ہردیپ سنگھ کے قتل پر سفارتی کشیدگی میں اضافہ: کینیڈا اور انڈیا نے ایک دوسرے کے سفیر ملک بدر کر دیے

بی بی سی اردو  |  Sep 19, 2023

Getty Images

کینیڈا میں خالصتانی سکھ رہنما کے قتل میں ممکنہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں کینیڈا سے انڈین سفارتکار کی ملک بدری کے جواب میں انڈیا نے بھی کینیڈا کے سینیئر سفارتکار کو ملک سے نکال دیا ہے۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے انڈیا پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ خالصتان حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ کے قتل میں انڈیا ملوث ہو سکتا ہے۔

جبکہ کینیڈین وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اس معاملے میں ملک بدر کیے گئے انڈین سفارتکار پون کمار کینیڈا میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سربراہ تھے۔

کینیڈین وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے بیانات کے جواب میں انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا ہے کہ ’انڈیا نے کینیڈین سفارت کار کو ملک بدر کر دیا ہے۔ کینیڈا کے ہائی کمشنر کو آج طلب کر کے انڈین حکومت کے اس فیصلے سے آگاہ کیا گیا ہے۔ متعلقہ سفارتکار کو اگلے پانچ دنوں کے اندر انڈیا چھوڑنے کو کہا گیا ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’یہ فیصلہ ہمارے اندرونی معاملات میں کینیڈا کے سفارت کاروں کی مداخلت اور انڈیا مخالف سرگرمیوں میں ان کی شمولیت پر انڈین حکومت کی بڑھتی ہوئی تشویش کو ظاہر کرتا ہے۔‘

اس سے قبل انڈین وزارت خارجہ نے انڈیا میں کینیڈا کے ہائی کمشنر کو طلب کیا تھا۔ اور کچھ دیر قبل کینیڈین ہائی کمشنر کیمرون میکی نئی دہلی کے جنوبی بلاک میں وزارت خارجہ کے ہیڈ کوارٹر پہنچے اور چند منٹ تک جاری رہنے والی کی ملاقات کے بعد کیمرون میکی وزارت خارجہ کے دفتر سے واپس چلے گئے۔

اس دوران انھوں نے میڈیا سے بات نہیں کی تھی۔

https://twitter.com/MEAIndia/status/1704000754783265107

یاد رہے کہ خالصتانی رہنما ہردیپ سنگھ کو کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں رواں برس 18 جون کو سکھ گرودوارہ کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

کینیڈین وزیر اعظم ٹروڈو نے پیر کو کینیڈا کی پارلیمان میں کہا کہ ’کینیڈا کی سرزمین پر کسی کینیڈین شہری کے قتل میں کسی غیر ملکی حکومت کا ملوث ہونا ہماری خودمختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ آزاد، کھلے اور جمہوری معاشروں کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔‘

انڈیا نے اس سے قبل خالصتانی رہنما ہردیپ سنگھ کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کی تھی۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کینیڈین پارلیمان میں کہا ہے کہ کینیڈا کے انٹیلیجنس کے اداروں نے سکھ رہنما کی موت اور انڈین ریاست کے درمیان ایک ’قابل اعتماد‘ تعلق کی نشاندہی کی ہے۔

جس کے جواب میں انڈیا کی وزارت خارجہ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم کینیڈا کے وزیر اعظم کے ان کی پارلیمنٹ میں دیے گئے بیان اور ان کے وزیر خارجہ کے بیان کو مسترد کرتے ہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’کینیڈا میں تشدد کی کسی بھی کارروائی میں ہندوستانی حکومت کے ملوث ہونے کے الزامات مضحکہ خیز ہیں۔ اسی طرح کے الزامات کینیڈا کے وزیر اعظم نے ہمارے وزیر اعظم پر لگائے تھے اور انھیں مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا تھا۔‘

انڈین وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہم ایک جمہوری ملک ہیں جس میں قانون کی حکمرانی ہے۔ اس طرح کے بے بنیاد الزامات خالصتانی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں جو کینیڈا میں پناہ گزین ہیں اور انڈیا کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو مسلسل خطرہ بنا رہے ہیں۔‘

اس معاملے پر کینیڈا کی حکومت کی جانب سے اقدامات نہ اٹھائے جانا ایک طویل عرصے سے تشویش کا باعث ہے۔‘

انڈیا نے اس سے قبل خالصتانی رہنما ہردیپ سنگھ کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کی تھی۔

Getty Images

کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانیا جولی نے وزیر اعظم ٹروڈو کے تبصرے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ کینیڈا نے پیر کو اعلیٰ ترین انڈین سفارتکار پون کمار رائے کو بھی اس معاملے پر ملک بدر کر دیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ کینیڈا سے ملک بدر کیے جانے والے انڈیا کے اعلیٰ سفارتکار کینیڈا میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے سربراہ تھے۔

