جب انڈین کرکٹر ونود کامبلے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل ہارنے پر 60 ہزار تماشائیوں کے سامنے رو پڑے

بی بی سی اردو  |  Sep 29, 2023

Getty Images

1996 کے ورلڈ کپ میں جب انڈیا نے بنگلورو میں پاکستان کے خلاف ہائی پریشر کوارٹر فائنل میچ جیتا تو ’ہینگ اوور‘ اس قدر شدید تھا کہ چار دن بعد سری لنکا کے خلاف سیمی فائنل میچ تک انڈیا اس سے اپنے آپ کو باہر نہ نکال سکا۔

انڈین کرکٹ ٹیم کے کوچ اجیت واڈیکر جانتے تھے کہ انڈین ٹیم کی عادت ہے کہ بڑا میچ جیتنے کے بعد وہ چیزوں کو آسان لینا شروع کر دیتی ہے۔

سنجے منجریکر اپنی سوانح عمری ’امپرفیکٹ‘ یعنی ’نامکمل‘ میں لکھتے ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ ایک بار میچ جیتنے کے بعد ہم سب جہاز میں آپس میں مذاق کر رہے تھے۔‘

’اسی شام، ہوٹل میں ٹیم میٹنگ کے دوران، واڈیکر اچانک ہم پر برس پڑے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کون ہیں؟‘ کیا آپ نے ٹورنامنٹ جیت لیا ہے؟ فلائٹ میں کیا ہو رہا تھا؟ یہ کیسا رویہ تھا؟‘

سری لنکا کے سامنے بیٹنگ کا فیصلہ

سری لنکا کے خلاف سیمی فائنل سے پہلے بھی واڈیکر ایسے ہی موڈ میں تھے۔ ٹیم میٹنگ میں صرف وہ بولتے رہے۔ اس کے بعد کیپٹن اظہر الدین نے چند الفاظ کہے۔

اگرچہ یہ ملاقات تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی لیکن صرف 50 منٹ تک اس بات پر بات ہوئی کہ سری لنکا کے اوپنرز رومیش کالووتھرنا اور جے سوریا کو کیسے رنز بنانے سے روکا جائے۔

ان دونوں نے چند روز قبل دہلی میں ہونے والے لیگ میچ میں انڈیا کے خلاف انتہائی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور انڈیا کے 272 رنز کو باآسانی عبور کر لیا۔

ان کی بیٹنگ اتنی مضبوط تھی کہ منوج پربھاکر کو آف سپن گیند پھینکنے پر مجبور ہونا پڑا اور یہ ان کے کیریئر کے اختتام کی جانب سفر کا آغاز ثابت ہوا تھا۔

کلکتہ (اب کولکتہ) پہنچنے پر انڈین ٹیم کو بتایا گیا کہ ایڈن گارڈنز کی پچ کو حال ہی میں آسٹریلیا سے لائی گئی مٹی سے دوبارہ تیار کیا گیا ہے۔ پہلی نظر میں وہ پچ اتنی ہی ٹھوس لگ رہی تھی جتنی ایڈن گارڈن آسٹریلوی پچ۔

سچن تندولکر اپنی سوانح عمری ’پلئینگ اٹ مائے وے‘ میں لکھتے ہیں، ’ہم نے پچ کو دیکھتے ہی فیصلہ کیا کہ اگر ہم ٹاس جیتیں گے تو پہلے فیلڈنگ کریں گے۔ اس کے پیچھے ایک وجہ یہ تھی کہ سری لنکا نے اس وقت تک کامیابی سے اپنے اہداف کا تعاقب کیا تھا۔‘

ان کے ابتدائی بلے باز سنتھ جے سوریا اور رومیش کالوویترنا پہلی ہی گیند سے ہی چٹکی بجانے والے کا کردار ادا کر رہے تھے اور زیادہ تر میچوں میں سری لنکا کو اچھا آغاز دینے میں کامیاب رہے۔ انھوں نے ہمیں لیگ میچ میں شکست دی تھی۔ یہ ضروری تھا کہ ہم ان کی وکٹیں جلد لے کر ان پر دباؤ ڈالیں۔

اروند ڈی سلوا اور مہاناما کی شاندار بیٹنگ

انڈیا نے ٹاس جیت کر سری لنکا کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی۔ انڈین ٹیم کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے پہلے ہی اوور میں دونوں اوپنرز کو پویلین واپس بھیج دیا۔

سنجے منجریکر لکھتے ہیں کہ ’میں نے سری ناتھ کی گیند پر کالوویترنا کا تھرڈ مین پر گولڈن ڈک پر کیچ لیا اور وینکٹیش پرساد نے جے سوریا کا کیچ لیا۔ اس کے بعد ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ مہابھارت میں ابھیمنیو کی طرح، ہم نے اپنے آپ کو اہداف کی بھول بھلیوں میں داخل ہونے کی تربیت دی تھی لیکن ہم نے خود کو ان بھول بھلیوں سے باہر آنے کے لیے تیاری نہیں کی تھی۔‘

