Reutersعوامی سطح پر اب تک جسٹن ٹروڈو انڈیا کے خلاف اس مہم میں تنہا ہی نظر آئے ہیں
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو جب اس ہفتے نیو یارک میں صحافیوں کے سوال سن رہے تھے تو ان کے چہرے کی مسکراہٹ مرجھا رہی تھی۔
یہ حیرانی کی بات نہیں تھی کہ تمام ہی سوال انڈیا کے بارے میں جسٹن ٹروڈو کے الزامات سے متعلق تھے کہ کینیڈا کی زمین پر ایک ایسے سکھ کے ماورائے عدالت قتل کے معاملے میں انڈین حکومت کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں جن پر دلی نے شدت پسندی کا الزام لگا رکھا تھا۔
انڈیا نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کینیڈا کے وزیر اعظم نے محتاط انداز اختیار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم کوئی مسائل نہیں پیدا کرنا چاہتے، ہم قوانین کے احترام کی بات کر رہے ہیں۔‘
بہت سے صحافیوں نے سوال کیا کہ کینیڈا کے اتحادی کہاں کھڑے ہیں؟ ایک صحافی نے کہا کہ اب تک آپ تنہا نظر آ رہے ہیں۔
عوامی اعتبار سے اب تک جسٹن ٹروڈو انڈیا کے خلاف اس مہم میں تنہا ہی نظر آئے ہیں۔ انڈیا دنیا میں سب سے تیز رفتار معاشی ترقی کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے جس کی آبادی کینیڈا سے 35 گنا زیادہ ہے۔
اس دھماکہ خیز اعلان کے بعد سے اب تک فائیو انٹیلیجنس اتحاد میں شامل باقی ممالک نے بیانات تو دیے ہیں لیکن جسٹن ٹروڈو کی حمایت میں کھل کر کوئی بھی سامنے نہیں آیا۔
برطانوی سیکرٹری خارجہ جیمز کلیورلی نے کہا کہ ان کا ملک ’کینیڈا کی بات کو سنجیدگی‘ سے دیکھتا ہے۔آسٹریلیا نے بھی ایسی ہی زبان استعمال کی ہے اور کہا کہ وہ الزامات کی وجہ سے ’کافی تشویش رکھتا ہے۔‘
تاہم سب سے زیادہ پریشان کن خاموشی کینیڈا کے جنوبی پڑوسی کی جانب سے ہے یعنی امریکہ۔ کینیڈا اور امریکہ قریبی اتحادی ہیں لیکن امریکہ نے کینیڈا کے حق میں زیادہ پرزور طریقے سے آواز بلند نہیں کی۔
جب صدر جو بائیڈن نے رواں ہفتے کے دوران انڈیا کے بارے میں اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے بات کی تو مذمت کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک نیا معاشی راستہ ہموار کرنے میں مدد فراہم کرنے پر تعریف کی۔
امریکی قومی سلامتی امور کے مشیر جیک سلیون نے بعد میں اس تاثر کی تردید کی کہ کینیڈا اور امریکہ میں اس معاملے پر اختلاف موجود ہے اور کہا کہ ’کینیڈا سے مشاورت ہو رہی ہے۔‘
تاہم زیادہ تر سرکاری بیانات گہری تشویش سے آگے نہیں بڑھے جبکہ مغربی دنیا کے لیے انڈیا کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا اعادہ کرنے والے بیانات زیادہ تھے۔
ماہرین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ کینیڈا کے لیے اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ اس کے مفادات انڈیا کی اہمیت کے آگے ماند پڑ رہے ہیں۔
Reutersانڈیا دنیا میں سب سے تیز رفتار معاشی ترقی کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے جس کی آبادی کینیڈا سے 35 گنا زیادہ ہے۔
زیویئر ڈیلگاڈو ولسن سینٹر میں کینیڈا انسٹیٹیوٹ کے محقق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’امریکہ، برطانیہ اور تمام مغربی اور انڈو پیسیفک اتحادیوں نے چین کے خلاف ایک حکمت عملی بنائی ہے جس کا انحصار انڈیا پر ہے۔‘
’ان کا کینیڈا کے دفاع میں کھل کر سامنے نہ آنا جیو پولیٹیکل حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔‘
کینیڈیئن نیٹ ورک سی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے امریکی سفیر ڈیوڈ کوہن نے ان رپورٹس کی تصدیق کی جن کے مطابق فائیو آئی پارٹنرز نے اس معاملے پر معلومات فراہم کی تھیں۔ لیکن ایک خبر، جس کے مطابق اتحادیوں نے کینیڈا کی جانب سے عوامی سطح پر اس قتل کی مذمت کرنے کی اپیل کو ٹھکرا دیا تھا، پر انھوں نے صرف اتنا کہا کہ وہ ’نجی سفارتی گفتگو پر بات نہیں کرتے۔‘
