سانپ کے کاٹنے سے کمسن بچی کی ہلاکت: کیا پاکستان کے ہسپتالوں میں ہر زہریلے سانپ کا تریاق دستیاب ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 20, 2023

Getty Images

بینگروس جنس کا زہریلا سانپ ’کریٹ‘ کسی کو کاٹ لے تو انسان کے پاس اس زہر کے خلاف تریاق حاصل کرنے اور اپنی زندگی بچانے کے لیے وقت بہت کم ہوتا ہے۔ اگر یہ سانپ کوبرا نسل کا ہو تو زندگی بچانے کا یہ وقت مزید کم ہو سکتا ہے۔

بعض مواقع پر کوبرا کی کچھ اقسام کے سانپوں سے ڈسے جانے والے متاثرہ افراد کو محض دو سے تین گھنٹے ہی مل پائے۔ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔

کریٹ اور کوبرا زہریلے سانپوں کی ان چار اقسام میں شامل ہیں جو پاکستان میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ یہاں سانپ کے کاٹنے کے واقعات میں متاثرین زیادہ تر انہی چار سانپوں کا ہدف بنتے ہیں۔ مون سون کے موسم یا برسات کے دنوں میں سانپوں کے کاٹنے کے واقعات کئی گنا زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

پاکستان میں ہونے والے واقعات میں کریٹ اور کوبرا کے علاوہ وائپر نسل کی دو اقسام رسل وائپر اور ایکیز شامل ہیں۔ یہ چھوٹے سانپوں میں انتہائی زہریلے ہوتے ہیں۔

ان سانپوں کا زہر کئی طریقوں سے انسانی جسم پر حملہ کرتا ہے۔ زیادہ تر ان میں دو قسم کے وار انتہائی خطرناک تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ زہر انسان کے خون میں شامل ہو کر نظامِ تنفس کو متاثر کرتا ہے جس سے چند منٹوں سے لے کر چند گھنٹوں میں اس کی جان جا سکتی ہے۔

یا پھر کچھ سانپوں کا زہر نظام اعصاب پر حملہ کرتا ہے۔ اس سے انسان میں وقتی یا مستقل معذوری پیدا ہو سکتی ہے یا پھر علاج نہ ملنے کی صورت میں کچھ وقت گزرنے کے بعد اس کی موت واقع ہو سکتی ہے۔

ہر قسم کے سانپ کے زہر کا تریاق یا توڑ موجود ہے۔ ضرورت صرف اتنی ہے کہ جس شخص کو سانپ کاٹ لے اس کو وقت ضائع کیے بغیر ہسپتال پہنچایا جائے جہاں اسے یہ تریاق دیا جا سکے۔

یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کیسے معلوم ہو کہ اسے کس قسم کے سانپ نے کاٹا ہے تا کہ درست قسم کا تریاق دیا جا سکے؟ کیا پاکستان میں ہر قسم کے سانپ کے زہر کا تریاق میسر بھی ہے یا نہیں؟ اور ضرورت پڑنے پر یہ ملتا کہاں سے ہے؟

Getty Imagesسانپ کا کاٹنا کتنی بڑی ایمرجسنی ہو سکتی ہے؟

حال ہی میں صوبہ پنجاب کے ضلع سیالکوٹ میں ایک کمسن بچی کو سانپ نے کاٹا۔ انہیں وقت پر پسرور کے سرکاری ہسپتال پہنچایا گیا تاہم انھیں وہاں تریاق نہیں ملا۔

13 سالہ بچی کے والد نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ’بچی کو سوتے میں سانپ نے کاٹا جس کے فوری بعد وہ انھیں لے کر ہسپتال روانہ ہو گئے تاہم پہلے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کے پاس تریاق دستیاب نہیں ہے۔‘

وہ بچی کو لے کر ضلعی ہسپتال پہنچے۔ ان کےمطابق وہاں اینٹی وینم موجود تھا تاہم ڈاکٹروں نے ان کی بچی کی طرف توجہ نہیں دی۔ اس ہسپتال میں کچھ وقت گزارنے پر جب انھیں علاج نہیں ملا تو وہ بچی کو لے کر ایک نجی ہسپتال جا رہے تھے جب راستے میں بچی کی موت ہو گئی۔

