوق ہو رہتی ہے۔
Getty Images
اس ورلڈ کپ کا فارمیٹ ایسا ہے کہ ہر ٹیم کو ہر ٹیم سے کھیلنا ہے اور اس منظر نامے میں پاکستان کا سپن اٹیک بیشتر ٹیموں سے بہتر دکھائی نہیں دیتا۔ تھنک ٹینک کے لیے دو ریگولر سپنرز کا انتخاب بہرحال ایک معمہ ہو گا کہ محمد نواز کی لیفٹ آرم سپن اور تجربے پہ اسامہ میر کو کیسے فوقیت دی جائے، کیونکہ شاداب خان تو فارم سے قطع نظر الیون کا حصہ ہوں گے ہی۔
اسامہ میر نے دونوں وارم اپ میچز میں مسابقتی بولنگ کی ۔ لیگ سپنر کا بنیادی کردار دوسرے پاور پلے میں پارٹنرشپ توڑنا اور وکٹیں بٹور کر رن ریٹ کے آگے بند باندھنا ہوتا ہے۔ اسامہ میر نے دونوں وارم اپ میچز میں کافی حد تک یہ کردار نبھایا۔
ماڈرن ون ڈے گیم میں لیفٹ آرم سپن کسی بھی الیون کے لیے ایک اہم مہرہ ہوا کرتی ہے۔ محمد نواز کا اضافی فائدہ یہ بھی ہے کہ وہ بولنگ میں تجربہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ بلے بازی میں بھی کئی بار ترپ کا پتہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ سو، تھنک ٹینک کے لیے بڑا عقدہ یہی ہو گا کہ وہ تین آپشنز میں سے دو ریگولر سپنرز کا انتخاب کس بنیاد پہ کریں۔
اگرچہ افتخار احمد اور سلمان آغا کی شکل میں پاکستان کو سپن کے جزو وقتی وسائل بھی دستیاب ہیں مگر ورلڈ کپ جیسے اہم ایونٹ میں جب جیت ہاتھوں سے سرکنے لگے گی تو وہاں ضرورت کل وقتی ماہر کی ہی ہو گی نہ کہ پارٹ ٹائم آپشن قابلِ ترجیح ٹھہرے گا۔
بہت دن نہیں گزرے کہ پاکستان فارمیٹ کی نمبر ون ٹیم ہوا کرتا تھا مگر ورلڈ کپ سے عین پہلے نہ صرف وہ رینکنگ چھن گئی بلکہ پاکستانی اوپنرز کی تکنیکی کجیاں بھی عیاں ہونے لگی ہیں۔ ایسے میں حل یہی بچتا ہے کہ توقعات کا بوجھ کاندھے سے اتار پھینکا جائے اور بھلے ناقابلِ اعتبار کہلائیں، نیچرل گیم کے ہمراہ آگے بڑھا جائے۔
بالآخر پاکستان کرکٹ کی رِیت یہی رہی ہے کہ جب کسی گنتی میں نہ رہیں، تبھی یہ ابھر کر سامنے آیا کرتے ہیں اور دنیا کے لیے حیرت کا سامان بن جاتے ہیں۔ اگر توقعات کا بوجھ ہمراہ نہ ہوا اور الیون کا چناؤ دانشمندانہ ہوا تو جیت کی روٹھی عادت کو منانا ناممکن بھی نہیں ہے۔