’ہم تم اک کمرے میں بند ہوں‘: وہ فلم جس نے ڈمپل اور رشی کپور کو راتوں رات سٹار بنا دیا

بی بی سی اردو  |  Sep 28, 2023

’ہم تم ایک کمرے میں بند ہوں اور چابی کھو جائے۔‘

1980 کی دہائی میں بڑے ہونے والے پاکستانیوں کو بالی وڈ فلم ’بوبی‘ تو یاد ہو گی ہی مگر یہ بھی بہت اچھی طرح سے یاد ہو گا کہ ڈمپل کپاڈیہ اور رشی کپور کی اس رومانوی فلم کو گھر کے بڑوں نے تو وی سی آر پر ذوق و شوق سے دیکھا مگر بچوں کو اس دوران پاس پھٹکنے کی بھی اجازت نہ ہوتی۔

دل کو گدگدانے اور جزبات کو گرمانے والے اس فلم کے گانے اس قدر مقبول ہوئے تھے کہ جب بھی جس کو موقع ملا اس نے نوجوانی کے رومانس سے بھرپور اس فلم کو ضرور دیکھا۔

انڈیا کی یہ مقبول ترین رومانوی فلم ’بوبی‘ آج سے 50 سال قبل 28 ستمبر 1973 کو ریلیز ہوئی تھی۔

یہ 1973 کا سال تھا، جب انڈیا میں ’بوبی‘ نامی ہندی فلم ریلیز ہوئی تھی جس میں ہیرو اور ہیروئن دونوں نئے تھے۔ ہیروئن ڈمپل کپاڈیہ کا نام بھی شاید کسی نے نہیں سنا تھا۔

فلمکے ہدایت کار راج کپور کی اس سے پہلے والی فلم بہت بڑی فلاپ رہی لیکن جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو اس کی مقبولیت ایسی تھی کہ دور دراز گاؤں اور قصبوں سے ’بوبی بس‘ کے نام سے خصوصی بسیں بڑے شہروں کے سینما گھروں تک چلتی تھیں اور پھر یہ بسیں لوگوں کو فلمیں دکھا کر گاؤں تک واپس لاتی تھیں۔

ڈمپل کپاڈیہ کا پولکا ڈاٹ ڈریس ’بوبی ڈریس‘ کے نام سے مشہور ہوا اور لوگ ہیرو رشی کپور کی موٹرسائیکل کو ’بوبی موٹر سائیکل‘ کہتے تھے۔

بوبی کی مقبولیت کی ایک اور مثال 1977 میں دیکھنے کو ملی جب آنڈیا کے سیاست دان بابو جگ جیون رام نے دلی کے رام لیلا میدان میں انتخابی ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا۔

وہ کانگیس رہنما اندرا گاندھی سے علیحدگی اختیار کر چکے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بوبی کو اس شام جان بوجھ کر دوردرشن پر دکھایا گیا تاکہ لوگ ریلی میں نہ جائیں۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور اگلے دن اخبار کی سرخی تھی’بابو بیٹس بوبی‘ (یعنی بابو نے بوبی کو پچھاڑ دیا)۔

اس وقت تک ہندی میں بالغوں کی محبت کی کہانیاں بن رہی تھیں، لیکن ’بوبی‘ شاید ہندی کی پہلی کم عمری کی محبت کی کہانی تھی، جس میں جوانی کا جوش، بغاوت، معصومیت اور بے فکر محبت کا امتزاج تھا۔

تقسیم کار دستیاب نہ تھے

تاہم بوبی کی کامیابی کے پیچھے موجود جدوجہد کی ایک الگ ہی کہانی تھی۔

مشہور فلمی تجزیہ کار جئے پرکاش راج کپور کے بہت قریب تھے اور انکی وفات سے چند سال قبل انھوں نے بوبی کی کہانی تفصیل سے سنائی تھی۔

جے پرکاش نے بتایا تھا کہ ’اس زمانے میں آرچی کامکس راج کپورصاحب کے دفتر میں رکھے ہوتے تھے۔ انھوں نے ان کامکس میں ایک کردار کے بارے میں پڑھا جو کسی کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا جس پر اس (کردار) کے والد نے کہا، ’کیا تمہاری عمر محبت کرنے کی ہے؟ آپ محبت کے جھمیلوں میں پڑنے کے لیے ابھی بہت چھوٹے ہیں۔‘

وہاں سے انھیں ایک ایسی فلم بنانے کا خیال آیا۔ 1970 میں راج کپور کی فلم ’میرا نام جوکر‘ بری طرح فلاپ ہو گئی تھی۔ اس کے ایک سال بعد فلم ’کل آج کل‘ بھی فلاپ ہو گئی جس کی ہدایت کاری راج کپور کے بیٹے رندھیر کپور نے کی۔

