Getty Images
صدیوں تک یہ مخلوق کسی بھی انسان کی نظروں میں آئے بغیر سمندر میں تیرتی رہی۔ ان میں سے کچھ 24 میٹریعنی 80فٹ تک لمبی اور 90 ٹن وزنی تھیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ مخلوق سمندر میں موجود ہے۔
سنہ 2021 میں ان کی دریافت حیرت انگیز تھی اور اگر دنیا میں جوہری ہتھیار نہ ہوتے تو شاید ہمیں سمندروں میں ان کی موجودگی کا علم ہی نہ ہو پاتا۔
مگر جوہری ہتھیاروں کا وہیل کے اس گروہ سے کیا تعلق ہے؟ اس کا جواب سینسرز کے ایک عالمی نیٹ ورک میں پوشیدہ ہے، جو دنیا کے کچھ انتہائی دور دراز مقامات پر رکھے گئے ہیں۔
1990 کی دہائی سے آسٹریا کے شہر ویانا میں واقع ایک کنٹرول روم میں سینسرز کے عالمی نیٹ ورک کے آپریٹرز ممکنہ جوہری تجربات کا پتا لگانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یعنی اگر کوئی ملک دنیا کو بغیر بتائے اور خفیہ انداز میں کوئی جوہری تجربہ کرتا ہے تو اس کا پتا لگایا جا سکے۔
لیکن جیسے جیسے سال گزرے ہیں جوہری دھماکوں کا پتا چلانے والے سینسرز کے اس نیٹ ورک نے سمندر، زمین اور فضا میں بہت سی دیگر ایسی آوازیں بھی سُنی ہیں جو آج سے پہلے کبھی ریکارڈ نہیں کی گئی تھیں۔ اور آج کے دور میں سینسرز کا یہ عالمی نیٹ ورک سائنس کے لیے ایک حیرت انگیز نعمت ثابت ہو رہا ہے۔
بلیو وہیل کیسے ملی اس کی کہانی 1940 کی دہائی تک جاتی ہے۔ یعنی وہ وقت جب انسانوں نے دریافت کیا کہ وہ ایٹم کی خوفناک طاقت کو کنٹرول میں کرتے ہوئے بڑی تباہی کے ہتھیار بنا سکتے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے پہلی مرتبہ جاپان پر ایٹم بم گرائے جانے کے بعد دہائیوں تک دنیا عدم استحکام اور خوف کا شکار رہی، اور خوف کا شکار ان ممالک نے اپنے جوہری ہتھیار بنانے کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور یوں دنیا میں طاقتور ہتھیاروں کا تجربہ کرنے کی دوڑ شروع ہو گئی۔
جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہونے کے 50 سال بعد کئی حکومتوں نے تسلیم کیا کہ اس معاملے میں شفافیت کی ضرورت ہے۔ اگر جوہری کشیدگی سے بچنا ہے تو دنیا کو یہ جاننے کا ایک طریقہ درکار ہے کہ آیا کوئی ملک غیر مجاز جوہری تجربات کر رہا ہے یا نہیں۔
لہٰذا 1990 کی دہائی میں، متعدد ممالک نے جوہری تجربات پر پابندی کے معاہدے (سی ٹی بی ٹی) پر دستخط کیے اور اس کی توثیق کی، جس میں برطانیہ اور بہت سی مغربی یورپی جوہری طاقتیں بھی شامل ہیں۔ چین، انڈیا اور امریکہ سمیت کچھ بڑی طاقتوں نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔
بڑی طاقتوں کی مخِالفت کے باعث اگرچہ یہ معاہدہ نافذ العمل ہونے میں ناکام رہا لیکن اس عمل نے جوہری ہتھیاروں کے تجربوں کے خلاف ایک عالمی معیار پیدا کیا اور اہم بات یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ایک ایسا نیٹ ورک بھی قائم ہوا جو زمین پر کہیں بھی جوہری دھماکے کو سننے، سونگھنے یا محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دنیا بھر میں سینسرز کے ساتھ، ویانا میں سی ٹی بی ٹی آرگنائزیشن کے ذریعے چلایا جانے والا بین الاقوامی مانیٹرنگ سسٹم تب سے کام کر رہا ہے، جو دنیا بھر میں 300 سے زیادہ تنصیبات تک بڑھایا جا رہا ہے جو جوہری دھماکوں کی آواز، جھٹکوں کی لہروں اور تابکار مواد کا پتہ لگا سکتے ہیں۔
