آٹھ لاکھ یورو میں 850 قیدی: وہ صحافی جو پیسے دیکر جیلوں سے قیدی چھڑواتے ہیں

بی بی سی اردو  |  Sep 28, 2023

BBC آرنی سیمسروٹ

2021 کا دن تھا۔ آرنی سیمسروٹ اپنی جیب میں 20 ہزار یورو، 60 لاکھ پاکستانی روپے سے زیادہ، کی رقم بھر کر گھر سے نکلے۔ اس میں سے کچھ پیسہ ان کا اپنا تھا اور کچھ انھوں نے ادھار لیا تھا۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس لمحے میں وہ ’گھبراہٹ کا شکار تھے۔‘

وہ کہتے ہیں ’میں نہیں جانتا تھا کہ یہ کام ہو گا بھی یا نہیں۔‘

ان کی منزل جرمنی کے دارالحکومت برلن کے شمال میں واقع ایک جیل تھی۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ جیب میں موجود رقم سے جتنے قیدیوں کو آزاد کروا سکتے ہیں، کرائیں گے۔

35 سالہ صحافی نے جرمنی کے قانونی نظام میں ایک کمزوری تلاش کر لی تھی۔

اگر کسی پر بھی سزا کے طور پر جرمانہ عائد کیا جاتا تو یہ ضروری نہیں تھا کہ یہ جرمانہ وہ شخص خود ادا کرے۔ اس کمزوری کی مدد سے انھوں نے ایک ایسے قانون کی جانب توجہ مبذول کروانے کی ٹھانی جو ان کے نزدیک سراسر ناانصافی کے مترادف تھا اور جس کی مدد سے جج کسی بھی ایسے شخص کو جیل بھجوا سکتے تھے جو پبلک ٹرانسپورٹ پر بنا ٹکٹ خریدے سوار ہوا ہو۔

اس دن انھوں نے پلوٹزینسے جیل سے 12 مردوں اور اگلے ہی دن ایک اور جیل سے نو خواتین کو آزاد کروایا۔

اس کے بعد سے اب تک آرنی اور ان کی تنظیم، ’دی فریڈم فنڈ‘، تقریبا آٹھ لاکھ یورو کے جرمانے ادا کر چکے ہیں اور 850 افراد کو رہائی دلوا چکے ہیں۔

BBC

ان کا ماننا ہے کہ ’یہ قانون غیرمنصفانہ ہے۔ یہ قانون ان لوگوں سے امتیازی سلوک کرتا ہے جن کے پاس پیسہ نہیں، جن کے پاس مکان نہیں ہے، جو لوگ پہلے سے ہی بحرانی کیفیت کا سامنا کر رہے ہیں۔‘

’ہم سمجھتے ہیں کہ اس قانون کو بدلنا چاہیے کیوں کہ یہ کسی جمہوری اور منصفانہ معاشرے میں نہیں ہونا چاہیے۔‘

اندازوں کے مطابق جرمنی کی جیلوں میں سات ہزار کے قریب ایسے افراد قید ہیں جنھوں نے ٹرین، بس یا ٹریم کے ٹکٹ کے پیسے ادا نہیں کیے۔ ان میں سے زیادہ تر کو جرمانہ ادا کرنے کی سزا ہوئی لیکن ان کے پاس یہ جرمانہ دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔

ان میں سے چند کو سیدھا ہی جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ گیسا مارز کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔

وہ 50 سالہ کمزور سی خاتون ہیں جو کئی برسوں تک گلیوں میں ففٹی ففٹی نامی ایک میگزین بیچ کر گزارا کرتی رہیں۔ گزشتہ نومبر میں انھیں جیل بھیج دیا گیا جہاں انھوں نے چار ماہ بتائے۔ ان کو دو بار ڈزلڈروف میں بنا ٹکٹ پکڑا گیا تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میں میتھاڈون لے رہی تھی۔ یہ دوائی اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب آپ ہیروئن چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور آپ کو روزانہ کلینک جانا پڑتا ہے۔‘

’میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ مجھے سرکاری مدد مل رہی تھی لیکن اس وقت مہینے کے آخری دن تھے اور میرے پاس بلکل پیسے نہیں بچے تھے۔‘

