BBCپابلو نیرودا کی موت چلی میں بغاوت کے چند دنوں بعد ہی ہو گئی
چلی کے سب سے مشہور شاعر اور نوبیل انعام یافتہ پابلو نیرودا کی موت ان کی موت کے نصف صدی بعد بھی بدستور معمہ بنی ہوئی ہے۔
ان کی موت کے 12 سال بعد پہلی بار یہ الزامات منظرِعام پر آئے تھے کہ انھیں آمر جنرل آگسٹو پنوشے کے حکم پر قتل کیا گیا تھا۔
اس الزام پر ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے تحقیقات جاری ہیں لیکن ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکا ہے۔
کینیڈا، ڈنمارک اور دیگر جگہوں کے فرانزک ماہرین نے شاعر کی باقیات کو جانچنے کی کوشش کی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان کی موت کا سبب کیا تھا لیکن اب تک کوئی بھی حتمی جواب دینے سے قاصر ہے۔
سب سے پہلے قتل کا الزام لگانے والے شاعر کے سابق ڈرائیور اور ذاتی معاون مینوئل آرایا خود رواں سال جون میں 77 سال کی عمر میں اس کیس کا خاتمہ دیکھے بغیر وفات پا گئے تھے۔
پابلو نیرودا کے بھتیجے روڈلفو ریس نے بی بی سی کو ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا: ’ہمیں اس بارے میں وضاحت کی ضرورت ہے۔ گیند اب جج کے کورٹ میں ہے جو کیس کی تحقیقات کر رہے ہیں اور ہم سب ان کے اعلان کا انتظار کر رہے ہیں۔‘
BBCمینوئل ارایا نے دعویٰ کیا کہ نیرودا کو میکسیکو میں جلاوطنی میں جانے سے روکنے کے لیے ہسپتال میں مہلک انجکشن دیا گیا تھا
نیرودا اپنی رومانوی شاعری کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ انھیں ان کی تخلیقات پر سنہ 1971 میں ادب کے نوبیل انعام سے نوازا گيا تھا۔ 50 سال قبل اسی ہفتے کے آخر میں یعنی 23 ستمبر سنہ 1973 کو فوجی بغاوت کے صرف 12 دن بعد 69 سال کی عمر میں وہ فوت ہو گئے۔ اس بغاوت کے نتیجے میں جنرل پنوشے کو اقتدار ملا تھا۔
وہ پروسٹیٹ کینسر میں مبتلا تھے اور ان کی موت کی سرٹیفکیٹ میں کہا گیا ہے کہ 'کینسر کیچیکسیا' کی وجہ سے ان کی موت ہوئی۔
تاہم سنہ 2011 میں شاعر کی زندگی کے آخری سال میں ان کے ساتھ کام کرنے والے مینوئل ارایا نے دعویٰ کیا کہ نیرودا کو میکسیکو میں جلاوطنی میں جانے سے روکنے کے لیے ہسپتال میں مہلک انجکشن دیا گیا تھا کیونکہ شاعر نے وہاں جا کر پنوشے حکومت کی مخالفت کی قیادت کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
نیرودا کمیونسٹ تھے اور بغاوت میں معزول ہونے والے سوشلسٹ صدر سلواڈور ایلنڈے کے قریبی دوست تھے۔
مینوئل ارایا نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’انھوں نے نیرودا کو اس لیے قتل کیا کہ ان کا ملک چھوڑنا پنوشے کے مفاد میں نہیں تھا۔‘
ان کے دعوے کے بعد نیرودا کی باقیات کو سنہ 2013 میں نکالا گیا اور ان کا فارنزک ٹیسٹ کیا گیا۔
ٹورانٹو میں میک ماسٹر یونیورسٹی اور کوپن ہیگن یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی سربراہی میں ماہرین کے ایک پینل نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ کینسر سے نہیں مرے لیکن وہ یہ نہیں بتا سکے کہ ان کی موت کی آخر وجہ کیا تھی۔ اس لیے مزید ٹیسٹ کرنے کا حکم دیا گیا۔
Getty Imagesشواہد کی روشنی میں جج پاؤلا پلازا کو فیصلہ کرنا ہے کہ پابلو نیرودا کی موت کس طرح ہوئی
رواں سال فروری میں ان کے متعلق ایک اور رپورٹ سامنے آئی ہے۔ انھوں نے نیرودا کے ایک دانت میں کلسٹریڈیم بوٹولینم نامی بیکٹیریم کے نشانات پائے تھے۔
ماہرین نے کہا کہ ’بوٹولزم بنی نوع انسان کے لیے سب سے مہلک زہریلے مادوں میں سے ایک بوٹولینم پیدا کرتا ہے۔اور کئی ممالک میں اسے حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔‘
تاہم انھوں نے کہا اس سے یہ شواہد نہیں ملتے کہ کلسٹریڈیم بوٹولینم ہی نیرودا کی موت کی وجہ ہے۔ اور یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ ’یہ دانستہ طور پر استمعال کیا گیا تھا۔‘ سائنسدانوں کی رپورٹ اب چلی کے عدالتی حکام کے سامنے ہے۔
مقدمے کی سماعت کرنے والی جج پاولا پلازہ سے امید کی جاتی ہے کہ وہ تحقیقات پر ایک نظریہ جاری کریں گی۔ بہرحال یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کب ایسا کریں گی یا پھر سچائی کو ثابت کرنے کے لیے وہ مزید ٹیسٹ کا حکم بھی دے سکتی ہیں۔
اس کیس نے چلی اور نیرودا خاندان کو منقسم کر رکھا ہے۔ اگر روڈلفو رییس کو یقین ہے کہ ان کے چچا کو قتل کیا گیا تھا لیکن ان کے دوسرے بھتیجے برنارڈو رییس نے ساری تحقیقات کو ’بیکار‘ اور جعلی خبروں پر منبی قرار دیا ہے۔ شاعر کی جائیداد کا انتظام کرنے والے ادارے نرودا فاؤنڈیشن اس بات پر قائم ہے کہ اس کی موت قدرتی وجوہات کی بنا پر ہوئی۔
نیرودا کی بیوہ میٹلڈے اوروتیا اپنی شوہر کی موت کے بعد 12 سالوں تک زندہ رہیں لیکن انھوں نے کبھی یہ الزام نہیں لگایا کہ ان کے شوہر کو قتل کیا گیا تھا۔
تاہم انھیں یہ امید نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی مر جائیں گے کیونکہ انھیں ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ وہ کم از کم مزید چھ سال زندہ رہیں گے۔
ان کا خیال تھا کہ نیرودا کی موت دل ٹوٹنے کی وجہ سے ہوئی جب بغاوت نے سیاسی طور پر ہر چیز کو تباہ کر دیا۔
استغاثہ نے درجنوں ڈاکٹروں، نرسوں، سفارت کاروں اور سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ نیرودا کے دوستوں کا انٹرویو کیا ہے جنھوں نے اسے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں دیکھا تھا۔
Getty Imagesپابلو کے بھتیجے روڈولف (بائیں سے دوسرے) کا کہنا ہے کہ ان کی موت قدرتی تھی
ان میں سے کچھ ایسے شخص کا بیان بھی شامل مہے جنھوں نے کہا کہ وہ سخت بیمار تھے۔ پابلو نیرودا کے ساتھ آخری وقت میں ہسپتال میں ان کے ساتھ رہنے والے دوست آئيدا فیگیورا نے بتایا: مجھ پر یہ واضح تھا کہ وہ مرنے والا ہے۔'
دوسروں کو اتنا یقین نہیں تھا۔ چلی میں میکسیکو کے سفیر گونزالو مارٹنیز کوربالا نے مرنے سے ایک دن قبل شاعر کو دیکھا تھا۔
انھوں نے تفتیش کاروں کو بتایا: 'میں نے پابلو نیرودا سے (میکسیکو) کے سفر کی تیاریوں کے بارے میں بات کی۔ ظاہر ہے کہ اسے چھوڑنے سے انھیں تکلیف تھی، لیکن وہ اس کردار کو بھی سمجھتے تھے جو وہ بیرون ملک ادا کرسکتے تھے۔
'میں نے ان میں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی جس سے یہ پتا چلے کہ وہ اذیت میں ہیں، یا یہ کہ وہ بول نہیں سکتے یا اپنا دفاع نہیں کرسکتے تھے۔ وہ مر نہیں رہے تھے، کسی حد تک کوما میں تھے۔'
بہت سے لوگوں نے سوال اٹھایا کہ آخر آرایا کو قتل کیے جانے کا دعویٰ کرنے میں تقریباً 40 سال کیوں لگ گئے۔
اس کے جواب میں ڈرائیور نے کہا کہ 17 سال تک آمریت کے دور میں ایسا الزام لگانا بہت خطرناک تھا اور اس کے بعد 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں اس نے چلی کے پریس کو اپنی کہانی چھپانے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی لیکن میں واقعتا نہیں جانتا تھا کہ اس کے بارے میں کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ اور کوئی بھی اس کے بارے میں سننا نہیں چاہتا تھا۔'
رواں سال مئی میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اپنی موت سے چند ہفتے قبل ارایا نے اپنا دعویٰ دہرایا۔
انھوں نے زور دے کر کہا: 'نیرودا کو قتل کیا گیا تھا۔ میں پہلے منٹ سے یہ کہہ رہا ہوں اور میں اس دن تک کہتا رہوں گا جب تک میں مر نہیں جاتا۔'