کیا واقعتاً پنجاب کے ایک نصبتاً آسودہ ضلعے کے سرکاری ہسپتالوں میں سانپ کے زہر کا اینٹی وینم یا تریاق دستیاب ہی نہیں تھا؟ یا پھر طبی عملہ نے اس کو ایمرجسنی کے طور پر نہیں لیا اور ان کی غفلت سے بچی کو اینٹی وینم نہیں ملا؟

پنجاب کے وزیرِ صحت ڈاکٹر جمال ناصر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس تاثر کی تردید کی کہ اس واقعے میں سیالکوٹ کے ہسپتالوں میں اینٹی وینم موجود نہیں تھا۔

’دونوں ہسپتالوں میں اینٹی وینم کی وافر مقدار موجود تھی۔ ایک جگہ 49 اور ایک جگہ چھ اینٹی وینم موجود تھے۔ اس برس ہم نے سیلاب وغیرہ کے پیشِ نظر زیادہ اینٹی وینم منگوا کر رکھے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے انکوائری شروع کر دی گئی ہے کہ اگر اینٹی وینم موجود تھا تو 13 سالہ بچی کو دیا کیوں نہیں جا سکا۔ ڈاکٹر جمال ناصر کا کہنا ہے کہ انکوائری مکمل ہونے کے بعد ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے گا۔

Getty Images’سرکاری ہسپتالوں میں اینٹی وینم وافر مقدار میں موجود نہیں‘

ماہرین کے مطابق پاکستان میں سانپ کے کاٹنے کے زیادہ تر واقعات پنجاب کے جنوبی اضلاع کے علاوہ صوبہ سندھ اور بلوچستان کے کئی اضلاع سے سامنے آتے ہیں۔ بلوچستان میں سانپوں کی چند انتہائی خطرناک قسمیں پائی جاتی ہیں۔

بلوچستان کے دور افتادہ اور شورش سے متاثرہ ضلعے ڈیرہ بگٹی میں رواں برس چ40 سے زیادہ سانپ کے کاٹنے کے واقعات سامنے آئے۔ ان میں ایک شخص کی موت بھی واقع ہوئی۔ تاہم باقی افراد کو بچا لیا گیا۔

ڈیرہ بگٹی کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر اعظم بگٹی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ ہفتے میں محض ایک روز میں 13 سانپ کے کاٹنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

’اس سال مون سون کے موسم سے پہلے سیکریٹری صحت نے ہمیں 100 کے لگ بھگ ویکسین بھجوائے تھے جبکہ کچھ ویکسین کا انتظام ہم نے اپنے طورپرکرنے کے علاوہ کچھ ویکسین ہم نے اوجی ڈی سی ایل سے بھی حاصل کیے۔‘

تاہم بلوچستان کے محکمہ صحت کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’صوبے کے سرکاری ہسپتالوں یا مراکزِ صحت میں اینٹی وینم وافر مقدار میں موجود نہیں ہے۔‘

پاکستان میں اینٹی وینم کہاں سے آتا ہے؟

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ یعنی این آئی ایچ کے چیف اگزیکیوٹو آفیسر ڈاکٹر محمد سلمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا ادارہ ملک میں سانپ کے زہر کا تریاق بنانے کا واحد ادارہ ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’این آئی ایچ میں اس کام کے لیے قائم سیرا پراسیسنگ لیبارٹری ملکی ضرورت کی اینٹی وینم تیار کرتا ہے۔‘

این آئی ایچ کی ویب سائٹ کے مطابق ادارہ سنہ 1967 سے اینٹی وینم تیار کر رہا ہے جو کہ پہلے 25 سے 30 ہزار شیشیاں سالانہ تیار کرتا تھا۔

این آئی ایچ کے ایک سابق عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لیبارٹری کی اس صلاحیت کو کئی گنا بڑھا دیا گیا۔ حال ہی میں پاکستان میں آنے والے سیلابوں کے دوران ہم نے اضافی پیدا ہونے والی ضرورت کو بھی پورا کیا۔‘

وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ ادارہ چھوڑ دینے کی وجہ سے وہ اس کے معاملات پر سرکاری طور پر بیان دینے کے مجاز نہیں ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ این آئی ایچ جلد اس سطح تک پہنچ جائے گا جب وہ ملکی ضرورت سے زیادہ کی اینٹی وینم درآمد بھی کر پائے گا۔

کیا پاکستان کے تمام ہسپتالوں میں اینٹی وینم موجود ہے؟

این آئی ایچ کے چیف اگزیکیوٹو آفیسر ڈاکٹر محمد سلمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا ادارہ صوبوں کی طرف سے ملنے والی ڈیمانڈ کے مطابق انھیں اینٹی وینم فراہم کر دیتا ہے۔ ’اس کے علاوہ وہ دیگر ذرائع سے بھی یہ اینٹی وینم حاصل کرتے ہیں۔‘

