25 جون 1983 کی صبح جب کپل دیو بیدار ہوئے تو ان کی بیوی رومی ابھی تک سو رہی تھیں۔ انھوں نے ہوٹل کی کھڑکی سے پردے ہٹائے اور یہ دیکھ کر سکون کا سانس لیا کہ باہر سورج چمک رہا ہے۔
انھوں نے اپنی بیوی کو نہیں جگایا، بغیر شور کیے چائے بنائی اور قریب ہی لارڈز گراؤنڈ کا نظارہ کرتے ہوئے کھڑکی کے پاس بیٹھ گئے۔
میچ شروع ہونے سے پہلے کپل نے ٹیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’صرف ایک بات یاد رکھیں، اگلے چھ گھنٹے کے بعد ہماری زندگی مکمل طور پر بدلنے والی ہے۔ کچھ بھی ہو، ہمیں اپنا بہترین دینا ہوگا۔ کرو یا مرو۔ بعد میں کوئی افسوس نہیں ہونا چاہیے کہ ہم یہ یا وہ کر سکتے تھے۔‘
ٹاس کے بعد جب ویسٹ انڈیز کے کپتان کلائیڈ لائیڈ نے انڈین ٹیم کو پہلے بیٹنگ کرنے کو کہا تو کپل نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ انھوں نے فیصلہ کیا ہوا تھا کہ اگر وہ ٹاس جیتیں گے تو پہلے بیٹنگ کریں گے کیونکہ وہ ٹاس جیت کر ہی ویسٹ انڈیز کو شکست دینے کی امید کر سکتے ہیں۔
انڈین اننگز 183 پر ختم
ویسٹ انڈیز نے انڈیا پر ابتدائی دباؤ ڈالا جب اس نے اس وقت کے دنیا کے بہترین اوپنر سنیل گواسکر کو صرف 2 رنز کے انفرادی سکور پر آؤٹ کر دیا۔ سری کانت اور کسی حد تک موہندر امرناتھ کے علاوہ کوئی بھی انڈین بلے باز اس اننگز میں کارکردگی نہ دکھا سکا۔
دونوں نے دوسری وکٹ کے لیے 57 رنز بنائے اور دونوں 90 رنز کے مجموعی سکور پر آؤٹ ہوئے۔
میچ کا یادگار لمحہ اس وقت آیا جب گھٹنوں کے بل بیٹھے سری کانت اینڈی رابرٹس کی گیند کو باؤنڈری کے پار لے گئے۔ انڈین ٹیم کی آخری جوڑی سید کرمانی اور بلوندر سندھو نے کسی طرح سکور کو 183 تک پہنچا دیا۔
فاسٹ بولر میلکم مارشل اس شراکت داری سے اس قدر ناراض ہوئے کہ انھوں نے 11ویں کھلاڑی سندھو پر ایک باؤنسر پھینکا جو ان کے ہیلمٹ پر لگا۔
سندھو کو دن میں تارے نظر آ گئے۔ سید کرمانی یاد کرتے ہیں، ’میں پوچھنے کے لیے ان کی طرف دوڑا کہ وہ ٹھیک ہیں؟ میں نے دیکھا کہ بلوندر اپنے ہاتھ سے ہیلمٹ کو رگڑ رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ ہیلمٹ کو کیوں رگڑ رہے ہیں، کیا تکلیف ہے؟‘
پھر امپائر ڈکی برڈ نے مارشل کو باؤنسر پھینکنے پر سخت ڈانٹا۔ انھوں نے مارشل کو یہ بھی کہا کہ وہ سندھو سے معافی مانگیں۔
مارشل ان کے پاس آیا اور کہا، ’یار میرا مقصد تمھیں تکلیف دینا نہیں تھا۔ میں معافی چاہتا ہوں۔‘
سندھو نے کہا، ’میلکم کیا آپ کو لگتا ہے، میرا دماغ میرے سر میں ہے؟ نہیں، یہ میرے گھٹنوں میں ہے۔‘ یہ سن کر مارشل ہنسنے لگے اور ماحول ہلکا پھلکا ہو گیا۔
کپل نے ایک بار پھر ڈریسنگ روم میں اپنی ٹیم کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’ہم نے 183 رنز بنائے ہیں، دوسری ٹیم کو ابھی 183 رنز بنانے ہیں، ہمیں نے انھیں ایک ایک رن کے لیے ترسانا ہے۔ اپنی پوری طاقت سے کھیلیں اور اپنی پوری کوشش کریں‘۔
