انڈیا کا چاند کی سطح پر اترنے کا خواب 23 اگست سنہ 2023 کو تیسری کوشش میں پورا ہوا۔ چندریان 3 نے چاند کے قطب جنوبی کی سطح پر لینڈنگ کی اور انڈیا اس خطے میں لینڈنگ کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔
لینڈنگ کے وقت وزیراعظم نریندر مودی ’برکس‘ سربراہی اجلاس کے لیے جنوبی افریقہ میں تھے۔ جوہانسبرگ سے ہی انھوں نے اسرو کے سائنسدانوں اور اہل وطن سے خطاب کیا اور انھیں چاند پر کامیاب لینڈنگ کے لیے مبارکباد دی۔
تاہم اسی دوران ہیوی انجینئرنگ کارپوریشن لمیٹڈ (ایچ ای سی) کے ملازمین جنھوں نے اسرو کے لیے کئی اہم کام کیے، اپنی 18 ماہ کی بقایا تنخواہ کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔
مرکزی حکومت کے مطابق سنہ 2003 سے 2010 کے درمیان ایچ ای سی نے موبائل لانچنگ پیڈسٹل، ہیمر ہیڈ ٹاور کرین، ای او ٹی کرین، فولڈنگ کم ورٹیکل ریپوزیشن ایبل پلیٹ فارم، ہوریزینٹل سلائیڈنگ ڈورز اسرو کو فراہم کیے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی حکومت نے یہ بھی واضح کیا کہ ایچ ای سی کو چندریان 3 کے لیے کوئی سامان بنانے کا اختیار نہیں دیا گيا تھا۔
ایچ ای سی میں مینیجر کے طور پر کام کرنے والے پوریندو دت مشرا کہتے ہیں کہ ’تکنیکی طور پر مرکزی حکومت درست ہو سکتی ہے کیونکہ چندریان 3 کے لیے کوئی علیحدہ لانچ پیڈ نہیں بنایا گیا لیکن سچ یہ ہے کہ ہمارے علاوہ انڈیا میں کوئی اور کمپنی لانچ پیڈ نہیں بناتی۔‘
احتجاج کرنے والے ملازمین کا کہنا ہے کہ رانچی کے دھروا میں واقع ہیوی انجینئرنگ کارپوریشن لمیٹڈ (ایچ ای سی) کے 2,800 ملازمین کو گذشتہ 18 ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔
810 ٹن کے لانچ پیڈ کے علاوہ ایچ ای سی نے چندریان کے لیے فولڈنگ پلیٹ فارم، ڈبلیو بی ایس، سلائیڈنگ ڈور بھی بنایا ہے۔ اس کے علاوہ، ایچ ای سی اسرو کے لیے ایک اور لانچ پیڈ بھی بنا رہا ہے۔
کوئی چائے بیچ رہا ہے تو کوئی اڈلی
ایچ ای سی کے ٹیکنیشن دیپک کمار اپراریا پچھلے کچھ دنوں سے اڈلی بیچ رہے ہیں۔ ان کی دکان رانچی کے دھروا علاقے میں پرانی اسمبلی کے بالکل سامنے ہے۔ وہ صبح اڈلی بیچتے ہیں اور دوپہر کو دفتر جاتے ہیں۔ شام کو وہ پھر اڈلی بیچتے ہیں اور پھر گھر چلے جاتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دیپک کا کہنا ہے کہ ’پہلے میں نے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے اپنے گھر کے اخراجات پورے کیے۔ اس سے مجھ پر دو لاکھ روپے کا قرض آ گیا اور مجھے ڈیفالٹر قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد میں نے رشتہ داروں سے پیسے لے کر اپنا گھر چلانا شروع کیا۔‘
’اب تک چار لاکھ روپے کا قرض لے چکا ہوں چونکہ میں نے کسی کو رقم واپس نہیں کی، اب لوگوں نے قرض دینا بند کر دیا ہے۔ پھر میں نے اپنی بیوی کے زیورات گروی رکھ کر کچھ دن تک گھر چلایا۔‘
اپنے گھر والوں کی بے بسی بتاتے ہوئے دیپک کہتے ہیں کہ ’جب میں نے سوچا کہ میں بھوک سے مر جاؤں گا، تو میں نے اڈلی کی دکان کھول لی، میری بیوی اچھی اڈلی بناتی ہیں۔
’اب میں روزانہ 300 سے 400 روپے کی اڈلی بیچ رہا ہوں، جس سے کبھی کبھی مجھے 50 روپے تو کبھی کبھی 100 روپے کا منافع ہوتا ہے۔ ابھی میں اسی سے اپنا گھر چلا رہا ہوں۔‘
دیپک اپراریا اصل میں انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے ہردا ضلع کے رہنے والے ہیں۔