اس میں 120 سے زیادہ زلزلے کے سٹیشن، سمندروں میں 11 ہائیڈرو ایکوسٹک مائیکروفون، 60 ’انفراساؤنڈ‘ سٹیشن شامل ہیں جو بہت کم فریکوئنسی والے ناقابل سماعت شور کو بھی سن سکتے ہیں، اور تابکار ذرات یا گیسوں کے 80 ڈیٹیکٹرز بھی اس میں شامل ہیں۔
ان سینسرز کی بہت ساری تنصیبات پُرسکون اور نسبتاً ہلچل سے محفوظ مقامات پر ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ بحرالکاہل میں ویک آئی لینڈ پر ایک سٹیشن چلاتا ہے جو دنیا کے سب سے الگ تھلگ علاقوں میں سے ایک ہے۔ ایسے ہی کچھ سینٹرز سب سے الگ تھلگ انٹارکٹیکا خطے میں بھی ہیں۔
Getty Images2020 میں بیروت کی بندرگاہ میں غیر جوہری دھماکے نے انفرا ساؤنڈ اور زلزلے کی لہریں پیدا کیں
تاہم ان میں سے کچھ آبادیوں کے قدرے قریب ہیں جیسا کہ ٹیکساس کے قریب آبادی ’لاجیتاس‘ یا کیلیفورنیا کے شہر سکرامنٹو میں ریڈیونیوکلائیڈ سٹیشن۔
آسٹریا میں سی ٹی بی ٹی او کے انٹرنیشنل مانیٹرنگ سسٹم ڈویژن آئی ایم ایس کی ڈائریکٹر زیولی پیریز کیمپوس کا کہنا ہے کہ ان تنصیبات کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کا مطلب یہ ہے کہ اگر زمین پر کہیں جوہری دھماکہ ہوتا ہے تو ویانا کنٹرول روم کے آپریٹرز کو پتہ چل جائے گا۔
’جہاں کہیں بھی ایسا ہوتا ہے، ہمارے پاس اس کا سراغ لگانے کے لیے ٹیکنالوجی موجود ہوتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اگر زیر زمین جوہری تجربہ ہوتا ہے تو ہمارے پاس اسے پکڑنے کے لیے سیسمک ٹیکنالوجی موجود ہے۔ اگر جوہری تجربہ زیر آب ہے تو ہمارے پاس ہائیڈرو ایکوسٹک سٹیشن موجود ہیں اور اگر تجربہ فضا میں ہوتا ہے، تو ہمارے پاس انفراساؤنڈ ہے اور ریڈیونیوکلائڈ سٹیشن ہے، یہ ہمیں یہ فرق کرنے کے بھی قابل بناتے ہیں کہ آیا یہ جوہری دھماکہ تھا یا کچھ اور۔
درحقیقت جب شمالی کوریا نے سنہ 2000 اور 2010 کی دہائی میں جوہری ہتھیاروں کے تجربات کیے، تو آئی ایم ایس میں مختلف زلزلے کے سینسروں نے دھماکوں سے اٹھنے والی لہروں کومحسوس کیا اور فضا میں تابکار آئسوٹوپس کے تجزیے نے اس کی تصدیق کی۔
نیٹ ورک نے بڑے غیر جوہری دھماکوں کو بھی محسوس کیا ہے، جیسا 2020 میں بیروت کی بندرگاہ پرہونے والازبردست دھماکہ یا جنوری 2022 میں ہاپائی کا آتش فشاں کا پھٹنا۔
تاہم حال ہی میں آئی ایم ایس نیوکلیئر نیٹ ورک نے بڑے دھماکوں سے کہیں زیادہ اور بڑے انکشافات کیے ہیں۔ گذشتہ ایک دہائی کے دوران جیسے جیسے اعداد و شمار تک سائنسی رسائی کا آغاز ہوا ہے محققین نے ایسے واقعات کو محسوس کرنے کے لیے آئی ایم ایس کا رخ کیا ہے جن پر عام حالات میں توجہ نہیں دی جا سکتی۔
Getty Imagesوہیل کی آواز پہلی بار مالدیپ کے جنوب میں چاگوس جزیرہ نما میں سنی گئی
جون میں ویانا میں ایک کانفرنس کے دوران سینکڑوں سائنسدانوں نے اپنے نتائج شیئر کیے۔ جرمنی کے محققین نے دکھایا کہ نیٹ ورک کے ہائیڈرو ایکوسٹک سینسر شپنگ کی وجہ سے ہونے والے شور کی نگرانی کیسے کر سکتے ہیں، جاپان کی ایک ٹیم نے اس بارے میں نتائج پیش کیے کہ انھوں نے زیرِ آب آتش فشاں کی سرگرمی کا مطالعہ کرنے کے لیے آئی ایم ایس کو کس طرح استعمال کیا تھا اور برازیل کے ایک محقق نے ارورا بوریلس اور ارورا آسٹرالیس (ناردرن لائٹس) سے پیدا ہونے والے انفراساؤنڈ کے بارے میں بات کی۔
کچھ سائنسدانوں نے انٹارکٹیکا میں برفانی تودوں پر نظر رکھنے کے لیے نیٹ ورک کو استعمال کرنے والی سابقہ تحقیق کی بنیاد پر دور سے گلیشیئرز کے گرنے کا سراغ لگانے کی کوششوں کے بارے میں بتایا۔