’100 فیصد دو۔ جہاں گیند جائے خود کو پھینک دو۔ اگر ہم ہار گئے تو ہم لڑائی ہار جائیں گے۔ آپ کو صرف تین گھنٹے اپنی بہترین کرکٹ کھیلنی ہے۔‘
ویسٹ انڈیز نے ابھی 5 رنز بنائے تھے کہ بلوندر سندھو کی ایک گیند گورڈن گرینیج کا آف سٹمپ لے گئی۔ اسے بال آف دی ٹورنامنٹ کہا گیا۔
ورلڈ کپ فائنل کا اہم موڑ اس وقت آیا جب مدن لال کی گیند پر کپل تقریباً 25 گز دوڑتے ہوئے ڈیپ مڈ وکٹ پر ویوین رچرڈز کا کیچ لے بیٹھے۔
اروپ سائکیا موہندر امرناتھ کی سوانح عمری ’1983 کے جمی دی فینکس‘ میں لکھتے ہیں، ’یہ کیچ تقریباً چھوٹ گیا تھا۔ مدن لال نے اپنی آنکھ کے کونے سے دیکھا کہ یشپال شرما بھی اس کیچ کو پکڑنے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔ انھوں نے چیخ کر انھیں روکنے کی کوشش کی کہ کپل گیند کی طرف بڑھ رہا تھا لیکن بھیڑ کے شور میں یشپال کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ بھی گیند کی طرف بھاگتا رہا، اچھا ہوا کہ وہ اور کپل دیو آپس میں نہیں ٹکرائے۔‘
Getty Imagesمدن لال نے اوور مانگا
رچرڈز نے مدن لال کی گیندوں پر تین چوکے لگائے تو کپل نے انھیں آرام دینا چاہا۔ لیکن مدن لال نے اپنے کپتان سے ایک اور اوور دینے کی درخواست کی اور کپل نے ہچکچاتے ہوئے ان کی درخواست مان لی۔
مدن لال نے کپل کو مایوس نہیں کیا۔ مدن لال نے بعد میں کہا ’ہمیں معلوم تھا کہ اگر ویوین رچرڈز مزید 10 اوورز ٹکے رہے تو میچ ہماری پہنچ سے باہر ہو جائے گا۔ جب کپل رچرڈز کے بلند شاٹ کو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے تو وہ تین یا چار سیکنڈز میری زندگی کے سب سے طویل تین سیکنڈ تھے، جیسے ہی انھوں نے وہ کیچ لیا، مجھے معلوم تھا کہ آج کچھ خاص ہونے والا ہے۔‘
Getty Imagesانڈیا 43 رنز سے جیت گیا
یہ میچ کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ ویسٹ انڈیز، جس نے 1 وکٹ پر 50 رنز بنائے تھے، صرف 76 رنز پر 6 وکٹیں گنوا دیں۔ جیف ڈوجو اور میلکم مارشل نے ہوا کا رخ بدلنے کی کوشش کی لیکن امرناتھ نے ان دونوں کو آؤٹ کر دیا۔
جیسے ہی کپل نے اینڈی رابرٹس کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ کیا، سکور 9 وکٹوں پر 126 رنز ہوگیا۔ ہولڈنگ اور گارنر نے آخری وکٹ کے لیے مزید 14 رنز بنائے۔ لیکن جب امرناتھ نے گارنر کو ایل بی ڈبلیو کیا تو ویسٹ انڈیز انڈیا کے اسکور سے 43 رنز پیچھے تھا۔
اگلے دن ٹائمز کی سرخی تھی، ’کپل کی ٹیم نے دنیا پلٹ دی‘ جبکہ ایک برطانوی اخبار کے ایک مضمون کا عنوان تھا، ’شیروں نے اپنے پنجے نکال لیے۔‘
انڈیا کی یہ فتح اس وقت کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ تھا۔
Getty Imagesجشن کا سلسلہ صبح تین بجے تک جاری رہا
اس جیت کے بعد انڈین حامی اس قدر پرجوش ہو گئے کہ انڈین ٹیم کو اپنے ہوٹل پہنچنے میں تین گھنٹے لگ گئے حالانکہ ان کا ہوٹل لارڈز گراؤنڈ کے بالکل قریب تھا۔