کچھ دیر کے لیے ہماری توجہ میچ سے ہٹ گئی اور اروند ڈی سلوا نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور 47 گیندوں میں 66 رنز بنائے۔ مہاناما نے بھی 58 رنز کی اننگز کھیل کر سری لنکا کو ابتدائی نقصان سے نکال لیا۔ اننگز کے اختتام پر راناٹنگا کے 35 رنز، تلکارتنے کے 32 رنز اور چمندا واس کے 22 رنز کی بدولت سری لنکن ٹیم اپنا سکور 251 رنز تک لے گئی۔

جب سچن تندولکر باؤلنگ کرنے آئے تو انھیں احساس ہوا کہ انھوں نے پچ پڑھنے میں غلطی کی۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری میں لکھا کہ ’گیند بغیر رکے بلے باز کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اگرچہ پچ کی اوپری سطح مضبوط دکھائی دے رہی تھی۔ واضح طور پر یہ لگ رہا تھا کہ یہ پچ پورے 50 اوورز تک نہیں چل پائے گی۔ سری لنکا کے سکور کو محدود رکھنا ضروری تھا لیکن اس کے باوجود وہ 50 اوورز میں 251 رنز بنانے میں کامیاب رہے جو آخر میں ہمارے لیے بہت بھاری ثابت ہوئے۔

بعد میں رانا ٹنگا نے اعتراف کیا کہ ’ان کا ہدف 275-280 رنز تک ہونا چاہیے تھا لیکن جب انھوں نے گیند کو گھومتے ہوئے دیکھا تو انھیں لگنے لگا کہ اس پچ پر 220 رنز بھی کافی ہوں گے۔ جب سچن تندولکر باؤلنگ کرنے آئے تو انھیں احساس ہوا کہ انھوں نے پچ پڑھنے میں غلطی کی ہے۔

Getty Imagesٹنڈولکر سٹمپ آؤٹ

اب سب کی نظریں سچن تندولکر پر تھیں کہ وہ انڈیا کو اچھی شروعات دیں اور انھوں نے شائقین کو مایوس نہیں کیا۔ گھومتی ہوئی اس پچ پر، وہ اپنا سکور 65 تک لے گئے اور 98 کے سکور پر ایک مشکل بال کو کھیلتے ہوئے سٹمپ آؤٹ ہو گیے۔

ٹنڈولکر لکھتے ہیں کہ ’جے سوریا اپنے بائیں ہاتھ سے سپن بولنگ کر رہے تھے۔ ان کی ایک گیند میرے پیڈ سے ٹکرا کر آن سائیڈ کی جانب مڑ گئی، میں نے سوچا کہ تیز رن کی گنجائش ہے اس لیے میں کریز سے باہر نکل آیا لیکن پھر میں نے دیکھا کہ گیند وکٹ کیپر کالوویترنا کے بہت قریب آ کر رک گئی تھی۔ میرے پاس نہ تو رنز بنانے کا وقت تھا اور نہ ہی کریز پر واپس آنے کا۔ وکٹ کیپر کالوویترنا نے لمحہ بھر بھی ضائع نہیں کیا اور وکٹیں بکھیر دیں۔ میں تھرڈ امپائر کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر پویلین کی جانب چل پڑا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میں آؤٹ ہو چکا ہوں۔ جب میں پویلین کی طرف بڑھ رہا تھا تو مجھے اندازہ تھا کہ میرے بعد بلے بازوں کے لیے راستہ آسان نہیں ہوگا۔‘

پچ تیزی سے گھومنے لگی

جس وقت سچن اور منجریکر کے درمیان دوسری وکٹ کی شراکت داری میں 90 رنز بنائے، کم از کم تماشائیوں کو یہ محسوس نہیں ہوا کہ پچ خراب ہو گئی ہے۔

سنجے منجریکر لکھتے ہیں کہ ’جب کمار دھرما سینا نے ایک آف بریک گیند اظہرالدین کو پھینکی تو یہ آف سٹمپ کے باہر لگی جسے وکٹ کیپر کالوویترنا نے سینے کے اونچائی اور لیگ سائیڈ پر پکڑا۔ اس گیند کو وائیڈ قرار دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد دھرماسینا کے چہرے پر نظر آنے والی مسکراہٹ کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔‘

’شاید انھیں اسی لمحے یہ احساس ہو گیا تھا کہ میچ ان کا ہے اور ان کی ٹیم فائنل میچ کھیلنے انڈیا نہیں بلکہ لاہور جائے گی۔ دھرماسینا کے علاوہ اس سری لنکن ٹیم میں دو اور سپنر تھے، متھیا مرلی دھرن اور جے سوریا۔ اروندا ڈی سلوا ضرورت پڑنے پر سپن بولنگ بھی کر سکتے تھے۔ تندولکر کے آؤٹ ہونے کے بعد جب مزید دو ٹاپ بلے باز پویلین لوٹے تو ہم اپنے دل میں جان گئے کہ سب کچھ ختم ہونے والا ہے۔‘