بی بی سی نے اس پر تبصرے کے لیے کینیڈا میں انڈین سفارت خانے سے رابطہ کیا ہے۔

کینیڈین وزیر خارجہ میلانیا جولی نے کہا کہ کینیڈین حکام سکھ رہنما کے قتل سے متعلق ہونے والی تحقیقات کے پیش نظر عوامی سطح پر زیادہ معلومات دینے سے قاصر ہیں۔

کینیڈا میں تفتیش کاروں نے پہلے 45 سالہ ہردیپ سنگھ کی موت کو ’ٹارگٹ کلنگ‘ قرار دیا تھا۔

یاد رہے کہ سکھ رہنما ہردیپ سنگھ کو دو نقاب پوش مسلح افراد نے جون کے وسط میں وینکوور سے تقریباً 30 کلومیٹر دور واقع شہر سرے میں واقع گرو نانک سکھ گرودوارے کی مصروف کار پارکنگ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

وہ کینیڈا کے مغربی صوبے برٹش کولمبیا میں ایک ممتاز سکھ رہنما تھے اور انھوں نے عوامی سطح پر خالصتان ریاست کے لیے تحریک چلائی تھی۔ خالصتان تحریک دراصل انڈیا کے صوبہ پنجاب کے علاقے میں سکھوں کے ایک آزاد وطن کی تحریک ہے۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ ماضی میں اپنی سرگرمی کی وجہ سے دھمکیوں کا نشانہ بنے تھے۔

انڈیا نے اس سے قبل انھیں ایک دہشت گرد قرار دیا تھا اور ان پر ایک عسکریت پسند علیحدگی پسند گروہ کی قیادت کرنے کا الزام لگایا تھا۔ ان الزامات کو ہردیپ سنگھ کے حامی ’بے بنیاد‘ کہتے ہیں۔

کینیڈین وزیر اعظم ٹروڈو نے کہا کہ کینیڈا نے انڈیا میں اعلیٰ سطحی سکیورٹی اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے سامنے ہردیپ سنگھ کی موت پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

انھوں نے یہ معاملہ اپنے اتحادی ممالک امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ بھی اٹھاتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے بات کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں واضح الفاظ میں یہ کہتا رہا ہوں کہ انڈیا کی حکومت اس معاملے پر تحقیقات کے لیے کینیڈا کے ساتھ تعاون کرے۔‘

جسٹس ٹروڈو کا کہنا تھا کہ ہردیپ سنگھ کے قتل نے کینیڈا کے شہریوں کو غصہ دلایا ہے، جس سے کچھ لوگ اپنی حفاظت کے لیے خوفزدہ ہیں۔

ورلڈ سکھ آرگنائزیشن سمیت کینیڈا میں کچھ سکھ گروپوں نے وزیر اعظم کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ جسٹن ٹروڈو نے اس بات کی تصدیق کی جس پر سکھ برادری پہلے سے ہی بڑے پیمانے پر یقین کرتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 1.4 سے 1.8 ملین کے قریب انڈین نژاد کینیڈین شہری ہیں۔ انڈیا میں پنجاب سے باہر سکھوں کی سب سے زیادہ آبادی کینیڈا میں ہی ہے۔

کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا یہ بیان گذشتہ ہفتے انڈیا میں ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ان کی کشیدہ ملاقات کے بعد آیا ہے۔

Getty Images

انڈین حکومت کے ایک بیان کے مطابق ’اس ملاقات کے دوران انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کینیڈا میں علحیدگی پسند سکھ تحریک کا حوالہ دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ کینیڈا ملک میں انتہا پسند عناصر کی انڈیا مخالف سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کافی اقدامات نہیں کر رہا۔‘

اس ملاقات کے بعد کینیڈا نے گذشتہ ہفتے انڈیا کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کے لیے ہونے والے مذاکرات کو معطل کر دیا ہے۔ کینیڈا نے اس کے بارے میں کچھ تفصیلات بتائی ہیں لیکن انڈیا نے ’کچھ سیاسی پیش رفت‘ کا حوالہ دیا ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے انڈیا آنے والے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے کینیڈا پہنچنے کے فوراً بعد یہ خبر آئی تھی کہ کینیڈا نے انڈیا کے ساتھ تجارتی معاہدے پر پہلے سے جاری بات چیت کا عمل معطل کر دیا ہے۔

کینیڈا کی وزیر تجارت میری این کے ترجمان نے جمعہ کو اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈا نے دو طرفہ تجارتی معاہدے پر بات چیت روک دی ہے۔