این آئی ایچ کے سابق عہدیدار کے مطابق وفاقی ادارہ تمام صوبوں کے صحت کے محکموں کی ضرورت کے مطابق انہیں اینٹی وینم بھجواتا ہے۔

’اس کے بعد ہر صوبے کا محکمہ صحت اپنے طور پر اپنے تحصیل، ضلعے اور بنیادی مرکزِ صحت کی سطح کے ہسپتالوں میں یہ اینٹی وینم بھجوا دیتے ہیں۔ اس لیے یہ ہر وقت لگ بھگ ہر سرکاری طبی سہولت پر موجود ہونا چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اینٹی وینم کی دستیابی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہاں موجود طبی عملہ اینٹی وینم دینے کے لیے تربیت یافتہ ہو اور اس کا انتظام بخوبی چلا سکے۔ ’یہ ذمہ داری صوبائی محکمہ صحت کی ہوتی ہے کہ وہ اس چیز کو یقینی بنائے تا کہ انسانی جان کو بچایا جا سکے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سیلاب اور برسات کے دنوں میں اینٹی وینم کی مانگ زیادہ بڑھ جاتی ہے اس لیے این آئی ایچ اس کی تیاری کی رفتار بڑھا دیتا ہے۔

Getty Imagesکیسے پتا چلتا ہے کہ زہر کس سانپ کا ہے اور اس کا تریاق کیا ہو گا؟

سانپ کے کاٹنے کے زیادہ تر واقعات رات کے وقت ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق زیادہ تر واقعات میں متاثرہ شخص نہیں دیکھ پاتا کہ سانپ کس نسل یا قسم کا تھا۔

این آئی ایچ کے سابق عہدیدار کے مطابق ’اگر وہ سانپ کو دیکھ بھی لے تو عام طور پر ایک عام آدمی کے لیے یہ اندازہ لگانا کہ سانپ کی قسم کیا تھی اور اس کا زہر کس قسم کا ہوتا ہے، یہ بہت مشکل ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ این آئی ایچ میں جو اینٹی وینم تیار کیا جاتا ہے وہ ان چاروں سانپوں کے زہروں کو ملا کر بنایا جاتا ہے جو پاکستان میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔

’اس طرح کسی بھی قسم کا سانپ ہو ہماری اینٹی وینم متاثرہ شخص پر کام کرتی ہے اور زہر کا تریاق کرتی ہے۔‘

سانپوں کے زہر کا تریاق سانپوں ہی کے زہر سے بنایا جاتا ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے زیادہ تر گھوڑوں اور دیگر جانوروں کے جسموں کو استعمال کیا جاتا ہے۔

سانپ کے ڈسنے کے بعد کتنے وقت میں تریاق حاصل کرنا ضروری ہے؟

این آئی ایچ اسلام آباد کے سابق عہدیدار کے مطابق زندگی بچانے کے لیے میسر وقت کا تعین اس بات پر ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص کو کاٹنے والا سانپ کس نسل اور کس قسم کا ہے۔

’کچھ سانپوں کا زہر محض چند گھنٹوں میں اثر کرتا ہے تو کچھ میں ایک دو روز بھی لگ سکتے ہیں۔ لیکن کیونکہ ہمیں نہیں پتا ہوتا کہ سانپ کون سا ہے تو ضروری ہے کہ متاثرہ شخص کو فوری طور پر ہسپتال تک پہنچایا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سانپ کے ڈسنے کے بعد اپنے طور جو تدابیر کی جا سکتی ہیں ان میں ضروری یہ ہے کہ جس جگہ سانپ نے کاٹا ہو اس سے اوپر کس کر باندھ دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ عام طور پر گاوں وغیرہ میں لوگ ٹوٹکوں اور دیگر طریقوں میں وقت ضائع کر دیتے ہیں۔

’یہ انتہائی خطرناک عمل ہے اور جتنا وقت ضائع ہوتا ہے اتنا ہی متاثرہ شخص کی زندگی کو خطرہ بڑھتا رہتا ہے۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ سانپ کا کاٹ لینا زیادہ تر واقعات میں اتنا خطرناک نہیں ہوتا کیونکہ اس کا تریاق دستیاب ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More