برطانیہ کی سکھ برادری خالصتان کے معاملے پر کچھ عرصے سے دباؤ کیوں محسوس کر رہی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 26, 2023

Getty Images

کینیڈا میں ہونے والی ڈرامائی پیش رفت کے بعد، جہاں وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے کہ ایک سکھ کے قتل میں انڈیا کے ملوث ہونے کے شواہد ہیں، یہ حیران کن نہیں کہ اب برطانیہ سمیت دنیا بھر میں سکھوں کی اموات کے بارے میں افواہیں گردش کر رہی ہیں۔

35 سالہ اوتار سنگھ بھی سکھوں کے لیے ایک الگ ملک، خالصتان، کی حمایت کے لیے جانے جاتے تھے۔ جون کے مہینے میں بیمار ہونے کے بعد اچانک ان کی موت برمنگھم میں واقع ہوئی اور ان کے قریبی رفقا کا ماننا ہے کہ یہ قدرتی موت نہیں تھی۔

ویسٹ مڈ لینڈز پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس کیس میں مکمل تفتیش کی جس میں ایسے شواہد نہیں ملے۔

تاہم برطانیہ میں سکھ برادری طویل عرصے سے دباؤ محسوس کرنے کی بات کرتی رہی ہے جبکہ انڈیا کی حکومت نے کھل کر مطالبہ کیا ہے کہ برطانوی حکام کو شدت پسندی ختم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

گرپریت جوہال ڈمبارٹن سے لیبر کونسلر اور ایک وکیل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سیاست میں اپنے خاندان پر بیتنے والی کہانی کی وجہ سے آئے۔

چھ سال قبل ان کے بھائی جگتر، جو خالصتان کے حامی تھے، شادی کرنے کے ارادے سے انڈیا گئے۔ گرپریت کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ انڈین پنجاب کے قصبے رامی منڈی میں جگتر کو زبردستی ایک گاڑی میں بٹھایا گیا اور اس کے بعد سے ہی وہ شدت پسندانہ سرگرمیوں کے الزام میں جیل میں ہیں۔

جگتر جوہال کا دعویٰ ہے کہ ان پر تشدد کیا گیا اور ان سے زبردستی اقبالی بیان پر دستخظ کروائے گئے۔ کئِی سال تک ان پر فرد جرم ہی عائد نہیں ہوئی اور اب تک ان پر مقدمہ نہیں چلایا گیا۔

گرپریت جوپال جسٹن ٹڑوڈو کی تعریف کرتے ہیں۔ ’کینیڈا کے وزیر اعظم اپنے شہریوں کے لیے کھڑے ہوئے، جبکہ برطانوی حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘

ریپریو نامی انسانی حقوق تنظیم کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ انڈیا میں جگتر کی گرفتاری برطانوی سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے اطلاع دیے جانے کے بعد ہوئی۔

برطانیہ میں سکھوں کی تنظیم نے اس پر غصے کا اظہار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے ایک ورکنگ گروپ کی جانب سے جگتر کی رہائی کے مطالبے کے باوجود برطانوی حکام انھیں رہا کروانے میں ناکام رہے ہیں۔

پردیپ کہتے ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ کی حکومت کو اپنے شہریوں سے زیادہ انڈیا سے تجارتی معاہدہ کرنے کا خیال ہے۔‘

دوسری جانب برطانوی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ جگتر جوہال کی رہائی کا مطالبہ کرنے سے معاملات بہتر نہیں بلکہ خراب ہوں گے۔ وزیر اعظم رشی سونک نے کہا ہے کہ وہ جگتر جوہال کے کیس کا جلد سے جلد حل تلاش کرنے کے خواہش مند ہیں۔

انڈیا اور برطانیہ کے تعلقات کافی مضبوط ہیں لیکن برطانیہ میں سکھوں کی سرگرمیوں کا معاملہ اکثر انڈیا کے حکام کی جانب سے اٹھایا جاتا ہے۔

رواں سال مارچ میں وزیر اعظم نریندر مودی کی انتظامیہ نے اس وقت تشویش کا اظہار کیا تھا جب سکھ اور خالصتان کے حامی مظاہرین نے لندن میں ایک مظاہرے کے دوران انڈیا کے ہائی کمیشن کے باہر توڑ پھوڑ کی تھی۔ انڈیا کی حکومت نے اس وقت اپنا مطالبہ دہرایا تھا کہ برطانیہ شدت پسندی سے نمٹے۔

1980 میں عروج کے بعد علیحدہ سکھ ملک کے لیے حمایت رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی گئی اور انڈیا میں تمام بڑی جماعتیں اس تصور کے خلاف تھیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں اس مطالبے نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے اور خصوصاً بیرون ملک مقیم سکھوں میں مقبول ہوا ہے۔

برطانیہ میں خالصتان کے حامی زیادہ تر پرامن احتجاج ہی کرتے رہے ہیں اور انڈیا اور برطانیہ کے درمیان شدت پسندی اور اظہار رائے کی آزادی کے تصور کے درمیان تناؤ پیدا ہوتا رہا۔ چند واقعات میں تشدد کا عنصر بھی سامنے آیا۔

سنہ 2014 میں سابق انڈین جنرل کلدیپ سنگھ برار پر لندن دورے کے دوران حملہ ہوا جس میں ان کے چہرے اور گلے پر چھری سے وار کیے گئے۔