یاد رہے کہ جی 20 کانفرنس کے دوران انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے درمیان مبینہ طور پر گرما گرم بات چیت ہوئی۔

نریندر مودی کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کی بڑھتی مقبولیت اور انڈین سفارتکاروں کے خلاف ’تشدد کو ہوا دینے‘ جیسے واقعات پر ناراض تھے۔ جبکہ جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ان معاملات کو ہوا دے کر انڈیا ’کینیڈا کی ملکی سیاست میں مداخلت‘ کا مرتکب ہو رہا ہے۔

درحقیقت سکھ علیحدگی پسند تحریک کی وجہ سے ہی انڈیا اور کینیڈا کے مابین تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے کینیڈا میں خالصتان کی حامی تنظیموں کی سرگرمیوں کی وجہ سے کینیڈا اور انڈیا کے تعلقات میں تناؤ ہے۔

خالصتان کے حامی رہنماؤں کی موت اور انڈیا پر الزاماتGetty Images

خالصتانی رہنما ہردیپ سنگھ حالیہ مہینوں میں غیر متوقع طور پر مرنے والی تیسری ممتاز سکھ شخصیت ہیں۔

جون 2023 میں برطانیہ میں مقیم اوتار سنگھ کھنڈا کی پراسرار حالات میں موت ہو گئی تھی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خالصتان لبریشن فورس کے سربراہ تھے۔

سکھ علیحدگی پسندوں نے الزام عائد کیا کہ انھیں زہر دے کر مارا گیا ہے۔

علیحدگی پسند سکھ تنظیموں نے اسے ’ٹارگٹ کلنگ‘ قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ انڈین حکومت سکھ علیحدگی پسند رہنماؤں کو قتل کروا رہی ہے۔

جبکہ پرمجیت سنگھ پنجوار، جسے انڈیا نے دہشت گرد قرار دیا تھا کو رواں برس مئی میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

تاہم انڈین حکومت نے ابھی تک ان الزامات پر سرکاری سطح پر کچھ نہیں کہا ہے۔

انڈیا میں سکھوں کی آبادی دو فیصد ہے اور کچھ سکھ علیحدگی پسند سکھوں کے لیے ایک علیحدہ ملک ’خالصتان‘ بنانے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔

انڈیا کا الزام ہے کہ ٹروڈو حکومت کینیڈا میں سرگرم سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے میں ناکام رہی ہے۔

انڈین حکومت کا یہ بھی الزام ہے کہ یہ علیحدگی پسند کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ میں انڈیا مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

اس وقت انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں جو تناؤ نظر آ رہا ہے اس کی ایک بڑی وجہ کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں ہیں۔

کینیڈا میں خالصتان کی حامی تحریک اتنی زور و شور سے چل رہی ہے کہ سکھوں کے لیے الگ ملک خالصتان کے حوالے سے ریفرنڈم بھی کرایا جا چکا ہے۔

اس بار بھی جس دن جی 20 کانفرنس کے دوران نئی دہلی میں ٹروڈو اور مودی کی مختصر ملاقات ہوئی، سکھ علیحدگی پسندوں نے کینیڈا کے شہر وینکوور میں انڈین پنجاب کو انڈیا سے الگ کروانے کے لیے ریفرنڈم کروایا۔

انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں تلخی اس وقت مزید بڑھ گئی جب جی 20 کانفرنس کے دوران انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں پر کُھل کر ناراضگی کا اظہار کیا۔

کانفرنس کے دوران سرکاری سلامی کے دوران ٹروڈو کو نریندر مودی سے جلد بازی میں مصافحہ کرتے اور تیزی سے وہاں سے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔

اس تصویر کو دونوں ملکوں کے تعلقات کے درمیان ’کشیدگی‘ کے طور پر دیکھا گیا۔

اس کے بعد ٹروڈو سے بات چیت کے دوران نریندر مودی کی جانب سے کینیڈا میں خالصتان کے حامی عناصر اور تنظیموں کی سرگرمیوں کا معاملہ اٹھایا گیا۔

میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ نریندر مودی اس موقع پر ٹروڈو سے کافی ناراض تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق انھوں نے کہا کہ خالصتان کے حامی عناصر انڈین سفارتکاروں پر حملوں کے لیے لوگوں کو اُکسا رہے ہیں۔ وہ لوگوں کو انڈین سفارت خانوں پر حملہ کرنے کے لیے بھی اُکسا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب کینیڈا انہیں روکنے میں ناکام ہے۔

ان کے مطابق یہ وہ چیز ہے جو کینیڈا کے لیے بہت اہم ہے۔ کینیڈا تشدد کو روکنے اور نفرت کو کم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More