آذربائیجان کی فوج نے ناگورنو قرہباخ میں قبضے میں لیے گئے بھاری ہتھیاروں کی نمائش کی ہے۔
دریں اثنا یہ کہا جا رہا ہے کہ آرمینیائی علیحدگی پسندوں کے ہتھیار ڈالنے کے بعد سے ہزاروں شہریوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور سر چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی ہے۔
رواں ہفتے علیحدگی پسندوں کے ہتھیار ڈالنے کے بعد صحافیوں کو دی جانے والی پہلی رسائی میں بی بی سی کو قبضے میں لیے گئے جنگی سازوسامان دکھائے گئے جن میں ٹینک، بندوقیں اور آر پی جیز شامل تھیں۔
پانچ دن قبل آذربائیجان نے بجلی کی سی تیزی سے کی جانے والی کارروائی میں ناگورنو قرہباخ پر قبضہ کر لیا تھا۔
نسلی آرمینیائی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہزاروں لوگوں کو خوراک کا حصول ایک مسئلہ ہے کیونکہ ابھی تک صرف 70 ٹن خوراک کی ایک امداد کو وہاں اجازت دی گئی ہے۔
قبضے میں لیے جانے کے بعد سے بین الاقوامی ریڈ کراس کا قافلہ متنازع علاقے تک پہنچنے والا پہلا قافلہ تھا۔ اگرچہ روس کا کہنا ہے کہ اس نے امداد بھی پہنچائی ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ وہ امداد کتنی ہے۔
ناگورنو قرہباخ جنوبی قفقاز کا ایک پہاڑی علاقہ ہے اور بین الاقوامی سطح پر اسے آذربائیجان کے حصے کے طور پر شمار کیا جاتا ہے لیکن اس کے بڑے علاقے تین دہائیوں سے نسلی آرمینیائیوں کے زیر کنٹرول ہیں۔
صرف 24 گھنٹوں کی کارروائی میں آذربائیجان کی فوج نے 120,000 نسلی آرمینیائی باشندوں والے علاقے کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا ہے۔
اس کے بعد جنوبی قفقاز کے اس کونے میں مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ کیا ہونا ہے یہ بڑھتی ہوئی تشویش کا باعث ہے۔
سنیچر کے روز آرمینیا نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ ناگورنو قرہباخ میں نسلی آرمینیائی باشندوں کے حقوق کی نگرانی کے لیے ایک مشن بھیجے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ اب ان کا وجود ہی خطرے میں ہے۔
آذربائیجان کے تمام وعدوں کے باوجود وہاں کے آرمینیائی اپنے مستقبل کے بارے میں متفکر ہیں۔ انھیں یہ خدشہ ہے کہیں انھیں وہاں سے بے دخل تو نہیں کیا جائے گا یا پھر ان کے ساتھ اس سے بھی بدتر تو کچھ نہیں ہونے والا۔
سرانوش سرگسیان نے ابھی ابھی علاقائی دارالحکومت میں کئی پناہ گاہوں کا دورہ کیا ہے اور انھیں یہ سننے کا مل رہا ہے کہ وہاں ’کھانے کے لیے واقعی کچھ بھی نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا: ’میں ایسے کسی شخص کو نہیں جانتی جو یہاں رہنا چاہتا ہو۔ لیکن میرے بہت سے قریبی بزرگ رشتہ دار ہیں، جنھوں نے پچھلی جنگوں میں اپنے بیٹوں کو کھو دیا ہے وہ یہیں مرنا پسند کریں گے۔
’لیکن میری نسل کے زیادہ تر لوگوں کے لیے یہ چوتھی جنگ ہے۔‘
تیل سے مالا مال آذربائیجان شہری آبادی کو یقین دلانے کی پوری کوشش کر رہا ہے کہ وہ انھیں خوراک، ایندھن فراہم کریں گے اور وہ ان سے ’دوبارہ انضمام‘ کا وعدہ بھی کر رہے ہیں۔
ہر چند کہ انھیں اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا لیکن ان کی اب وہاں رہنے کی خواہش بہت کم ہے۔
رواں ہفتے آذربائیجان کی فوج نے جب اس شہر پر دباؤ ڈالا تو بہت سے شہری مضافات کے گاؤں سے فرار ہو گئے۔ انھیں آرمینی نسل کے لوگ سٹیپاناکرت کہتے ہیں لیکن آذربائیجان کے لوگ انھیں خانکیندی کے نام سے جانتے ہیں۔
سرانوش سرگسیان نے کہا کہ ’وہ اپنے رشتہ داروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہ صحیح معنوں میں ایک خوفناک بات ہے۔‘
قرہباخ کے حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ بہت سے خاندان آذربائیجانی فوج کے پوزیشن لینے سے ایک دوسرے سے جدا ہو گئے ہیں اور وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کے رشتہ دار اب بھی زندہ ہیں یا نہیں۔