جنرل کلدیپ سنگھ برار نے 1984 میں امرتسر میں گولڈن ٹیمپل پر فوج کے حملے کی قیادت کی تھی جو سکھوں کے لیے اہم مذہبی مقام ہے۔ اس وقت سکھ علیحدگی پسند تحریک کے سربراہ گولڈن ٹیمپل میں پناہ لیے ہوئے تھے۔

Getty Imagesمیجر جنرل کلدیپ بلبل برار نے آپریشن بلیو اسٹار کی قیادت کی تھی

اس آپریشن میں سینکڑوں سکھ ہلاک ہوئے تھے جن میں علیحدگی پسندوں کے علاوہ ایسے سکھ بھی تھے جو مذہبی دن کی وجہ سے وہاں موجود تھے۔ یہ ایک اہم لمحہ تھا جس کے چار ماہ بعد انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے سکھ باڈی گارڈز نے قتل کر دیا۔ انڈیا میں سکھ مخالف احتجاج ہوا جس کے دوران ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔

کسی حد تک ان واقعات کا اثر اب تک سکھوں کے اجتماعی شعور میں موجود ہے۔ جنرل برار 2014 میں لندن حملے میں زندہ بچ گئے اور ان پر حملہ کرنے والے، جن میں ایک ایسے برطانوی سکھ شامل تھے جن کے والد اور بھائی گولڈن ٹیمپل میں ہلاک ہوئے تھے، کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

سکاٹش سکھ جگتر جوہال کے معاملے سے ہٹ کر بھی برطانوی سکھ ایسے واقعات کی نشان دہی کرتے ہیں جن کو وہ اپنی برادری پر انڈیا کے مطالبات کی وجہ سے پڑنے والے دباؤ کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

سنہ 2018 میں لندن اور مڈ لینڈز میں پانچ سکھ افراد کے گھروں پر چھاپہ مارا گیا تھا۔ ان کے خلاف کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا تاہم سکھ گروپس کا کہنا ہے کہ ان چھاپوں کی تفصیلات، جن کو برطانوی پولیس نے عام نہیں کیا تھا، کا انڈین میڈیا میں سامنے آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ دلی کا اس آپریشن میں کوئی ہاتھ تھا۔

رواں سال برطانوی سکھوں نے برطانیہ کی حکومت کے مشیر کولن بلوم کے ایک سروے کے بارے میں بھی خدشات کا اظہار کیا۔ کئی سال کی تحقیق کے بعد کولن بلوم نے اپنی حتمی رپورٹ میں سکھوں کی شدت پسندانہ سرگرمیوں پر مسلمانوں، انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں اور ہندو شدت پسندوں سے زیادہ حصہ وقف کیا۔

Getty Images

سکھ سربراہان نے کہا ہے کہ ان کے نزدیک یہ رپورٹ نریندر مودی کی انتظامیہ کے لیے ایک پیغام ہے جس کی خواہش رہی ہے کہ کینیڈا، آسٹریلیا اور برطانیہ جیسے ممالک، جہاں سکھوں کی بڑی آبادی موجود ہے، سکھ سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے زیادہ اقدامات اٹھائیں۔

گذشتہ ماہ برطانوی محکمہ داخلہ نے خالصتان سے جڑی شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے 95 ہزار پاؤنڈ کا اعلان کیا۔

انڈیا میں خالصتان کا مطالبہ گذشتہ دہائیوں میں دم توڑ چکا ہے لیکن یہ معاملہ برطانوی سکھوں میں تقسیم کا باعث ہے۔ برطانیہ میں ایسے سکھ، جو خالصتان کی حمایت نہیں کرتے، اکثر آن لائن ہراسانی کا شکار ہوتے ہیں۔

تاہم یہ واضح ہے کہ اس تقسیم کے باوجود سکھ ایک بات پر متفق ہیں۔

برمنگھم یونیورسٹی میں سکھ سٹڈیز کی پروفیسر جگبیر جوہال کہتی ہیں کہ ’سکھ برطانوی معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں اور اپنی تعلیمی خدمات اور خیراتی کاموں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔‘

اگرچہ وہ اس معاملے پر بات نہیں کرتیں، لیکن ان کا شمار ایسے افراد میں ہوتا ہے جن کو خالصتان کے حامیوں کی وجہ سے مشکل کا سامنا رہا۔ تاہم حالیہ دنوں میں ان کے نزدیک پوری برادری ہی دباؤ کا سامنا کر رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’شدت پسندی پر انڈیا اور برطانوی حکومت کے دھیان کی وجہ سے جو ہو رہا ہے اس سے ہماری برادری کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہو رہا ہے جو غیر منصفانہ ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے سکھ دونوں حکومتوں کے ارادوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔‘

پروفیسر جوہال خبردار کرتی ہیں کہ سکھ شدت پسندی سے نمٹنے کی بات چیت نقصان دہ ہے۔

’برطانوی طریقہ کار اور کینیڈا سے آنے والی خبریں نوجوان سکھوں میں خدشات کو جنم دیں گی۔ ہو سکتا ہے وہ پہلے دلچسپی نہ رکھتے ہوں لیکن اب وہ خالصتان، سکھوں کے خلاف مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغنوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کریںگے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More