Getty Images
کہا جاتا ہے کہ جب امریکہ چھینک بھی مارتا ہے تو باقی دنیا کو زکام ہو جاتا ہے مگر جب چین کی صورتحال اچھی نہ ہو تو پھر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
ایک ارب اور 40 کروڑ افراد پر مشتمل دنیا کی بڑی معیشت کو اس وقت متعدد مسائل کا سامنا ہے، جس میں سست ترقی، نوجوانوں میں بہت زیادہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور پراپرٹی مارکیٹ کا بے ہنگم ہونا شامل ہے۔
اب ملک کے بھاری مقروض ریئل اسٹیٹ ڈویلپر ایورگرینڈ کے چیئرمین کو پولیس کی نگرانی میں رکھا گیا ہے اور سٹاک مارکیٹ میں کمپنی کے حصص کو معطل کر دیا گیا ہے۔
اگرچہ یہ مسائل بیجنگ کے لیے ایک بڑے درد سر میں اضافہ کرتے ہیں، باقی دنیا کے لیے اس سے کتنا فرق پڑتا ہے؟
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آنے والی عالمی تباہی کے خدشات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے لیکن ملٹی نیشنل کارپوریشنز، ان کے ملازمین اور یہاں تک کہ وہ لوگ جن کا چین سے براہ راست کوئی تعلق نہیں، وہ بھی اس صورتحال کے کچھ نہ کچھ اثرات ضرور محسوس ہونے کے قوی امکانات ہیں۔
اس کا تعلق اس بات پر بھی منحصر ہے کہ آپ کون ہیں؟
جیتنے والے اور ہارنے والے
سنگاپور میں ایشین ٹریڈ سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیبورا ایلمز نے یہ سوال کیا ہے کہ ’مثال کے طور پر اگر چینی لوگ باہر لنچ کرنا چھوڑنا شروع کر دیں تو کیا اس سے عالمی معیشت متاثر ہو گی؟
اس کا جواب وہ نہیں جو آپ تصور کر سکتے ہیں لیکن یہ یقینی طور پر ان فرمز کو متاثر کرے گا جو گھریلو چینی کھپت پر براہ راست انحصار کرتی ہیں۔
سینکڑوں بڑی عالمی کمپنیاں جیسے ایپل، ووکس ویگن وغیرہ چین کی وسیع مارکیٹ سے اپنی آمدنی کا بہت زیادہ حصہ حاصل کرتی ہیں۔ یہاں کسی بھی معاشی بحران کے اثرات دنیا بھر کے ہزاروں سپلائرز اور ملازمین محسوس کریں گے جو ان کمپنیوں پر انحصار کرتے ہیں۔
جب آپ غور کریں گے کہ چین دنیا کی پیداوار کے ایک تہائی سے زیادہ کا ذمہ دار ہے تو اس کی سرحدوں سے باہر بھی اس کو درپیش مسائل کی گونج پہنچتی ہے۔
امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فِچ نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ چین کی سست روی ’عالمی ترقی کے امکانات پر سایہ ڈال رہی ہے‘ اور اس نے سنہ 2024 میں پوری دنیا کے لیے اپنی پیشگوئی کو کم کر دیا ہے۔
تاہم بعض ماہرین اقتصادیات کے مطابق اس خیال کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے کہ چین عالمی خوشحالی کا انجن ہے۔
آکسفرڈ یونیورسٹی کے چائنا سینٹر کے ماہر معاشیات جارج میگنس کا کہنا ہے کہ اعدادوشمار کے اعتبار سے جواب ہاں میں ہے کیونکہ چین کا عالمی ترقی میں تقریباً 40 فیصد حصہ ہے‘۔
ان کے مطابق دیکھنا یہ ہو گا کہ ’اس ترقی کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے؟ چین تجارت میں خاصا زیادہ سرپلس میں ہے۔ اس کی برآمدات اس کی درآمدات سے کہیں زیادہ ہیں، اس لیے چین کتنی ترقی کرتا ہے یا نہیں، یہ باقی دنیا کی نسبت چین کے لیے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔‘
Getty Images
اس کے باوجود چین سامان اور خدمات پر کم خرچ کرتا ہے یا ہاؤس بلڈنگ پر، جس کا مطلب ہے خام مال اور اجناس کی کم طلب۔ اگست میں ملک نے پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً نو فیصد کم درآمدات کی تھیں۔