تاہم اس معاملے پر خاموشی کی ایک وجہ عالمی سٹیج پر کینیڈا کی اپنی کمی بھی ہے جو ایک قابل بھروسہ مغربی اتحادی تو ہے لیکن ایک بڑی عالمی طاقت نہیں۔
کینیڈا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر کرسٹوفر سینڈز کا کہنا ہے کہ ’یہ کمزوری کا لمحہ ہے۔‘
’اس وقت ہم سخت طاقت کا لمحہ دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایسا ماحول نہیں جس میں کینیڈا ابھر سکتا ہے۔ فیصلہ کن چیزیں طاقت اور پیسہ ہے جو کینیڈا کے پاس موجود نہیں۔‘
انڈیا کے علاوہ کسی اور ملک نے جسٹس ٹروڈو کی جانب سے ان الزامات کو عوامی سطح پر لانے کے عمل پر برا نہیں منایا۔ اگر یہ الزامات سچے ہیں تو ایک جمہوری ملک کینیڈا کی سرزمین پر سیاسی قتل کا مرتکب ہوا ہے۔ تاہم عالمی طور پر چلنے والی ہواؤں کا رخ بدلنے کے لیے اخلاقیات کافی نہیں۔
جسٹن ٹروڈو کو اسی سرد جیوپولیٹیکل حقیقت کی وجہ سے انڈیا سے تنازع میں کشیدگی کے دوران تنہائی کا سامنا کرنا پڑا جب سفارتی بے دخلیاں ہوئیں، کینیڈا میں انڈیا کے شہریوں کو محتاط رہنے کا مشورہ دیا گیا اور ڈرامائی انداز میں انڈیا کا سفر کرنے کے خواہش مند تمام کینیڈین باشندوں کے لیے ویزا کی سہولت معطل کر دی گئی۔
زخم پر نمک چھڑکنے والا یہ ہفتہ کینیڈا کے لبرل رہنما کے لیے ایک طویل موسم گرما کے اختتام پر آیا ہے۔
ایک جانب جب کینیڈا کے شہری مہنگائی اور بڑھتے ہوئے شرح سود کا سامنا کر رہے تھے، یہ خبر سامنے آئی کہ چین نے مبینہ طور پر کینیڈا کے انتخابات میں مداخلت کی جس سے جسٹن ٹروڈو اور ان کی کابینہ آگاہ تھے لیکن انھوں نے اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا۔
اس کے بعد یہ خبر آئی کہ کینیڈا کے سب سے بدنام سیریئل کلر پال برنارڈو کو ایک ایسی جیل میں منتقل کیا جا رہا ہے جس کی سکیورٹی نسبتاً کم سخت ہے تو ملک بھر میں شدید غصے کا اظہار کیا گیا۔ ایک بار پھر جسٹن ٹروڈو اور ان کی ٹیم کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
ستمبر کے مہینے تک جسٹن ٹروڈو کی ریٹنگ تین سال کی سب سے کم سطح پر آ چکی تھی۔ 2015 میں منتخب ہونے والے وزیر اعظم سے 63 فیصد شہری ناخوش تھے۔
اینگس ریڈ انسٹیٹیوٹ کے صدر شاچی کرل کا کہنا ہے کہ ’آٹھ سال کے دوران وہ اس سطح پر نہیں آئے تھے۔ ان کو ایسے سوالات کا سامنا ہے کہ کیا وہ مستعفی ہوں گے؟‘
جسٹن ٹروڈو کے لیے یہ ایک اور سرد حقیقت ہے جو ایک کم تر قومی سٹار تھے جب ان کو ایک بھاری اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم کا منصب ملا۔
Getty Images
گلوب اینڈ میل اخبار کے کیمبل کلارک کہتے ہیں کہ ’کینیڈا کی سیاست میں وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جو ہم نے پہلے نہیں دیکھی۔ جب انھوں نے الیکشن جیتا تو ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔‘
لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’آٹھ سال بعد شاید کینیڈا کے لوگوں کا ان سے دل بھر چکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی مقبولیت ماند پڑ گئی ہے خصوصا حالیہ ماہ کے دوران۔‘
چند ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ ایک جانب جہاں جسٹن ٹروڈو انڈیا کے خلاف عالمی سٹیج پر تنہا نظر آ رہے ہیں، وہیں مقامی طور پر شاید اس کی وجہ سے ان کو مدد ملے۔
کیمبل کلارک کہتے ہیں کہ ’ملکی مسائل سے جڑے تمام سوال اب ان سے نہیں ہو رہے۔‘
اور اسی ہفتے ایک اور اتحادی اور ان سے بھی بڑے عالمی سٹار، یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی، سے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ہفتے کا اختتام جسٹن ٹروڈو نے اتنے بھی برے انداز میں نہیں کیا۔ کم از کم ایک دن کے لیے ان کو اچھی کمپنی مل گئی۔