نام، مذہب اور حلیہ تبدیل: گھریلو ناچاکی کے بعد لاپتہ ہونے والی خاتون، جنھیں پانچ سال بعد ڈھونڈ لیا گیا

بی بی سی اردو  |  Sep 19, 2023

Getty Images

انڈین ریاست حیدر آباد کی ایک خاتون نے اپنے شوہر سے اختلافات کے باعث اپنے گھر کے ساتھ ساتھ ریاست بھی چھوڑ دی۔ اس خاتون نے اس بات کا بھی خیال رکھا کہ وہ اپنے بارے میں کوئی چھوٹی سی تفصیل بھی کسی کو نہ بتائیں۔ انھوں نے اپنی شناخت بدل لی اور پھر ایک نئی زندگی کا آغاز کر لیا۔

پانچ سال بعد پولیس کے تلنگانہ ویمنز سیفٹی ونگ کو برسوں سے معمہ بنی اس خاتون کا ٹھکانہ بالآخر معلوم ہوا۔ یہ خاتون کون تھیں اور ان کی کہانی آخر کیا تھی؟

حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی فاطمہ (فرضی نام) 29 جون 2018 کو لاپتہ ہوئی تھیں۔ وہ شہر کے ایک نامور ہوٹل مالک کی بیٹی تھیں۔

ایک دن وہ اس گھر سے نکلیں جہاں وہ ہمایوں نگر میں اپنے شوہر کے ساتھ رہ رہی تھیں اور پھر کبھی واپس نہیں آئیں۔ وہ اپنا فون بھی گھر چھوڑ گئی تھیں۔

فاطمہ کے والدین نے پولیس کو ان کی گمشدگی کی شکایت درج کروائی تھی۔ ان کے شوہر کے خلاف جہیز کے باعث ہراساں کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا۔ آغاز میں پولیس کی تفتیش بھی اسی سمت میں چلتی رہی۔

یہ اس خاتون کی گمشدگی کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل وہ سنہ 2014 اور 2015 میں دو بار لاپتہ ہو چکی تھیں اور اس ضمن میں ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ دونوں مرتبہ وہ گھر واپس لوٹ آئی تھیں تاہم تیسری مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔

ویمن سیفٹی ونگ کے ایس آئی ہریش نے بی بی سی کو اس کی تفصیلات بتائی ہیں۔

Getty Images’گھر والوں کو گھر میں رکھیں اور تالا لگا دیں‘

کیس کی تفتیش کے لیےپولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کا سہارا لیا۔ وہ 29 جون 2018 کو گھر والوں کو گھر پر چھوڑ کر باہر سے تالا لگا کر چلی گئیں۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں فاطمہ کو خود گھر سے نکلتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔

ان کے والد نے 2019 میں تلنگانہ ہائیکورٹ میں حبسِ بے جا کی درخواست دائر کی تھی کیونکہ ان کی بیٹی کا ٹھکانہ معلوم نہیں ہو رہا تھا۔

عدالت کے حکم کے مطابق اس کیس کو تلنگانہ ویمنز سیفٹی ونگ کو منتقل کر دیا گیا۔ ویمنز سیفٹی ڈپارٹمنٹ کے ایس آئی ہریش نے تحقیقات کا آغاز کیا۔

جب فاطمہ کے دوستوں سے پوچھ گچھ کی گئی تو پتا چلا کہ انھوں نے موبائل فون کی مدد سے ٹیکسی بک کروائی تھی۔ اس وقت کیا ہوا تھا یہ جاننے کے لیے انھوں نے ٹیکسی کمپنی سے ان کی آواز کی ریکارڈنگ حاصل کی اور اسے سنا۔ پولیس نے ٹیکسی بکنگ کی تفصیلات بھی چیک کیں۔

ہریش نے بتایا کہ ’ہمیں پتا چلا کہ وہ ٹیکسی بک کر کے پونے گئی تھیں لیکن یہ جاننا مشکل تھا کہ وہ (پونے میں) کہاں گئیں۔ ان کے پاس وہ فون بھی نہیں تھا جس سے انھوں نے ٹیکسی بک کروائی تھی۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ اس ریکارڈنگ سے انھیں تفتیش میں ایک چھوٹا سا سراغ ملا لیکن بعد میں وہ بھی زیادہ میسر نہیں رہا۔ اس وقت کووڈ کے پھیلاؤ کی وجہ سے تفتیش روک دی گئی تھی۔‘

Getty Images’نام، مذہب، شناخت کی تبدیلی‘

اس کے بعد فاطمہ پونے سے ممبئی چلی گئیں۔ پولیس کو پتا چلا کہ وہاں انھوں نے اپنی شناخت مکمل طور پر بدل دی تھی۔

انھوں نے اپنا نام، مذہب، حلیہ سب کچھ بدل دیا تھا۔ وہاں انھوں نے ایک ایسے شخص سے شادی کی جس سے ان کی ملاقات وہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے وہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ایک فلاحی تنظیم کا پروگرام چلا رہی تھیں۔

پولیس کے پاس موجود ان کی تصویر اور ان کے تازہ ترین حلیے کے درمیان کچھ زیادہ مطابقت نہیں تھی۔

ہریش نے بتایا کہ ’وہ بالکل بدل گئی ہیں، ان کے بالوں کا رنگ مختلف ہے اور وہ ایک نئی زندگی شروع کر چکی ہیں۔ وہ شادی شدہ ہیں اور اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں اور این جی اوز کی جانب سے پروگراموں میں حصہ لیتی ہیں۔ پہلی مرتبہ جب ہم نے انھیں دیکھا تو ہم پہچان ہی نہیں سکے۔‘

Getty Imagesآدھار کارڈ کی مدد سے شناخت

فاطمہ نے اس سال جولائی میں اپنا آدھار کارڈ اپ ڈیٹ کیا تھا جس کی وجہ سے پولیس ان کا پتا لگانے میں کامیاب ہوئی۔

ہریش نے بتایا کہ ’جب آدھار کارڈ کو اپ ڈیٹ کیا گیا تو ہمیں پتا چلا کہ فاطمہ نے ڈیجیٹل ٹولز کا استعمال کیا تھا۔ ہمیں یوں ان کا نام معلوم ہوا۔ انھوں نے اپنی زبان تیلوگو سے مراٹھی میں تبدیل کر لی تھی۔ اس طرح ہمیں آدھار کارڈ سے منسلک بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات معلوم ہوئیں۔‘

’ان کے نام سے ایک انسٹاگرام پروفائل نمودار ہوئی۔ پوسٹس کی بنیاد پر ہمیں معلوم ہوا کہ یہ اس وقت گوا میں ہیں۔ ہم وہاں گئے اور ان کی شناخت کی اور چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کی مدد سے تصدیق کی۔‘

پولیس نے بتایا کہ جس شخص سے انھوں نے ممبئی میں شادی کی وہ بھی فاطمہ کی ماضی کی شناخت سے واقف نہیں تھے۔

26 جولائی کو فاطمہ کی شناخت کی گئی اور انھیں گوا سے حیدرآباد لایا گیا تو انھیں ہائیکورٹ میں پیش کیا گیا۔

عدالت نے مقدمے کی سماعت کے دوران انھیں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دے دی۔

یہ ایک انوکھا کیس تھا جس میں پولیس ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال سے لاپتہ خاتون کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوئی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More