NASA
’نظام شمسی کی سب سے خطرناک چٹان‘ سے دھول اور ذرات کے نمونے زمین پر لائے گئے ہیں۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے یہ مواد ایک کیپسول میں اتارا جو ریاست یوٹاہ کے مغربی صحرا میں آ کر گرا۔
یہ نمونے 2020 میں اوسیرس ریکس خلائی جہاز کے ذریعے سیارچے بینو کی سطح سے حاصل کیے گئے تھے۔
ناسا اس چٹان کے بارے میں مزید جاننا چاہتا ہے، صرف اس لیے نہیں کہ اگلے 300 سالوں میں اس کے ہمارے سیارے سے ٹکرانے کے بیرونی امکانات موجود ہیں لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ نمونے 4.6 ارب سال پہلے نظام شمسی کی تشکیل کے بارے میں نئی آگہی فراہم کریں گے اور ممکنہ طور پر ہماری دنیا میں زندگی کا آغاز کیسے ہوا۔
جب اوسیرس ریکس ٹیم نے کیمروں پر اس کیپسول کو دیکھا تو وہاں خوشیکی لہر دوڑ گئی’۔
محکمہ دفاع سے تعلق رکھنے والی صحرائی زمین پر لینڈنگ کی تصدیق ناسا نے مقامی وقت کے مطابق 10 بج کر 52 منٹ پر کی۔
کار کے سائز کا کنٹینر 12 کلومیٹر فی سیکنڈ سے زیادہ کی رفتار سے مغربی امریکہ کی فضا میں آیا تھا۔ ہیٹ شیلڈ اور پیراشوٹ نے اس کے اترنے کی رفتار کو سست کر دیا اور اسے آہستہ آہستہ زمین پر گرا دیا۔
سائنسدان اس قیمتی سامان کی جانچ کے لیے بے چین ہیں جس کے بارے میں لینڈنگ سے قبل اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس کا وزن 250ہے۔
ایک سائنسدان کا کہنا ہے کہ یہ سننے میں کم لگتا ہے لیکن ناسا کی ٹیمیں جس قسم کے ٹیسٹ کرنا چاہتی ہیں، ان کے لیے یہ کافی ہے۔
اوسیرس ریکس کے مرکزی محقق دانتے لوریٹا کا کہنا ہے کہ ’ہمارے کچھ آلات ان ایٹموں کو دیکھتے ہیں جو ان چٹانوں کے اندر کرسٹل بناتے ہیں۔جب آپ اس پیمانے پر کام کر رہے ہیں، تو ایک پتھر تلاش کرنے کے لیے یہ بھی ایک لامحدود منظر نامہ ہے۔‘
یونیورسٹی آف ایریزونا کے پروفیسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ہم مستقبل میں کئی دہائیوں تک اس مواد پر کام کرتے رہیں گے۔
یہ سات سال کا خلائی مشن تھا جس میں نظام شمسی کے ’سب سے خطرناک پتھر‘ کہلائے جانے والے ایسٹرائڈ کا مطالعہ کیا گیا۔
سائنسدان یہ توقع کر رہے ہیں کہ ان نمونوں سے 4.5ارب سال پہلے سیاروں کی تشکیل کے بارے میں نئی معلومات ملیں گی اور ممکنہ طور پر ہماری دنیا میں آغاز حیات کے بارے میں بھی معلومات مل سکتی ہیں۔
BBC
اوسیرس ریکس خلائی جہاز سنہ 2016 میں زمین سے بینو کی طرف گیا تھا۔ اگلی صدی کے آخر میں اس کا ہماری زمین کے ساتھ ٹکراؤں کے امکان ہیں۔
500 میٹر چوڑے پتھر تک پہنچنے میں اس مشن کو دو سال لگے اور دو سال تک یہ اس ’خلائی پہاڑ‘ کا مشاہدہ کرتا رہا جس کے بعد اس نے اس پتھر پر اتر کر نمونے حاصل کیے۔ یہ ایک بہت پیچیدہ اور مشکل کام تھا۔
اس سے پہلے 2004 میں جینیسس کیپسول جو سولر ونڈ کے نمونے لا رہا تھا اس کا پیراشوٹ کھل نہیں سکا اور یہ 300 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گرا جس کی وجہ سے وہ ٹوٹ کر کھل گیا تھا۔
کیپسول بنانے والی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن سے تعلق رکھنے والے رچرڈ وِدرسپون نے کہا کہ ’ہم اس غلطی کو سمجھتے ہیں جو جینیسس میں پیش آئی تھی جس میں کچھ کشش ثقل کے سوئچز کو الٹا نصب کیا گیا تھا۔‘
NASAنہ کوئی چاہتا یا توقع کر رہا ہے کہ سنہ 2004 میں جینیسس کریش لینڈنگ والا واقعہ دوبارہ ہو
یوٹا ٹیسٹ اینڈ ٹریننگ رینج پر ماہر موسمیات نے گذشتہ دنوں میں موسم کی صورتحال کا پتا چلانے والے غبارے چھوڑے تاکہ آخری ڈراپ کے میں مدد کے لیے تازہ ترین معلومات حاصل کی جائے۔ زیادہ بڑا خدشہ اس سال کی بارشوں کی وجہ سے صحرا میں موجود پانی کے گڑھے اور کیچڑ کا تھا۔
کیپسول کو واپس لانے والی ٹیم اس کے گرنے والے مقام تک پیلی کاٹر میں جائیں گی۔ کیپسول کو ایک ٹیٹ میں ڈال کر ہیلی کاپٹر کے نیچے لٹکایا جائے گا اور وہاں سے اسے ڈگ وے اڈے کے عارضی صاف کمرے میں لے جایا جائے گا۔
یہاں کیپسول میں موجود بینو کے نمونوں کو نائٹروجن میں بند کر کے ٹیکساس میں ناسا کے جانسن سپیس سینٹر تک پہنچایا جائے گا کہاں اس کا تفصیلی تجزیہ شروع کیا جا سکے گا۔
اوسیرکس ریکس کے کے ڈیپوٹی کیوریٹر کرسٹوفر سٹیڈ نے سمجپایا کہ ’بینو کو ہم کاربونیشیئس ایکٹرائڈ کہا جاتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ سائنسدانوں کو لگتا ہے کہ اس قسم کے شہابیوں کی مدد سے سیارے بنتے ہیں اور یہ نظام شمشی کے آغاز سے ہیں۔
’ہم وہاں شاملات اور مواد تلاش کر سکتے ہیں جنھوں نے سیارے بنائے، وہ عناصر جنھوں نے ہماری زمین کو بنایا اور شاید وہ مرکبات جنھوں نے زمین پر زندگی کا آغاز کیا۔‘
کیپسول کو بھیجنے کے بعد ناسا کے مشن کو اپوفس شہابیے کی طرف جانے کے احکامات دے دیے گئے ہیں اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ سنہ 2029 تک وہاں پہنچ جائے گا۔
BBC