سڈنی کے لووی انسٹیٹیوٹ میں انڈو پیسیفک ڈویلپمنٹ سینٹر کے ڈائریکٹر رولینڈ راجاح کہتے ہیں کہ ’بڑے برآمد کنندگان جیسے آسٹریلیا، برازیل اور افریقہ کے کئی ممالک اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔‘
چین میں طلب کم ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہاں قیمتیں کم رہیں گی۔ مغربی صارفین کے نقطہ نظر سے، یہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روکنے کا ایک خوش آئند طریقہ ہو گا، جس میں شرح سود میں مزید اضافہ شامل نہیں۔
رولینڈ راجاح کا کہنا ہے کہ ’یہ ان لوگوں اور کاروباری اداروں کے لیے اچھی خبر ہے جو زیادہ افراط زر سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔
لہٰذا مختصر مدت میں عام صارفین چین کی ترقی میں سست روی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن ترقی پذیر دنیا میں بسنے والوں کے لیے اس کے طویل مدتی اثرات ہوں گے۔
گذشتہ دس برس میں چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے نام سے مشہور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی۔
150 سے زائد ممالک نے سڑکوں، ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور پلوں کی تعمیر کے لیے چینی رقم اور ٹیکنالوجی حاصل کی ہے۔ رولینڈ کے مطابق ’اگر معاشی مسائل اندرون ملک برقرار رہے تو ان منصوبوں پر اس کے منفی اثرات یعنی ان منصوبوں کے لیے چینی عزم میں کمی کی صورت میں مرتب ہو سکتے ہیں۔‘
’اب چینی کمپنیاں اور بینکوں کے پاس بیرون ملک پھیلنے کے لیے ایک جیسی مالی طاقت نہیں ہو گی۔‘
Getty Imagesچین کا دنیا میں مقام
اگرچہ بیرون ملک چینی سرمایہ کاری میں کمی کا امکان ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ چین کی ملکی اقتصادی صورتحال اس کی خارجہ پالیسی کو کس طرح متاثر کرے گی۔
کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک کمزور چین، امریکہ کے ساتھ خراب تعلقات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
امریکی تجارتی پابندیاں جزوی طور پر اس سال کی پہلی ششماہی میں امریکہ کے لیے چینی برآمدات میں 25 فیصد کمی کا باعث بنی ہیں جبکہ امریکی وزیر تجارت جینا ریمنڈو نے حال ہی میں کچھ امریکی کمپنیوں کے لیے ملک کو ’سرمایہ کاری کے ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔
لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ چین کا نقطہ نظر نرم ہو رہا ہے۔ بیجنگ ان پابندیوں کے باوجود جوابی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے، اکثر مغربی ممالک ’سرد جنگ کی ذہنیت‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے روس کے ولادیمیر پوتن اور شام کے بشار الاسد جیسے پابندیوں کے شکار آمرانہ روش والے رہنماؤں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
اس سب کے باوجود امریکہ اور یورپی یونین کے حکام کے وفود ہر ماہ دو طرفہ تجارت پر بات چیت جاری رکھنے کے لیے چین کا رخ کر رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ چین کے ظاہری بیانیے اور چینی پالیسی کے درمیان کیا فرق پایا جاتا ہے۔