تماشائیوں نے میدان میں بوتلیں پھینکنا شروع کر دیںGetty Images

اظہر الدین بغیر کوئی رن بنائے پویلین لوٹ گئے۔ منجریکر کو جے سوریا نے کلین بولڈ کیا۔ جواگل سری ناتھ کو اجے جدیجا پر ترقی دی گئی تاکہ وہ بائیں ہاتھ کے بلے باز ونود کامبلے کے ساتھ شراکت کر سکیں لیکن وہ صرف چھ رنز پر رن آؤٹ ہو گئے۔

جدیجا بھی بغیر کوئی رن بنائے 11 گیندیں کھیلنے کے بعد پویلین لوٹ گئے۔ جیسے ہی نین مونگیا اور آشیش کپور آؤٹ ہوئے، انڈین اننگز کا خاتمہ واضح طور پر نظر آنے لگا۔

تب تک ایڈن گارڈن کے تماشائیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ انڈیا کے جیتنے کی کوئی امید نہیں تو انھوں نے پلاسٹک اور شیشے کی بوتلیں میدان میں پھینکنا شروع کر دیں۔ اس وقت میچ کے 15 اوورز باقی تھے اور انڈیا کا سکور 8 وکٹوں پر 120 رنز تھا۔

ہجوم کو پرسکون کرنے کے لیے امپائرز اور میچ ریفری کلائیو لائیڈ نے دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کو میدان سے باہر بلایا۔ آدھے گھنٹے کے بعد کھیل دوبارہ شروع ہوا لیکن اس سے پہلے کہ متھیا مرلی دھرن اپنے اوور کی دوسری گیند کر پاتے، ہجوم نے پھر سے میدان میں بوتلیں پھینکنا شروع کر دیں۔

صورتحال اس قدر بگڑ گئی کہ باؤنڈری پر فیلڈنگ کرنے والے سری لنکن فیلڈرز پچ کے قریب آ گئے۔ سامعین اپنی آنکھوں کے سامنے انڈیا کو ہارتا دیکھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس کے بعد ریفری نے کھیل کو روکنے اور سری لنکا کو فاتح قرار دینے کا فیصلہ کیا۔ ونود کامبلے جب دس رنز بنا کر ناٹ آؤٹ ہو کر پویلین لوٹ رہے تھے تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

بھیڑ کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کا رویہ ملک کی بدنامی کر رہا ہے۔ اس واقعے نے کلکتہ کی کھیلوں کی روایات کو گہرا دھچکہ پہنچایا۔

میدان میں پہلے اترنے کا غلط فیصلہ

انڈین سپنر ایراپلی پرسنا نے مقامی ٹیلی گراف اخبار میں لکھا کہ ’انڈیا کو ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کرنی چاہیے تھی۔‘

انڈیا کا میدان میں اترنا ایک نفسیاتی فیصلہ تھا جو کسی حکمت عملی کے تحت نہیں لیا گیا۔ کپتان اظہر الدین نے میچ کے بعد کی پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سری لنکا رنز کا تعاقب کرے۔

نوجوت سنگھ سدھو انڈین کرکٹ ٹیم میں واحد شخص تھے جو چاہتے تھے کہ انڈیا پہلے بیٹنگ کرے لیکن ان کے خیالات پر کان نہیں دھرے گئے۔ بعد ازاں گراؤنڈز مین نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے انڈین کپتان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پہلے بیٹنگ کریں لیکن انھوں نے ان کے مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے پہلے فیلڈنگ کا انتخاب کیا۔

ہوٹل پہنچنے کے بعد سنجے منجریکر، سچن تندولکر، اجے جدیجا اور دو دیگر کھلاڑی ایک کمرے میں جمع ہوئے۔

سنجے منجریکر لکھتے ہیں کہ ’تبھی ونود کامبلے کمرے میں داخل ہوئے۔ اجے جدیجا نے انھیں ٹیم کی شکست پر کھلے عام رونے پر آڑے ہاتھوں لیا۔ انھیں کامبلے کا اپنے جذبات پر قابو نہ رکھنا پسند نہیں آیا تھا لیکن شاید کامبلے کو مایوسی ہوئی کہ انھوں نے انڈیا کے لیے میچ بچانے والی اننگز کھیلنے کا موقع گنوا دیا۔

سری لنکا کی جیت کا سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ چار دن بعد لاہور میں فائنل میں آسٹریلیا کو شکست دے کر پہلی بار ورلڈ کپ جیتا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More