BBC
’ہمارے گھر میں صرف میرے بابا ہی کام کرتے تھے تو مجھے لگا کہ مجھے بھی اپنے بابا کی مدد کرنی چاہیے۔‘
یہ خیال لیے انٹرمیڈیٹ کی طالبہ 18 سالہ مہوش آفتاب نے تلوار بازی کے کھیل کو اپنا کریئر بنانے کا سوچا جس سے اب ان کی ’اچھی خاصی کمائی‘ بھی ہو جاتی ہے مگر وہ ایک دن پاکستان کو اپنی محنت کے ذریعے اس کھیل میں گولڈ میڈل دلانا چاہتی ہیں۔
مگر یہ کھیل آخر ہے کیا؟
اس کھیل میں تلوار اٹھائے دو کھلاڑی مدمقابل ہوتے ہیں اور مخالف کھلاڑی پر ہر کامیاب وار کے ساتھ سکور حاصل کرتے ہیں۔
اولمپکس میں شامل یہ کھیل پاکستان میں تو اتنا مقبول نہیں اور نہ ہی پاکستانی خواتین عام طور پر اس کا انتخاب کرتی ہیں، تاہم اب صورتحال کچھ بدل رہی ہے اور پاکستانی لڑکیاں اس میں دلچسپی لے رہی ہیں۔
مہوش کراچی میں بدر الحسن سپورٹس کمپلیکس ناظم آباد میں لڑکیوں کو شمشیر زنی کی ٹریننگ دیتی ہیں اور خود بھی اس کھیل کی مشق کرتی ہیں۔
BBCتلوار بازی میں لڑکیوں کی دلچسپی
سندھ فینسنگ ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل محمد تقیٰ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کھیل میں اب لڑکیاں زیادہ دلچسپی لے رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’2015 میں مختلف سکولوں میں اس کھیل سے متعلق تعارفی تقاریب کے لیے جب سیمینار اور ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا تو سب سے پہلے مجھے بچیوں ہی نے ویلکم کیا۔‘
’میں یہ سمجھ رہا تھا کہ لڑکے زیادہ ہوں گے لیکن آپ کو جان کر بڑی حیرت ہو گی کہ جب انھیں سلیکشن کے لیے بلایا گیا تو بچیوں کی تعداد 50 تھی اور لڑکے (صرف) 20 تھے۔‘
مہوش آفتاب کا کہنا تھا کہ جب ان کے سکول میں تلوار بازی کے لیے کیمپ لگا تو انھیں لگا کہ یہ کھیل ان کے لیے ہی بنا ہے۔ ’جب میں نے اس کھیل کے بارے میں پتا کیا تو معلوم ہوا کہ یہ بہت مہنگا تھا۔‘
BBC
مہوش کے والد آٹو رکشہ چلاتے ہیں اور گھر کے واحد کفیل ہیں۔ مگر پھر مہوش کی ملاقات فینسنگ کے ایک کوچ سے ہوئی۔
وہ یاد کرتی ہیں کہ ’میں نے سر سے گزارش کی کہ مجھے اس کھیل میں آگے جانا ہے۔ پھر میرا ایک ٹرائل ہوا اور اس کے بعد مجھے داخلہ مل گیا۔‘
مگر ان کے لیے شروعات خاصی مشکل رہی اور یہ کھیل اور اس کی تکنیک ان کی سمجھ میں نہیں رہی تھی۔ ’مگر میں نے ہمت نہیں ہاری۔ تین سال رات اور دن محنت کی، ٹریننگ کی اور گھر جا کر بھی پریکٹس کرتی رہی۔ پھر میں یوٹیوب پر بھی ویڈیوز دیکھ کر اس کھیل کو سیکھنے کی کوشش کی۔‘
اب مہوش اس کھیل کو اس قدر سمجھ چکی ہیں کہ اب وہ اس کی تربیت مختلف سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دیتی ہیں۔
BBC’کھیل لڑکیوں کو ہمت دیتا ہے‘
یہ کھیل نہ تو آسان ہے اور نہ ہی سستا۔