گیسا کی سزا تین سال تک معطل رہی لیکن وہ عدالتی شرائط پوری نہیں کر سکیں اور آخرکار ان کو جیل بھجوا دیا گیا۔

BBCگیسا مارز

ففٹی ففٹی میگزین نے ان کے بارے میں آگاہی مہم چلائی اور حکومتی عمارات کے باہر مظاہرے ہوئے۔ چند صحافیوں نے جیل میں ان سے ملاقات بھی کی اور ان کے حالات پر پارلیمنٹ میں بھی بحث ہوئی۔

واضح رہے کہ ہر وہ شخص جو بنا ٹکٹ لیے سفر کرتا ہے جیل نہیں جاتا۔ ان کو 60 یورو کا جرمانہ ہوتا ہے اور معاملہ ختم کر دیا جاتا ہے۔

لیکن اگر کوئی بار بار ایسا کرتا پکڑا جائے، تو پبلک ٹرانسپورٹ کمپنیاں ایسے لوگوں سے نرمی نہیں کرتیں۔ ایسے افراد کیخلاف مقدمہ چلانے کی تجویز دی جاتی ہے چاہے وہ جرمانہ بھریں۔

گیسا کا شمار بھی ایسے افراد میں ہوا۔ ان کو پہلی بار سزا ہونے کے بعد سات بار بنا ٹکٹ لیے سفر کرتے پکڑا گیا۔ اس سے پہلے بھی اسی جرم میں ان کو سزا ہو چکی تھی۔

آرنی گیسا کی مدد نہیں کر پائے کیوں کہ ان کو جرمانے کی سزا نہیں ہوئی تھی۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ گیسا جیسے لوگوں کو جیل نہیں بھیجنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ جیلوں کے بہت سے گورنر بھی یہ سوچ رکھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جیل والے ہمارے فنڈ سے محبت کرتے ہیں۔‘

’کیوں؟ کیوں کہ جو لوگ ٹکٹ نہ خریدنے کی وجہ سے جیل جاتے ہیں ان کو جیل میں نہیں ہونا چاہیے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو نفسیاتی مسائل ہیں، جن کے پاس گھر نہیں، جن کو سوشل سروسز کی مدد درکار ہے۔ جیل ان کے لیے غلط جگہ ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ بہت سی جیلوں میں اب خود جیل والے سزایافتہ افراد کو ان کے فنڈ کا فارم تھما دیتے ہیں۔

’تو ایک طرف ریاست لوگوں کو سزا دے رہی ہے اور پھر وہی ریاست سول سوسائٹی کے پاس مدد کے لیے آتی ہے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاملہ کتنا عجیب ہے۔‘

آرنی کا ماننا ہے کہ 850 افراد کو رہا کروانے سے ان کی تنظیم نے ریاست کے 12 ملین یورو بچائے ہیں جو ان فرد کو جیل میں رکھنے کی قیمت ہوتی۔

BBC

جرمنی کی پبلک ٹرانسپورٹ نے اس قانون میں تبدیلی کی مخالفت کی ہے۔ بی بی سی کو دیے جانے والے ایک بیان میں وی ڈی وی تنظیم، جو 600 ریل اور بس کمپنیوں کی نمائندگی کرتی ہے، کا کہنا ہے کہ ’بار بار ایسے جرائم کرنے والوں کے لیے جیل کا خطرہ برقرار رکھنا ضروری ہے۔‘

ان کے ترجمان کے مطابق ٹکٹ نہ لینے والوں کی وجہ سے انڈسٹری کو سالانہ 300 ملین یورو کا خسارہ ہوتا ہے۔

یہ واضح نہیں کہ یہ قانون بدلے گا یا نہیں لیکن گیسا کا مقدمہ تبدیلی کا جھونکا ضرور ثابت ہوا ہے۔ ڈزلڈروف شہر میں شہری کونسل نے مقامی ٹرانسپورٹ کمپنی کو حکم دیا ہے کہ ٹکٹ کے بغیر پکڑے جانے والوں کو سزا نہ دی جائے۔

کمپنی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ وہ اس حکم کی تعمیل کریں گے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More