ان کے جشن میں دو پاکستانی کھلاڑی سرفراز نواز اور عبدالقادر بھی شامل ہوئے۔
کپل اپنی سوانح عمری ’سٹریٹ فرام دی ہارٹ‘ میں لکھتے ہیں، ’جیسے ہی ہم ڈریسنگ روم سے باہر آئے، ہمیں ساؤتھ ہال کے پنجابیوں کے ایک گروپ نے گھیر لیا، وہ ڈھول بجاتے آئے تھے، انھوں نے ناچنا شروع کر دیا۔‘
’ہوٹل پہنچنے کے بعد، ہم بھی صبح تین بجے تک ناچتے رہے۔ پہلے تو انھوں نے شیمپین کی بوتل ختم کی جو امرناتھ کو مین آف دی میچ ہونے پر ملی تھی۔ بعد میں انھوں نے اتنی شراب پی کہ شراب ختم ہو گئی۔‘
کپل نے مزید یاد کرتے ہوئے کہا، ’لوگوں نے مجھے شیمپین پینے پر مجبور کیا حالانکہ وہ جانتے تھے کہ میں شراب کم ہی پیتا ہوں۔ لیکن اس بار میں نے ان کی درخواست کو رد نہیں کیا۔ ہم خالی پیٹ سو گئے کیونکہ رات گئے تمام ریستوران بند تھے۔ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ ساؤتھال کے تمام ریستورانوں ان تمام لوگوں کو مفت کھانا اور مٹھائیاں دے رہے ہیں جو ان کے پاس سے گزر رہے تھے۔‘
Getty Imagesجیت نے نئی کھلاڑیوں کی نسل تیار کی
دوسری جانب انڈیا میں دلی، کلکتہ اور بمبئی کی سڑکوں پر لوگ خوشی سے ناچنے لگے۔
مہر بوس اپنی کتاب ’دی نائن ویوز‘ میں لکھتے ہیں، ’انڈیا میں لاکھوں لوگوں نے اپنے ٹیلی ویژن سیٹس پر یہ منظر دیکھا۔ ان میں سے چار کرکٹ کے دیوانے بچے تھے۔ راہول ڈریوڈ، سچن ٹنڈولکر، سورو گنگولی اور وی وی ایس لکشمن جو بعد میں انڈین کرکٹ ٹیم کی ریڑھ کی ہڈی بنے۔ ڈریوڈ نے بعد میں مجھے بتایا کہ اس وقت ان کی عمر 10 سال تھی۔ یہ پہلا میچ تھا جو انھوں نے ٹی وی پر دیکھا تھا۔‘
اس جیت پر پہلا تبصرہ انگلینڈ کے سابق کپتان ٹونی لوئس کی طرف سے آیا۔
انھوں نے کہا کہ ’لنچ کے وقت جب انڈیا نے 4 وکٹوں پر 100 رنز بنا لیے تھے تو میں نے کہا تھا کہ انڈیا آج جیتے گا۔ دراصل گیند بہت زیادہ سوئنگ ہو رہی تھی، بولر اپنی لائن پر قابو نہیں رکھ پا رہے تھے اور بار بار وائیڈ بولنگ کر رہے تھے۔ پچ کا باؤنس ناہموار تھا، ایک اوور میں 6 فٹ 8 انچ لمبے جوئل گارنر کی ایک گیند گواسکر کی ناک کے قریب جا رہی تھی تو اگلی گیند ان کے گھٹنوں کے نیچے جا رہی تھی۔‘
گنڈپا وشواناتھ نے کہا، ’مدن لال اور راجر بنی دونوں کو ویسٹ انڈیز کے بولرز سے زیادہ تحریک ملی۔ موہندر امرناتھ نے بھی میچ کے آخری مراحل میں اچھی بولنگ کی۔‘
جوئل گارنر نے بعد میں یاد کرتے ہوئے کہا، ’جب ہم انڈین اننگز کے بعد واپس آرہے تھے تو میں نے میلکم مارشل سے پوچھا، کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو آج بیٹنگ کرنی پڑ سکتی ہے؟ میلکم کے جواب نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کردیا، اس نے کہا، ’مجھے بھی اور آپ کو بھی۔ مارشل آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرتے تھے اور میں 10 نمبر پر بیٹنگ کرتا تھا۔‘