سوویت یونین کے زوال کے بعد سے اب تک یہاں پر دسیوں ہزار لوگ جنگوں میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں - پہلی بار سنہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں یہاں جنگ ہوئی تھی جب آرمینیا نے اس خطے پر قبضہ کیا تھا۔
رواں ہفتے آذربائیجان کی فوج کے ایک انکلیو میں داخل ہونے کے بعد کم از کم 200 مزید نسلی آرمینیائی ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس انکلیو کو بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ آذربائیجان نے اپنے ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تدفین شروع کر دی ہے، جن کی تعداد 100 سے زیادہ ہے۔
BBCآذربائیجان کی فوج نے آرمینائی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد ان کے ہتھیاروں کی نمائش کی ہے
آذربائیجان کے صدر الہام علییف کا کہنا ہے کہ قرہباخ کے آرمینیائی اب ’سکون کا سانس لے سکتے ہیں۔‘ لیکن یہ ابھی ان کے لیے بہت دور کی بات لگتی ہے۔
باکو میں 30 سال تک ایک خاندان کی طرف سے سختی سے چلائی جانے والی حکومت پر قرہباخ کا بہت کم اعتماد ہے، خاص طور پر صدر کا خطے کے رہنماؤں کو ’خون چوسنے والی جونک‘ کہنے کے بعد۔
ابھی وہاں نسلی آرمینیائی باشندے اپنے رشتہ داروں کو ڈھونڈتے، تہہ خانوں میں پناہ لیتے اور جو کچھ میسر ہو رہا ہے اسے عارضی چولہے پر پکاتے نظر آ رہے ہیں۔
پچھلے سال کے آخر میں، آذربائیجان نے آرمینیا جانے والے واحد راستے پر مؤثر ناکہ بندی کر دی تھی۔
رواں ہفتے کے جارحانہ حملے تک صحافی سرانوش سارگسیان نے خوراک، ادویات اور بیت الخلا کی مہینوں کی کمی کو دستاویز کرنے کے لیے اپنا وقت وقف کر رکھا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر آنے والے دنوں یا ہفتوں میں قرہباخ کے نسلی آرمینیائی بڑی تعداد میں وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو لاچن کوریڈور کے نام سے جانا جانے والا راستہ بہت اہم ہو جائے گا۔
وہ علاقہ جو کئی دہائیوں تک علیحدگی پسندوں کا شہر تھا جس کے اپنے ٹی وی سٹیشن، یونیورسٹی اور زبان تھی اب وہ اس کے اردگرد کی ریاست کا حصہ ہو گی۔
آذربائیجان کا کہنا ہے کہ اس کی پیش رفت کے نتیجے میں صرف پچاس ہزار لوگ متاثر ہوئے ہیں، لیکن سرانوش سرگسیان کہتی ہیں کہ صرف ان کے شہر میں اس سے زیادہ لوگ ہیں اور وہ حقیقی تعداد ایک لاکھ 10 ہزار بتاتی ہیں۔
تقریباً پانچ ہزار لوگوں نے تو مقامی ہوائی اڈے پر موجود روسی امن فوجیوں کے اڈے پر پناہ حاصل کی ہوئی ہے۔
کارنیگی یورپ کے قفقاز کے ماہر تھامس دی وال ان کے مستقبل بارے میں بہت زیادہ پریشان ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہاں نسلی صفائی کا حقیقی خطرہ ہے، چاہے وہ پرامن طریقے سے ہو یا خونریزی کے ساتھ۔
انھوں نے کہا کہ ’خواتین اور بچوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ لیکن بڑا خطرہ ان مردوں کو لاحق ہے، جنھوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں یا جنھوں نے آذربائیجان کے خلاف جنگ لڑی ہے اور ایسے لوگ شاید قرہباخ کی آبادی میں اکثریت ہیں۔‘
آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان پہلے ہی چالیس ہزار خاندانوں کو رہائش فراہم کرنے کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔ انھوں نے اپنے پڑوسی پر ناگورنو قرہباخ میں نسل کشی کا الزام لگایا ہے حالانکہ فی الحال ان کا اندازہ یہ ہے کہ شہری آبادی کو ’براہ راست خطرہ‘ نہیں ہے۔
آذربائیجان کے حکام ہتھیار ڈالنے والے جنگجوؤں کے خلاف مقدمہ نہ چلانے کے وعدے کے ساتھ عام معافی کے نکات پر بھی غور کر رہے ہیں۔
لیکن صدارتی معاون حکمت حاجییف نے بی بی سی کی آذربائیجانی سروس کو بتایا کہ ’اس میں ان لوگوں کو نہیں رکھا جائے گا جنھوں نے پہلی قرہباخ جنگ میں جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔‘
آذربائیجان کے پاس ایسے لوگوں کی فہرستیں ہیں، جنھیں وہ 2020 اور اس سے قبل جنگی جرائم کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔
سرجری کے لیے آرمینیا جانے والے ایک 68 سالہ شخص کو جولائی میں ریڈ کراس کے انخلا کے دوران سنہ 1992 میں جنگی جرائم کے شبے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان پر لگائے گئے الزامات جھوٹے ہیں۔
جمعہ کے روز سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر میں قرہباخیوں کو 2020 کی جنگ میں ہلاک ہونے والوں کے آؤٹ ڈور ڈسپلے سے پورٹریٹ ہٹاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
تھامس دی وال کا خیال ہے کہ دو اہم چیزیں نسلی آرمینیائی باشندوں کے اخراج کو جان لیوا ہونے سے بچا سکتی ہیں۔
ایک ریڈ کراس اور دو ہزار روسی امن فوجیوں کے دستے جیسے دو بین الاقوامی گروپوں کی ممکنہ شمولیت ہے۔ یہ سنہ 2020 کی جنگ کے بعد سے قرہباخ میں تعینات ہیں۔
سرانوش سرگسیان کو امن دستوں پر بہت کم اعتماد ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں جانتی ہوں کہ روسی کچھ نہیں کریں گے۔ وہ دکھاوا کریں گے کہ وہ بچوں کی جانیں بچا رہے ہیں لیکن وہ ہماری حفاظت کے لیے کچھ نہیں کریں گے‘۔
دوسریبات جو انھیں بچا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ آذربائیجان والے مغرب میں اپنی تصویر یا شبیہ کے بارے میں بہت حساس ہیں۔
آذربائیجان نے شدت کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ اس کا مقامی آبادی کو وہاں سے نکل جانے پر مجبور کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
انھوں نے جمعرات کو مقامی رہنماؤں کے ساتھ معاشرے میں نسلی آرمینیائیوں کے ’دوبارہ انضمام‘ پر ہونے والی ابتدائی بات چیت میں اس بات پر زور دیا تھا۔
سویڈن میں آذربائیجان کے سفیر ظہور احمدوف کہتے ہیں کہ ’ہم کبھی بھی نسلی صفائی نہیں چاہتے تھے‘۔ انھیں سنہ 1980 کی دہائی کے آخر اور 1990 کی دہائی کے اوائل میں اپنے ہم وطنوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیے جانے کا واقعہ یاد ہے۔
اس دوران لاکھوں آذربائیجانوں کو آرمینیا سے باہر پھینک دیا گیا تھا اور دونوں طرف سےقتل عام ہوا۔
سفیر کا خیال ہے کہ قرہباخ کے لوگوں کو وسیع تر آبادی میں شامل کرنا بہت ممکن ہے۔ اور ان کے ثقافتی، تعلیمی اور مذہبی حقوق کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 30 ہزار آرمینیائی باشندے قرہباخ سے باہر ان کے ملک میں پہلے ہی مخلوط شادیوں میں رہ رہے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مکمل طور پر معمول پر آنے میں کچھ وقت لگے گا۔ لیکن کھانے سے بھرے ٹرک پہلے ہی خانکیندی پہنچائے گئے ہیں۔ وہاں ایندھن کی سپلائی ہوگی اور آنے والے دنوں میں کنڈرگارٹن جیسے بنیادی ڈھانچے کی بحالی ہو گی۔‘
یہ ایک امید افزا نظریہ ہے حالانکہ آذربائیجانی افواج علاقائی دارالحکومت کے مضافات میں تعینات ہیں اور قرہباخ کی فوج سے ابھی پوری طرح سے ہتھیار نہیں لیا گیا ہے۔
جتنا جلدی یہ کام ہوگا اتنا ہی جلدی آذربائیجانی لوگ اندر چلے جائیں گے۔
آرمینیا میں علاقائی مطالعاتی مرکز کے تھنک ٹینک کے سربراہ رچرڈ گیراگوسیان کا کہنا ہے کہ اس وقت مقامی آبادی مکمل طور پر آذربائیجانی وعدوں پر منحصر ہو گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’قرہباخ کے آرمینیائی باشندوں کے لیے فوری مسئلہ نہ صرف آذربائیجان کی طرف سے ہے بلکہ روس کے امن فوجیوں کی طرف سے حفاظتی ضمانتوں کا فقدان بھی مسئلہ ہے۔‘
ان کا خیال ہے کہ قرہباخ کی مرد آبادی کو جانے دیا جائے گا کیونکہ وہاں بہت زیادہ بین الاقوامی توجہ ہے۔
لیکن اس کے باوجود بھی وہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں کہ کسی کو بھی آذربائیجانی معاشرے میں شامل ہونے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
سرانوش سرگسیان کا کہنا ہے کہ ’وہ ہمیں اپنے میں ضم کرنے کا دکھاوا کرتے ہیں، لیکن در اصل وہ ہمیں اس جگہ سے مٹانا چاہتے ہیں۔‘