ورلڈکپ 2023: ٹیلنٹ سے بھرپور انڈین کرکٹ ٹیم کے ساتھ ’چوکر‘ کا لفظ کیوں جڑ گیا؟

بی بی سی اردو  |  Oct 01, 2023

AFP

کرکٹ ورلڈ کپ 2023 میں انڈیا کی ٹیم ایک واضح فیورٹ ہے تاہم ان کے ساتھ ’چوکر‘ کا ٹیگ بھی جڑا ہوا ہے۔

یہ طنزیہ نام کرکٹ کی دنیا میں عام طور پر جنوبی افریقہ کی ٹیم کے لیے استعمال ہوتا رہا جو 1995 سے 2015 تک ہر اہم ٹرافی کے آخری لمحات میں ناکام ہو جاتے تھے۔ تاہم 2013 میں چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کے بعد سے یہ نام انڈیا کے ساتھ جڑ گیا جس کی وجہ اہم آئی سی سی ٹورنامنٹس میں برے طریقے سے ناکامی تھی۔

2013 سے دو ہی سال قبل انڈیا نے کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا اور اس سے چار سال قبل ایم ایس دھونی کی بطور کپتان پہلی مہم میں انڈیا نے بنا کسی بڑے سٹار کے پہلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بھی جیتا تھا۔ فتوحات کی ہیٹ ٹرک نے ایک جانب ایم ایس دھونی کو ایک عظیم رتبہ دیا تو وہیں انڈیا میں کرکٹ کے ٹیلنٹ اور وسعت کو بھی پہچان ملی۔

2008 میں آئی پی ایل کے آغاز اور پھر اس کی شہرت اور دولت میں بتدریج اضافے کے ساتھ ملک کے ہر کونے سے کھلاڑی دریافت ہوئے اور کرکٹ کی عالمی دنیا میں انڈیا کا عروج واضح تھا۔

انڈیا کرکٹ کی دنیا کی سب سے بڑی طاقت صرف اس لیے نہیں کہ یہ عالمی طور پر اس کھیل سے جڑے 70 فیصد منافع کی وجہ ہے بلکہ طویل عرصے تک یہ دنیا میں کرکٹ کی بہترین ٹیم بھی رہی جو رینکنگ کے ہر درجے میں اول رہی۔

2023 کے ورلڈ کپ سے پہلے انڈیا ایک بار پھر ٹیسٹ، ایک روزہ فارمیٹ اور ٹی ٹوئنٹی میں اول درجے کی ٹیموں میں شامل ہے۔ انڈیا کا نظام کرکٹ، کمزوریوں کے باوجود، ہر قسم کے کھلاڑیوں کو بہترین سہولیات، پیسہ اور مواقع فراہم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

دنیا میں انڈیا کے پاس سب سے زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے جس کی وجہ ٹیم میں جگہ کے لیے بھرپور مقابلہ ہے اور اسی لیے کھلاڑی زیادہ سے زیادہ محنت کرنے اور کارکردگی دکھانے پر مجبور ہیں۔

Getty Images

انڈیا میں کرکٹ تو مضبوط ہوئی ہے لیکن ایک طویل عرصے تک اہم ٹورنامنٹ جیتنے میں ناکامی شائقین کے لیے مایوسی کہ وجہ ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ 2013 سے انڈیا ہر ٹورنامنٹ کے آغاز میں فیورٹ ہوتی ہے لیکن فائنل یا اس سے قبل ہی ناکام ہو جاتی ہے۔

اس پریشان کن رجحان کی وضاحت کیسے ممکن ہے؟

کیا یہ کھلاڑیوں کی سلیکشن کی پالیسی میں نقص کی وجہ سے ہے یا ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے؟ کپتان اور کوچ کی بار بار تبدیلی وجہ ہے یا کھلاڑیوں پر زیادہ کھیلنے کا دباؤ؟ یا پھر صرف بری قسمت کا نتیجہ ہے؟

کسی نہ کسی طریقے سے یہ تمام عوامل ہی انڈیا کی ٹیم کی کارکردگی پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ لیکن انڈیا تمام ٹورنامنٹ کے ناک آؤٹ مرحلے تک پہنچا ہے تو شاید یہ کہنا درست ہو گا کہ مسئلے کی جڑ کہیں اور چھپی ہوئی ہے۔

بڑے ٹورنامنٹ جیتنے کے لیے صرف ٹیلنٹ کافی نہیں ہوتا۔ اس کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ کھلاڑی مختلف عوامل، جیسا کہ پچ، سے کتنی جلدی واقف ہوتے ہیں اور ٹیم انتظامیہ مختلف حریفوں کے لیے کس طرح ٹیم کو تیار کرتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ کھلاڑی، انفرادی اور مجموعی اعتبار سے، میدان اور میدان سے باہر مشکل حالات سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں۔