سب سے زیادہ سبکی انگریز نقاد ڈیوڈ فریتھ کی ہوئی۔ انھوں نے ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے لکھا تھا کہ انڈین ٹیم اتنی کمزور ہے کہ اسے ٹورنامنٹ سے اپنا نام واپس لے لینا چاہیے۔
Getty Imagesبمبئی میں بے مثال استقبال
ایک ہفتے بعد انڈین ٹیم لندن سے بمبئی کے لیے روانہ ہوئی تو ایئر انڈیا نے پرواز کے دوران کیک کاٹنے کے انتظامات کیے۔ جب انڈین ٹیم بمبئی کے ہوائی اڈے پر اتری تو وہاں لوگوں کا ایک بڑا ہجوم موجود تھا۔
وہاں موسلا دھار بارش ہو رہی تھی اس کے باوجود بھی ٹیم کے استقبال کے لیے تقریباً 30 ہزار لوگ ایئرپورٹ پہنچ چکے تھے۔
سابق انڈین کپتان اجیت واڈیکر ٹیم کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ ہوائی اڈے سے وانکھیڈے سٹیڈیم تک سڑک کے دونوں طرف ہزاروں لوگ کھڑے تھے۔ ورلڈ کپ کو کھلاڑیوں کے کوچ کے سامنے ایک گاڑی پر رکھا گیا تھا تاکہ لوگ اسے دیکھ سکیں۔
اسے خصوصی اجازت سے انڈیا لایا گیا تھا اور چونکہ یہ رننگ ٹرافی تھی اس لیے اسے برطانویسرزمین سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ٹیم کو اسے انڈیا لانے کے لیے بانڈ ادا کرنا پڑا۔
انڈین ٹیم جب وانکھیڈے سٹیڈیم پہنچی تو 50 ہزار لوگ استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس وقت انڈین کرکٹ بورڈ کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ ٹیم کو مناسب ایوارڈ دے سکے۔
بعد ازاں بورڈ کے صدر این کے پی سالوے کی مدد سے لتا منگیشکر کا ایک کنسرٹ دہلی کے اندرا گاندھی انڈور سٹیڈیم میں منعقد کیا گیا اور موصول ہونے والی رقم سے ہر کھلاڑی کو ایک لاکھ روپے دیے گئے۔
Getty Imagesصدر اور وزیراعظم نے استقبال کیا
اس کے بعد پوری ٹیم دہلی پہنچی جہاں وزیر اعظم اندرا گاندھی نے حیدرآباد ہاؤس میں ان کے لیے استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا۔ انھوں نے ہر کھلاڑی سے مصافحہ کیا۔
پہلے انگریزی اور پھر ہندی میں تقریر کی۔ اس کے بعد صدر گیانی زیل سنگھ نے پوری ٹیم کو چائے کے لیے صدارتی محل بلایا۔
کپل دیو نے ورلڈ کپ ان کے حوالے کیا اور کہا، ’یہ آپ کے لیے ہے۔‘ کپل دیو اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں، ’گیانی جی نے طنزیہ لہجے میں پوچھا، ’اچھا تے ہُن اے ساڈا ہو گیا‘ (اچھا، اب یہ ہمارا ہے)۔ میں نے جواب دیا ’ہم اسے تین سے چھ ماہ تک رکھ سکتے ہیں۔ پھر ہمیں اسے واپس کرنا پڑے گا۔‘
اس پر زیل سنگھ نے کہا، ’اگر تم اسے واپس نہیں کرتے تو کیا جنگ ہو گی؟ میں نے کہا، ’نہیں‘ اور پوری ٹیم ہنسنے لگی۔
’اندرا گاندھی نے ہماری طرف دیکھا اور اشارہ کیا کہ ہمیں صدر کے سامنے اس طرح نہیں ہنسنا چاہیے۔ لیکن میں اشارہ نہ سمجھا اور ہنستا رہا۔‘
’ تھوڑی دیر بعد مجھے لگا کہ صدر صاحب کو ہماری جیت پر اتنا فخر ہے کہ وہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ یہ کپ کیوں واپس کیا جا رہا ہے۔‘