نیو میکسیکو کے شہر البکورک میں واقع سینڈیا نیشنل لیبارٹریز کی طبیعیات دان ایلزبتھ سلبر نے یہ بھی دکھایا کہ کس طرح آئی ایم ایس کے ڈیٹیکٹرز نے ’زمین پر آنے والا آگ کا گولہ‘پکڑا جو 10 سینٹی میٹر یعنی 4 انچ سے بڑا شہاب ثاقب تھا جس نے 22 ستمبر 2020 کو فضا سے ٹکراتے وقت ویویز پیدا کیں۔
جہاں تک پیگمی بلیو وہیل کا تعلق ہے تو انھیں اس وقت دریافت کیا گیا جب آسٹریلیا میں محققین نے آئی ایم ایس کے ہائیڈرو ایکوسٹک نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے سمندر کی آوازوں کو مزید بغور سننے کا فیصلہ کیا۔
سنہ 2021 میں سڈنی کی یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے حیاتیاتی ماہر ایمانوئل لیروئے اور ان کے ساتھیوں نے وسطی بحر ہند میں وہیل کی مختلف آبادیوں کی آوازوں کا تجزیہ کیا تھا۔
کچھ سال پہلے ایک نئی آواز سنی گئی جسے ’چاگوس‘ یا ’ڈیاگو گارسیا ڈاؤنسدیپ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کا نام اس جگہ کے نام پر رکھا گیا تھا جہاں سے یہ آوازیں آ رہی تھیں۔
اس وقت بحر ہند میں اومورا کی وہیل کی آبادی کے ساتھ ساتھ پانچ بلیو وہیل پوڈز بھی مشہور تھیں۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ چاگوس آواز کس گروپ سے تعلق رکھتی ہے۔
سائنس دان جانتے ہیں کہ ہر پوڈ یا گروہ کی اپنی آوازیں ہوتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ انھیں’صوتی آبادیوں‘ میں ترتیب دیا جا سکتا ہے اور یہ ان میں سے کسی سے میل نہیں کھاتی تھیں۔
لیروئے اور ان کے ساتھیوں نے محسوس کیا کہ آئی ایم ایس نیٹ ورک انھیں سری لنکا سے لے کر مغربی آسٹریلیا تک سمندر کے مختلف مقامات پر تقریبا دو دہائیوں تک چاگوس آواز کا مطالعہ کرنے کے قابل بنائے گا۔
ان کے تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ چاگوس آواز پیگمی بلیو وہیل کی مکمل طور پر نئی آبادی سے تعلق رکھتی ہے۔ اس نئے پوڈیا گروہکو تلاش کرنا اچھی خبر تھی کم از کم اس لیے بھی کہ پیگمی بلیو وہیل بہت نایاب ہیں۔
20 ویں صدی میں بلیو وہیل کے شکار نے اسے معدوم ہونے کے قریب پہنچا دیا تھا، 1920 کی دہائی میں ایک اندازے کے مطابق ان کی آبادی 239،000 تھی جو 1973 میں 360 تک پہنچ گئی۔
جب آئی ایم ایس کے آرکیٹیکٹس نے اپنا سراغ لگانے کا نیٹ ورک بنایا تو انھوں نے ایسا اس امید میں کیا کہ دنیا تھوڑی محفوظ ہو گی۔
پیریز کیمپوس کہتے ہیں کہ ’میرے لیے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان ذہین لوگوں نے فیصلہ کیا کہ جوہری تجربات انسانیت کے لیے خطرہ ہیں اور انھوں نے نہ صرف ایک معاہدہ لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ اسے روکا جائے بلکہ وہ اس کی نگرانی کے لیے ٹیکنالوجی بھی لے کر آئے۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو انسانیت کے لیے اچھے استعمال میں لا رہا ہے۔‘
لیکن اس دور اندیشی کے باوجود ، نیٹ ورک کے بانیوں نے شاید آج آئی ایم ایس کے ہر طرح کے استعمال کی توقع نہیں کی تھی۔ اس کے 300 سے زیادہ سٹیشن سیاروں کو سننے کے نیٹ ورک میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں دور دراز مقامات پر سینسرز انسانیت اور فطرت کی نگرانی کر رہے ہیں تاکہ ایسی بلند اور مدھم آوازوں کی نشاندہی کی جا سکے جو شاید نظر انداز کر دی جاتی ہیں اور اس میں وہیل کا ایک خاندان بھی شامل ہے جو ایک انوکھا گانا گا رہا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ہم اس مشکوک پوڈ کو نہ دیکھ سکیں، لیکن پھر بھی انھیں سنا جا سکتا ہے۔