اس غیر یقینی صورتحال کے بارے میں ایک مطالعہ واشنگٹن میں مبصرین کی طرف سے آیا ہے جن کا کہنا ہے کہ چینی معیشت میں مندی اس پر اثر ڈال سکتی ہے کہ یہ تائیوان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں بات کرتے ہوئے ریپبلکن کانگریس مین مائیک گیلاگھر جو امریکی ہاؤس سلیکٹ کمیٹی برائے چین کے سربراہ بھی ہیں نے کہا کہ گھریلو مسائل چین کے رہنما شی جن پنگ کے بارے میں پیشگوئی کو اور مشکل بنا رہے ہیں اور یہ حالات انھیں تائیوان سے متعلق ’کچھ بہت احمقانہ اقدام‘ اٹھانے کا باعث بن سکتے ہیں۔
رولینڈ کا ماننا ہے کہ یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ چین کا ’معاشی معجزے کا دور ختم ہو گیا ہے‘ تو کمیونسٹ پارٹی کا ردعمل ’واقعی بہت نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔‘
تاہم امریکی صدر جو بائیڈن سمیت بہت سارے لوگ ہیں جو اس تصور سے اختلاف رکھتے ہیں۔
جب اس امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو امریکی صدر نے کہا کہ چینی صدر کے ہاتھ اس وقت ملکی مسائل سے رنگے ہوئے ہیں۔
جو بائیڈن نے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ یہ چین کے لیے تائیوان پر حملہ کرنے کا سبب بن سکے گا، حقیقت میں یہ سب اس کے برعکس ہے۔ امریکی صدر کے مطابق ’چین کے پاس شاید اتنی صلاحیت نہیں جو اس کے پاس پہلے تھی۔‘
Getty Imagesانہونی ہو سکتی ہے
تاہم تاریخ سے اگر کوئی سبق سیکھنا ہے تو وہ ہے کسی انہونی کی توقع کرنا۔ جیسا کہ ڈیبورا ایلمز بتاتی ہیں کہ سنہ 2008 سے پہلے بہت کم لوگوں نے اندازہ لگایا تھا کہ لاس ویگاس میں ’سب پرائم مارگیجز‘ عالمی معیشت کو اس قدر شدید جھٹکا دے گی۔
سنہ 2008 کی بازگشت نے کچھ تجزیہ کاروں کو اس بارے میں فکر مند کر دیا ہے جسے ’مالیاتی بحران کا وبائی شکل اختیار کرنا‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں چین کے املاک کے ممکنہ بحران کا ڈراؤنا خواب بھی شامل ہے، جس کے نتیجے میں چینی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو سکتی ہے اور دنیا بھر میں مالیاتی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
جارج میگنس کے مطابق یہ خیال مکمل طور پر درست نہیں۔ ان کے مطابق ’اس بات کا امکان نہیں کہ چین اپنے بڑے بینکوں کو تباہ ہونے دے اور ان کے پاس امریکہ کے ہزاروں علاقائی اور کمیونٹی بینکوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ’بیلنس شیٹس‘ ہیں۔
ڈیبورا ایلمز اس بات سے متفق ہیں کہ ’چین کی پراپرٹی مارکیٹ ان کے مالیاتی ڈھانچے سے اس طرح منسلک نہیں جس طرح امریکی ’سب پرائم مارگیجز‘ تھیں۔
اس کے علاوہ چین کا مالیاتی نظام اتنا غالب نہیں کہ جس کے سنہ 2008 میں امریکی مالی بحران کی طرح براہ راست عالمی اثرات مرتب ہوں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم عالمی سطح پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب آپ کے پاس ترقی کے بڑے انجنوں میں سے ایک کام نہیں کرتا تو یہ ہم میں سے باقیوں کو متاثر کرتا ہے اور یہ اکثر ہم میں سے باقی لوگوں کو ان طریقوں سے متاثر کرتا ہے، جن کی توقع نہیں کی جاتی‘۔
ان کے مطابق ’اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سنہ 2008 جیسی صورتحال کی طرف دوبارہ بڑھ رہے ہیں تاہم بات یہ ہے کہ جو کبھی کبھی مقامی مسئلہ معلوم ہوتا ہے تو ایسے میں یہ مقامی خدشات ہم سب پر اثر انداز ضرور ہوتے ہیں‘۔