محمد تقیٰ کی رائے میں اس کھیل کو فروغ دینے میں بڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فینسنگ کو سرکاری سطح پر ملنے والی مدد اونٹ کے منھ میں زیرے کے برابر ہے۔
’حکومتِ پاکستان کی طرف سے مدد بالکل نہیں ہے۔ سندھ حکومت ہمیں گاہے بگاہے بے شک پیسے دے دیتی ہے (مگر) اس سے بس ایک دو ایونٹ ہی منعقد ہو پاتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس کھیل کے لیے درکار حفاظتی سامان بھی پاکستان میں باآسانی دستیاب نہیں۔
مہوش بتاتی ہیں کہ سامان اس قدر کم ہے کہ ’پہلے مجھے آدھی لڑکیوں کو ٹریننگ کروانی پڑتی ہے پھر ڈریس چینج کروا کر دوسری لڑکیوں کو ڈریس اپ کرنا پڑتا ہے۔۔۔ جس سے بہت وقت ضائع ہوتا ہے۔‘
دن بھر دوسروں کو شمشیر زنی کی تربیت دینے کے بعد مہوش گھر جا کر گھر کے کام کاج میں اپنی امی کی مدد کرتی ہیں۔ ان کے چار بہن بھائی اور ہیں۔
’میرے بابا رکشہ چلاتے ہیں۔ ٹریننگ کی جگہ میرے گھر سے کافی دور ہے لیکن میرے بابا مجھے صبح چھوڑنے بھی آتے ہیں اور پھر مجھے لینے بھی آتے ہیں۔‘
BBC
عروبہ ظفر نے حال ہی میں شمشیر زنی سیکھنا شروع کی ہے اور انھیں اس کھیل میں ایک کشش محسوس ہوئی ہے۔ جبکہ مہوش جیسی خاتون ٹرینر کے ہونے سے ان کے لیے آسانی پیدا ہوئی اور انھیں ہمت بھی ملی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مہوش ہمیں ہاتھ پکڑ کے سکھاتی ہیں۔ اگر کوئی مرد ٹرینر ہوتا تو شاید ہم اتنی آسانی محسوس نہ کرتے۔‘
عروبہ کہتی ہیں کہ ’شروع میں جب میں آئی تو مجھے انھوں نے بولا کہ اپ کو اپنا وزن کم کرنا پڑے گا کیونکہ یہ گیم ایسی ہے، ہم لوگوں کو سٹیپنگ (یعنی قدموں کا استعمال) کرنا پڑتا ہے۔۔۔ وزن زیادہ ہو تو نس چڑھ سکتی ہے، پاؤں میں درد ہو سکتا ہے۔‘
مہوش دیگر لڑکیوں کو بھی یہ مشورہ دینا چاہتی ہیں کہ ’جو گھر میں ہے، وہ گھر سے نکلیں اور کسی کھیل میں حصہ لیں۔ کھیل لڑکیوں کو ہمت دیتا ہے، ہر کسی کا سامنا کرنے کی طاقت دیتا ہے۔‘
BBC
محمد تقیٰ نے حکومت سے فینسنگ کے لیے مدد کی اپیل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تکنیکی سامان بیرون ملک سے آتا ہے اور ڈالر کی قدر بڑھنے سے اس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’حکومت کم سے کم وہ سامان جو پاکستان میں دستیاب نہیں فیڈریشن کو منگوا کر دے۔ جو سپورٹ بورڈ ہیں ان کے پاس بہت بجٹ ہوتا ہے، وہ ہمارے لیے بھی کچھ کر سکتے ہیں۔‘
مہوش نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اور ان کے بابا کا خواب ہے کہ وہ انٹرنیشنل لیول پر پاکستان کے لیے کھیلیں اور گولڈ میڈل حاصل کریں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے بھی کافی لڑکیاں انٹرنیشنل لیول پر کھیل چکی ہیں لیکن کوئی بھی گولڈ میڈل نہیں لا سکا۔ میں چاہتی ہوں کہ میں انٹرنیشنل لیول پر جاؤں اور پاکستان کے لیے گولڈ میڈل حاصل کروں۔‘