اسی دوران راج کپور کے والد پرتھوی راج کپور وفات پا گئے۔ پھر ان کے قریبی موسیقار جے کشن بھی دنیا سے چلے گئے۔ یہ وہ مشکل دور تھا جب تمام چیلنجوں کے درمیان راج کپور نے ایک نوجوان محبت کی کہانی بنانے کا فیصلہ کیا۔

لیکن فلم کے لیے بڑی رقم کی ضرورت تھی، جس کے لیے ہندوجا خاندان آگے آیا۔ اس وقت ہندوجا خاندان ہندی فلموں کو بیرون ملک خصوصاً ایران میں تقسیم کرکے اپنا کاروبار بڑھا رہا تھا۔

جے پرکاش کے مطابق ’فلم تیار تھی، راج صاحب فلم کے لیے زیادہ قیمت مانگ رہے تھے۔ وہاداکار راجیش کھنہ کا دور تھا اور راج کپور صاحب راجیش کھنہ کی فلم سے ایک لاکھ زیادہ قیمت مانگ رہے تھے۔‘

پہلے ڈسٹری بیوٹر (تقسیم کار) ششی کپور تھے جو ایک وکیل بھی تھے۔ انھوں نے دلی یوپی کے ساتھ پنجاب کے حقوق خریدے تھے۔ فلم کہیں نہیں بکی تھی۔ ہندوجا خاندان جس نے فلم میں پیسہ لگایا تھا، وہ عدالت تک پہنچ گئے۔

’راج کپور کو لگا کہ اگر فلم ہٹ ہو جائے گی تو دوسرے مقامات کے حقوق بھی فروخت ہو جائیں گے، لیکن ہندوجا کو لگا کہ وہ صرف دو جگہوں کے حقوق سے پیسے کیسے حاصل کریں گے۔ انھوں نے ہائی کورٹ میں ان کے خلاف کیس دائر کر دیا۔‘

فلم کی ریلیز سے پہلے راج کپور نے ان کا سرمایہ واپس کر دیا تاہم فلمکا پہلا شو ہاؤس فل ہو گیا اور فلم سپرہٹ گئی۔ انڈسٹری کے لوگ پھر سے راج کپور کو بڑا ڈائریکٹر سمجھنے لگے۔ وہ لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے جنھوں نے فلمکے آغاز پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’راج فلم بنانا بھول گیا ہے۔‘

’مجھے بطور ڈیفالٹ ہیرو چنا گیا‘

رشی کپور اپنی سوانح عمری ’کھلم کھلا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’راج کپور کا سینما کے ساتھ جنون ایسا تھا کہ وہ فلموں سے کمائی ہوئی تمام رقم دوبارہ فلموں میں لگا دیتے تھے۔ میرا نام جوکر کے بعد آر کے اسٹوڈیوز کو رہن رکھا گیا تھا۔‘

رشی کپور کی سوانح عمری میں مزید لکھا ہے کہ ’راج کپور کے پاس اپنا گھر بھی نہیں تھا۔ بوبی کی کامیابی کے بعد انھوں نے اپنا گھر خرید لیا۔ بوبی کو آر کے بینر کو بلند کرنے کے لیے بنایا گیا تھا نہ کہ مجھے لانچ کرنے کے لیے۔ اس فلم کا مرکز فلم کی ہیروئن تھی۔ جب ڈمپل کی تلاش مکمل ہوئی تو مجھے بطور ڈیفالٹ ہیرو چنا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ مجھے سارا کریڈٹ ملا کیونکہ ڈمپل نے شادی کر لی اور جب فلم ہٹ ہوئی توتالیاں میرے حصے میں آئیں۔‘

کہا جاتا ہے کہ بوبی بناتے وقت دھرمیندر، پران صاحب، راجندر کمار سمیت انڈسٹری کے کئی بڑے ناموں نے ان سے کہا تھا کہ وہ آر کے بینر کو بحال کرنے کے لیے کوئی پیسہ لیے بغیر کام کریں گے۔

لیکن راج کپور نے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت میری فلمیں فلاپ ہو چکی ہیں، اس لیے میرا مقام (لیول) کم اور آپ کا اونچا ہے۔ جب ہمارا اور آپ کا لیول برابر ہو جائے گا تو ہم مل کر کام کریں گے۔ اور راج کپور نے بھی ایسا کیا۔‘

ڈمپل کی پولکا ڈاٹ شرٹ، سٹائلش پینٹ اور گلاسز

’بوبی‘ کی ریلیز کے بعد رشی کپور اور ڈمپل کی جوڑی نے دھوم مچا دی۔ بوبی صرف ایک فلم نہیں بلکہ فیشن کی علامت بھی تھی۔ ڈمپل کی وہ منی سکرٹ، پولکا ڈاٹ شرٹ، سٹائلش پینٹ، بڑے شیشوں والے گلاسز، پارٹیاں، راج کپور نے انڈیا کے نوجوانوں کو نئے طرز زندگی سے متعارف کروایا۔

