Getty Images
سکول جانے والے بچوں کو اکثر یہ شکایت ملتی ہے کہ ان کی پرفارمنس یا ذہانت میں کمی آ رہی ہے۔ ایک ایسے ہی 15 سالہ بچے کے والدین جب ان کو ایک ماہر نفسیات کے پاس لے کر گئے تو انھوں نے کہا کہ چھٹی جماعت تک ان کا بچہ کلاس میں پہلی پوزیشن لیتا تھا لیکن اب پڑھائی پر دھیان نہیں دیتا۔
ڈاکٹر نے جب اس بچے سے اکیلے میں بات چیت کی تو وہ مسئلے کی تشخیص کرنے میں کامیاب رہے۔انھوں نے بچے کے والدین کو چند مشورے دیے جن کی مدد سے وہ سکول میں پڑھائی میں بہتری لانے میں کامیاب رہے۔
اس بچے کے والدین نے پہلے یہ بات نوٹس کی تھی کہ دن رات بچے کے ہاتھ میں فون رہا تھا۔
انھوں نے ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیتا تھا اور اس کا فون ہمیشہ پاس ورڈ سے لاک رہتا تھا۔ ’جب ہم سوال کرتے تو وہ کہتا کہ وہ دوستوں سے بات کرتا ہے اور غصے میں آ جاتا۔‘
ماہر نفسیات اور سیکسوجسٹ ڈاکٹر اشوک نے اس مسئلے کی تشخیص کچھ یوں کہ کہ یہ بچہ پورن دیکھنے کی وجہ سے پڑھائی سے دور ہوتا چلا جا رہا تھا اور لوگوں سے بھی الگ تھلگ رہنے کو ترجیح دیتا تھا۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو دنیا بھر میں کئی ممالک میں والدین کی جانب سے سامنے لایا جا رہا ہے۔ حال ہی میں انڈیا کی کیرالہ ریاست میں ایک شخص کیخلاف اس بات پر مقدمہ چلا کہ وہ عوامی مقام پر پورن دیکھ رہا تھا۔
اس مقدمے کے دوران کہا گیا کہ انڈیا میں پورن دیکھنا تو جرم نہیں لیکن اگر بچے کم عمری میں ایسا کرنا شروع کر دیں تو اس کے اثرات بہت دیر تک ان کے ساتھ رہتے ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ والدین کو بچوں کو فون دینے کے خطرات سے آگاہ رہنا چاہیے اور انھیں اپنے سامنے تعلیمی ویڈیوز دیکھنے کی تلقین کرنی چاہیے یا ایسی ویڈیو گیمز جو بچوں کے لیے تفریح کا باعث ہوں۔
بچوں کو پورن دیکھنے سے کیسے روکا جائے؟Getty Images
ڈاکٹر اشوک کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اب بچوں کو ٹیکنالوجی کی وجہ سے سیکس کے مواد تک زیادہ رسائی حاصل ہو چکی ہے۔ ’سوشل میڈیا پر بھی ایسی تصاویر اور مواد موجود ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا کے بعد سے فون اور ڈیوائسز نے اساتذہ کی جگہ لے لی ہے اور وہ والدین اور اساتذہ کی نظروں سے دور ہوئے ہیں۔
ان کے مطابق والدین کو یہ معلوم ہونے پر کہ بچہ پورن دیکھ رہا ہے پریشان ہو کر جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔
’بچوں پر غصہ کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیوں کہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ایسا کرنے سے بچوں کی ایسے مواد میں دلچسپی بڑھ جائے گی۔‘
وہ تلقین کرتے ہیں کہ ’بہتر طریقہ یہ ہے کہ بچوں کو نرم دلی اور سکون سے سمجھایا جائے اور ان کو پورن دیکھنے سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔‘
’اگر ان پر غصہ کیا جائے گا تو اس سے معاملہ بگڑے گا، حل نہیں ہو گا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ بچے عام طور پر والدین سے دور رہ کر کھیلتے ہیں جو معمول کی بات ہے تاہم ’اگر والدین دیکھیں کہ بچے تنہا ہیں اور فون سے چپکے ہوئے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ وہ بچے سے بات کریں۔‘
’ان سے پوچھیں کہ کیا کوئی مسئلہ ہے، ان کے ساتھ وقت صرف کریں، ان کو بتائیں کہ ماں باپ کتنا پیار کرتے ہیں۔‘
بچوں کے ساتھ باہر جانا اور کھانا پینا والدین اور بچوں کے درمیان تعلق کو مضبوط بناتا ہے۔ ڈاکٹر اشوک کہتے ہیں کہ یہ تعلق اس لیے ضروری ہے کہ تبھی بچے اپنے دل کی بات والدین کو بتائیں گے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ 11 سال کی عمر کے بعد بچوں میں سیکس کے بارے میں سیکھنے کی قدرتی جبلت پیدا ہوتی ہے۔
ڈاکٹر اشوک کا کہنا ہے کہ ’اسی لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ والدین خود بچوں کو اس بارے میں بتائیں تاکہ وہ خود سے کھو نہ جائیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ 11 سال کی عمر کے بعد بچوں کو سگریٹ نوشی، شراب نوشی اور سیکس کے بارے میں بتانا چاہیے۔’اسی طرح سے ان کو آگہی حاصل ہو گی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’بچوں کی عمر کے ساتھ ان کے ذہنوں میں جسمانی تبدیلیوں کے بارے میں سوالات جنم لیتے ہیں اور اگر ان کو ٹھوس جواب یا وضاحت نہ ملے تو وہ پورن کی جانب راغب ہو سکتے ہیں۔‘
وہ سکولوں میں سیکس تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان اقدامات پر عمل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ہی بچے منشیات کی جانب بھی راغب ہوتے ہیں۔