ان میں سے آخری نکتے کو زیادہ کھل کر بیان کیا جائے تو یہ سوال بنتا ہے کہ انڈیا کی ٹیم دباؤ کا کیسے سامنا کرتی ہے؟

Getty Images

تقریبا ایک اعشاریہ چار ارب شائقین ہر میچ میں صرف جیت کی امید لگائے بیٹھے ہوں تو یہ دباؤ بہترین کھلاڑیوں پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے اور وہ اہم مرحلوں پر کمزور پڑ سکتے ہیں۔

انڈیا کے سابق کپتان اور چیف کوچ روی شاستری کہتے ہیں کہ انفرادی کھیلوں میں کھلاڑی کو اکیلے ہی دباؤ برداشت کرنا ہوتا ہے لیکن ایسے کھیل جن میں ٹیم شرکت کرتی ہے یہ معاملہ پیچیدہ اس لیے ہو جاتا ہے کیوں کہ ہر کھلاڑی کو اجتماعی جیت کے لیے اپنی بہترین کارکردگی دکھانا ہوتی ہے یا پھر چند کھلاڑیوں کو ایسے کھلاڑیوں کی جگہ لینا پڑتی ہے جن کے لیے وہ دن اچھا ثابت نہیں ہوتا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’برے کھیل کا مختصر دورانیہ، ایک بری سلیکشن سب برباد کر سکتی ہے۔‘

2019 کے سیمی فائنل میں جب روہت شرما، وراٹ کوہلی سمیت تین وکٹیں پہلے چند اوور میں ہی گر گئیں اور پھر آسٹریلیا کے خلاف ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا فائنل جس میں آر ویشون کو کھلایا نہیں گیا روی شاستری کے اس تجزیے کی تصدیق کرتے ہیں۔

روی شاستری کہتے ہیں کہ ’کھلاڑیوں کو اعصابی طور پر مضبوط رہنا پڑتا ہے۔ اس سطح پر چھوٹی سے غلطی، ذرا سی چوک ہو تو مخالف ٹیم آپ کو ختم کر سکتی ہے۔‘

تو کیا اس بار انڈیا کی ٹیم اعصابی طور پر اتنی مضبوط ہے کہ وہ فتح یاب ہو؟

Getty Images

ٹیلنٹ، تجربے اور ٹیم کی سلیکشن کو دیکھیں تو یقینا۔ ایشیا کپ سے پہلے انڈیا کی ٹیم مکمل نہیں نظر آ رہی تھی اور کئی سوالات موجود تھے۔

کیا جسپریت بمراہ، کے ایل راہل اور شریاس آیئر، جو زخمی ہونے کے طویل عرصہ بعد واپس آ رہے تھے، مکمل فٹ اور فارم میں آ سکیں گے؟ کیا کلدیپ یادیو کو واپس بلانے کا فیصلہ درست تھا کیوں کہ ٹیم میں جدیجہ اور اکسر پٹیل کی شکل میں دو لیفٹ آرم سپنر پہلے ہی موجود تھے؟ کیا وکٹ کیپر کی جگہ کو کے ایل راہل اور اکسر پٹیل کے درمیان مقابلہ بنانے سے دونوں پر غیرضروری دباؤ پڑے گا؟

لیکن انڈیا کی ٹیم نے ایشیا کپ جیتا تو یہ تمام سوال دھرے کے دھرے رہ گئے۔

اپنے گھر میں کھیلنا بھی میزبان یعنی انڈیا کے حق میں جائے گا جیسا کہ گزشتہ تین ورلڈ کپ میں دیکھا گیا لیکن یہ فتح کو یقینی نہیں بناتا۔ 1992 میں آسٹریلیا ناک آؤٹ سٹیج تک بھی نہیں پہنچ سکا تھا جبکہ 1987 اور 1996 میں انڈیا میں ورلڈ کپ ہونے کے باوجود دونوں بار ٹیم سیمی فائنل میں باہر ہو گئی۔

سادہ سی بات ہے کہ کھلاڑیوں کے ایک گروہ کو ایک ناقابل شکست ٹیم بنانے کا کوئی سادہ نسخہ موجود نہیں ہے۔ صلاحیت کو چھوڑ کر، ٹیم کا درست انتخاب، کھلاڑیوں کی آپس کی کیمسٹری اور پھر دباؤ جذب کرنے کا ہنر اہمیت رکھتا ہے۔

اگلے سات سے آٹھ ہفتوں کے دوران انڈیا کی ٹیم ان متعدد چینلجز کا سامنا کیسے کرتی ہے، یہ دیکھنا باقی ہے اور اسی سے طے ہو گا کہ انڈیا اس بار چیمپیئن بنے گا یا ’چوکر۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More