فلموں کی تاریخ کے ماہرامرت گنگر نے بی بی سی کی صحافی سپریا سوگلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’بوبی بریگنزا یعنی بوبی 50 سال بعد بھی ایک جنون اور شوق کا نام ہے۔ یہ نوجوان نسل کی محبت کی کہانی تھی جو سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھتی تھے۔ راجہ (رشی کپور) کا تعلق ایک ہندو امیر گھرانے سے ہے اور بوبی کا تعلق مسیحی خاندان سے دکھایا گیا ہے جو ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہے۔ ‘

’یہ وہ دور تھا جب ملک 1971 کی جنگ کے ماحول سے باہر آ رہا تھا، میرا نام جوکر فلاپ ہو گئی۔ ایسے میں ملک میں نوجوانوں کو تازہ ہوا اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس ماحول میں بوبی ریلیز ہوئیاور اس نے ہر سو دھوم مچا دی، وہ بھی ایسی کہ جس کی گونج برسوں بعد بھی تھم نہ سکی۔‘

راجیش کھنہ نے رشی کپور کی انگوٹھی کیوں پھینکی؟Getty Images

جے پرکاش چوکسی نے ڈمپل کپاڈیہ کو ہیروئن کے طور پر منتخب کرنے کی کہانی بھی سنائی۔

’کشن دھون ایک کریکٹر آرٹسٹ تھے۔ ان کی بیوی بندی دھون راج کپور کی بیوی کرشنا کی دوست تھیں۔ انھوں نے ڈمپل کپاڈیہ کا نام تجویز کیا۔ سکرپٹ کے ساتھ ساتھ ڈمپل کے سِین بھی کئی برسوں تک آر کے اسٹوڈیو میں کہیں محفوظ رکھے گئے تھے۔ وہ منظر دیکھ کر آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ یہ وہی ڈمپل کپاڈیہ ہے۔ اس وقت ڈمپل کی عمر بمشکل 15 یا 16 سال کی ہوگی۔‘

فلمبوبی 1973 یعنی 20 ویں صدی میں بنائی گئی۔ تاہم بوبی کے ایک سِین میں ڈمپل کہتی ہیں کہ ’میں 21ویں صدی کی لڑکی ہوں، مجھے کوئی چھو نہیں سکتا۔‘

جب رشی کپور نے ان کو روکا کہ ابھی 20ویں صدی ہے تو وہ کہتی ہیں کہ ’20ویں صدی پرانی ہے اور میں خود کو محفوظ کرناجانتی ہوں۔‘

رشی کپور اپنی سوانح عمری ’کھلم کھلا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ڈمپل ہمارے گھرانے کا حصہ بن چکی تھیں۔ میں راج کپور کو پاپا کہتا تھا اور ڈمپل بھی انھیں پاپا کہتی تھی۔ بعد میں میں انھیں راج جی کہنے لگا لیکن ڈمپل آخر تک پاپا ہی کہتی رہیں۔‘

’بوبی کے دوران میں یاسمین کے ساتھ ریلیشن شپ (تعلقات) میں تھا۔ اس نے مجھے ایک انگوٹھی دی لیکن شوٹنگ کے دوران کئی بار ڈمپل وہ انگوٹھی نکال کر پہن لیتی تھیں۔ جب راجیش کھنہ نے ڈمپل کو پرپوز کیا تو اس نے انگوٹھی نکال کر سمندر میں پھینک دی۔ میڈیا میں اس کا بہت چرچا تھا۔ پھر ہمارے بارے میں بہت سی باتیں شائع ہوئیں لیکن ہمارے درمیان ایسا کچھ نہیں تھا۔ ہاں بطور ہیروئن تب میں ان کی بہت عزت کرتا تھا اور ان کے بارے میں مثبت سوچ رکھتا تھا۔‘

امرت گنگر کہتے ہیں کہ ’رشی اور ڈمپل خوبصورتی سے راج کپور کے وژن کو سکرین پر لائے چاہے وہ گانے ہوں، ڈانس ہوں یا اداکاری۔ فلم میں رشی کپور اور ڈمپل کی پہلی ملاقات اسی لمحے کو دہراتی ہے جب راج کپور اور نرگس پہلی بار ملے تھے۔ خواجہ احمد عباس نے ایک المناک انجام لکھا تھا جسے بعد میں خوش کن انجام میں بدل دیا گیا۔‘

جب راج کپور نے ’لتا جی‘کے حصے کا گانا گایا

بوبی کی کامیابی میں آنند بخشی کے گانوں اور لکشمی کانت پیارے لال کی موسیقی نے بڑا کردار ادا کی۔ راج کپور رشی کپور کے لیے نئے گلوکار شیلیندر سنگھ کو لے کر آئے۔