سنہ 2012 میں انھوں نے ایک نجی کمپنی میں 25 ہزار روپے ماہانہ پر ملازمت چھوڑی اور آٹھ ہزار روپے کی تنخواہ پر ایچ ای سی میں شمولیت اختیار کی۔ امید تھی کہ چونکہ یہ سرکاری ادارہ ہے اس لیے مستقبل روشن ہوگا لیکن اب سب کچھ تاریک نظر آتا ہے۔
دیپک اپراریا کہتے ہیں کہ ’میری بیٹیاں روتی ہوئی گھر آتی ہیں۔ انھیں روتا دیکھ کر میرا دل ٹوٹ جاتا ہے لیکن میں ان کے سامنے نہیں روتا۔‘ یہ کہتے ہوئے ان کے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔
یہ صرف دیپک اپراریا کی حالت نہیں بلکہ ایچ ای سی سے وابستہ کچھ دوسرے لوگ بھی اسی طرح کے کام کر کے اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں۔
مثال کے طور پر مدھر کمار موموز بیچ رہے ہیں، پرسنا بھوئی چائے بیچ رہے ہیں، متھیلیش کمار فوٹوگرافی کر رہے ہیں، سبھاش کمار کو کار لون لینے کے بعد بینک نے ڈیفالٹر قرار دیا۔
سنجے پر چھ لاکھ روپے کا قرض ہے۔ پیسے کی کمی اور مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے ششی کمار کی ماں کی موت ہو گئی۔
ان جیسے کل 2800 ملازمین ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم ایک خاندان میں اوسطاً پانچ افراد کو لے لیں تو 14 ہزار سے زیادہ لوگ براہ راست اس بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔
تنخواہ کیوں نہیں مل رہی؟
راجیہ سبھا کے رکن پرمل ناتھوانی نے گزشتہ ماہ کے اجلاس (اگست 2023) میں ہیوی انڈسٹری کی وزارت سے ایچ ای سی سے متعلق کچھ سوالات پوچھے تھے۔
جواب میں حکومت نے کہا کہ ایچ ای سی کمپنیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ایک الگ اور خودمختار ادارہ ہے۔ اسے اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے اپنے وسائل خود پیدا کرنے پڑتے ہیں اور مسلسل خسارے کی وجہ سے اسے بھاری ذمہ داریوں کا سامنا ہے۔
صرف ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے ایچ ای سی کو فوری طور پر 153 کروڑ روپے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ بجلی کے بل اور سینٹرل سکیورٹی فورس (سی آئی ایس ایف) کے واجبات کی ادائیگی کے لیے تقریباً 125 کروڑ روپے کی ادائیگی کا چیلنج ہے۔
چندریان 3 میں ایچ ای سی کا حصہ
گزشتہ ماہ کے اجلاس میں راجیہ سبھا کے رکن پاریمل ناتھوانی نے پوچھا تھا کہ کیا ایچ ای سی کو چندریان 3 کے لیے لانچ پیڈ اور دیگر آلات بنانے کا اختیار دیا گیا؟
اس کے جواب میں وزیر مملکت کرشنپال گرجر نے کہا تھا کہ ایچ ای سی کو چندریان 3 کے لیے کوئی سامان بنانے کا اختیار نہیں تاہم انھوں نے اپنے جواب میں اعتراف کیا کہ 2003 سے 2010 کے درمیان ایچ ای سی نے موبائل لانچنگ پیڈسٹل، ہیمر ہیڈ ٹاور کرین، ای او ٹی کرین، فولڈنگ کم ورٹیکل ریپوزیشن ایبل پلیٹ فارم، ہوریزونٹل سلائیڈنگ ڈورز اسرو کو فراہم کیے ہیں۔
ایچ ای سی میں مینیجر کے طور پر کام کرنے والے پریندو دت مشرا کہتے ہیں کہ تکنیکی طور پر مرکزی حکومت درست ہو سکتی ہے کیونکہ چندریان 3 کے لیے کوئی علیحدہ لانچ پیڈ نہیں بنایا گیا لیکن سچ یہ ہے کہ ہمارے علاوہ انڈیا میں کوئی اور کمپنی لانچ پیڈ نہیں بناتی۔‘
’بظاہر لانچ پیڈ اور دیگر سامان جو ہم نے پہلے تیار کیا اور اسرو کو دیا، چندریان 2 اور چندریان 3 کو لانچ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ایسے میں اگر حکومت یہ کہے کہ اس مشن میں ایچ ای سی کا کوئی حصہ نہیں تو افسوس ایسا نہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بار لانچنگ کے وقت ایچ ای سی کے دو انجینیئر بھی وہ آلات لگانے گئے تھے جو ایچ ای سی نے اسرو کو دیے تھے۔