شیلیندر سنگھ نے چند سال قبل دبئی سے فون پر بوبی کے بارے میں اپنی یادیں شیئر کی تھیں۔

پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے شیلندر نے کہا تھا کہ ’راج کپور صاحب کو ایک نئی آواز چاہیے تھی، وہ کہتے تھے کہ ہیرو 16 سال کا لڑکا ہے، اس لیے گلوکار کو بھی اسی عمر کا ہونا چاہیے، اس طرح میرے کریئر کا آغاز ہوا۔‘

بوبی اور راج کپور کو یاد کرتے ہوئے شیلیندر سنگھ نے کہا ’راج کپور کو گانوں اور موسیقی کی بڑی سمجھ بوجھ تھی۔ ایک گانے کی ریکارڈنگ کے دوران لتا جی نہیں آئیں۔ اس دوران میں اس گانے میں اپنا حصہ گا رہا تھا اور راج کپورلتا جی کا حصہ گا رہے تھے، انھیں پورا گانا یاد تھا۔‘

’میرا نام پریم ہے‘Getty Images

فلم بوبی کی بات کریں تو اس میں دکھائی گئی نوجوان محبت کی کہانی اور راج کپور کے کہانی سنانے کے انداز دونوں نے فلم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔

فلم میں اس کے معاون کردار بھی فلم کی جان تھے، چاہے وہ درگا کھوٹے ہوں، جیک براگنزا عرف پریم ناتھ ایک مچھیرے کے کردار میں ہوں یا پران، رشی کپور کے مغرور والد کے کردار، ہوںیا ولن پریم چوپڑا کا کردارہو۔

پریم چوپڑا کی بیوی اور راج کپور کی بیوی بہنیں تھیں اور وہ اس فلم میں صرف ایک چھوٹا سا کردارکر رہے تھے۔ وہ فلم کے آخری حصے میں مختصر طور پر نظر آتی ہیں۔

لیکن ان کا وہ منظر آج بھی یاد ہے، جب گھر سے بھاگے بوبی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ کہتے ہیں ،پریم، نام میرا پریم چوپڑا ہے۔

رشی کپور کو سنجیو کمار (کوشیش)، امیتابھ بچن (زنجیر)، دھرمیندر (یادوں کی بارات) اور راجیش کھنہ (داغ) کے درمیان بوبی کے لیے بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔

اپنی سوانح عمری کھلم کھلا میں رشی کپور نے لکھا کہ ’کسی نے مجھے پیسوں کے بدلے ایوارڈ کی پیشکش کی تھی۔ میں نے کہا کیوں نہیں۔ مجھے اس کا افسوس ہے۔ میری عمر صرف 20 یا21 سال تھی۔ اچانک میں بوبی کے ساتھ سٹار بن گیا۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ واقعی یہ رقم منتظمین تک پہنچی یا نہیں۔ لیکن میں نے انھیں 30 ہزار روپے دیے۔‘

مزے کی بات یہ ہے کہ شیلیندر سنگھ نے بھیاپنے انٹرویو میں ایسی ہی بات کہی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’مجھے بوبی کے لیے بہترین گلوکار کے ایوارڈ کی پیشکش کی گئی تھی لیکن میں نے انکار کر دیا۔ میں وجہ نہیں بتا سکتا۔ انڈیامیں ایوارڈز کی کوئی اہمیت نہیں، اچھے گانوں کو ایوارڈ نہیں ملتے۔‘

گانوں کے علاوہ بوبی کی مضبوط کڑی اس کا سکرین پلے ہے جسے پی ساٹھے نے خواجہ احمد عباس کے ساتھ مل کر لکھا تھا اور اس وقت عباس صاحب کی عمر تقریباً 58 سال تھی۔ بوبی کی پرانی یادیں ابھی باقی ہیں، کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میںآس پاس نظر آتی ہیں۔

مثال کے طور پر کشمیر میں ہوٹل کا وہ کمرہ جس میں ’اندر سے کوئی باہر نہ آ سکے‘ گانا شوٹ ہوا تھا وہ آج بھی بوبی ہٹ کے نام سے مشہور ہے اور لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں یا جب ایک روسی پرستار نے رشی کپور کو امریکی سیلون میں بال کٹواتے ہوئے پہچان لیا اور اپنے فون سے ’میں شاعر تو نہیں‘ بجایا۔

یہ نوجوان محبت کی کہانی جو راستے کی رکاوٹوں کو توڑ ڈالتی ہے، غربت اور دولت کے درمیان گھومتی ہے، فیشنکی جانب لبھاتی ہے اور اسے آج بھی نوعمروں کی بہترین محبت کی کہانی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More