ایمی ایوارڈز کے لیے نامزد پاکستان کی دستاویزی فلم: ’معذوری کا شکار بچوں کے والدین ظالم نہیں مجبور ہوتے ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Sep 15, 2023

’یہی لڑکی جس کو ہم نے پہلے زنجیروں میں جکڑا ہوا پایا، اس نے برلن میں سپیشل اولمپکس کے ورلڈ گیمز میں ٹارچ لائٹ کی اور وہاں پر سپیشل اولمپکس سے منسلک تمام لوگ فلم کی وجہ سے اُس کی کہانی جانتے تھے۔ وہاں سب ہی آبدیدہ تھے۔‘

یہ الفاظ پاکستانی فلم میکر زیاد ظفر کے ہیں جنھوں نے ایمی کے لیے نامزد ہونے والی دستاویزی فلم ’ایز فار ایز دے کین رن‘ (As Far as they can Run) میں بطور معاون پروڈیوسر کام کیا۔

زیاد نے اپنے ساتھی فلم میکر نادر صدیقی کے ساتھ بی بی سی اردو کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ اُن کی فلم کی کہانی سندھ کے معذوری کے شکار تین بچوں پر مشتمل ہے، جو سپورٹس اور ایتھلیٹکس کے زریعے نہ صرف خود کو تبدیل کرتے ہیں بلکہ اپنے خاندان اور معاشرے کی سوچ کو بھی بدلتے ہیں۔

زیاد کے بقول ’بنیادی طور پر یہ فلم محبت کے بارے میں ہے کہ کسی انسان سے محبت سے پیش آنے یا اُس کو محبت کی نگاہ سے دیکھنے کی وجہ سے وہ کتنا بدل سکتا ہے۔‘

واضح رہے کہ پاکستان سے دستاویزی فلم ’ایز فار ایز دے کین رن‘ کو امریکہ میں ٹی وی سکرین کے سالانہ ایوارڈز ایمیز میں ’آؤٹ سٹینڈنگ ڈاکیومنٹری شارٹ‘ کے زمرے میں نامزد کیا گیا ہے۔

اس فلم کی ڈایریکٹر ایرانی نژاد امریکی فلم میکر تاناز ایشاگہین ہیں جبکہ پاکستانی فلم میکرز نادر صدیقی، زیاد ظفر اور حیا فاطمہ اقبال نے اس فلم کو بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

واضح رہے کہ اس فلم کی فیلڈ پروڈیوسر حیا فاطمہ اقبالایک بار آسکرز اور دو بار ایمی ایوارڈز جیت چکی ہیں جبکہ سنیماٹوگرافر نادر صدیقی ایک بار پہلے بھی ایمی ایوارڈ کے لیے نامزد ہو چکے ہیں۔

’ایمی ایوارڈ کی نامزدگی ملنا ہی بہت بڑا اعزاز ہے‘BBCنادر صدیقی اور زیاد ظفر دونوں ہی اپنی فلم کو ملنے والی ایمی ایوارڈز نامزدگی پر بے حد خوش اور شکرگزار ہیں

نادر صدیقی اور زیاد ظفر دونوں ہی اپنی فلم کو ملنے والی ایمی ایوارڈز نامزدگی پر بے حد خوش اور شکرگزار ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ انھوں نے یہ فلم سنہ 2020 میں کووڈ کی وبا پھیلنے سے پہلے عکس بند کرنا شروع کی تھی اور برسوں کی انتھک محنت کے بعد اُنھیں اس کا ثمر ملنا شروع ہوا۔

نادر صدیقی نے کہا کہ ’فلم کے لیے ایمی ایوارڈ کی نامزدگی ملنا ہی بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔‘

اپنی دستاویزی فلم میں شامل کرداروں میں سے ایک ’ثنا‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں فاخرانہ چمک نظر آئی۔

انھوں نے انتہائی جذباتی اور پُرجوش انداز سے بتایا کہ ’ہماری ڈاکیومنٹری کی کہانی کا سب سے بڑا حصہ اُن کرداروں میں تبدیلی ہے۔‘

’میر پور خاص کے ایک گاؤں میں رہنے والی بچی ثنا کا خاندان ایک غریب گھرانہ ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ ایک جانور کی طرح بندھی ہوئی تھی۔ بہت حیرانی اور تکلیف محسوس ہوئی کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔‘

نادر کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں میں معذوری کے شکار بچوں کے والدین ظالم نہیں بلکہ مجبور ہیں۔ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے انھیں یہ نہیں معلوم کہ سپیشل بچوں کے ساتھ کیسے برتاؤ کیا جائے۔

’والدین سے بات ہوئی تو احساس ہوا کہ یہ بُرے لوگ نہیں۔ یہ اپنے کھیتوں میں کام کرنے جاتے ہیں، بچی بڑی ہو رہی ہے، وہ غائب ہو جاتی ہے، دوسرے گاؤں میں چلی جاتی ہے اور اُس کو بات چیت کرنے اور سمجھانے میں بہت مشکل ہوتی ہے۔‘

اِس ضمن میں انھوں نے پاکستان میں سپیشل اولمپکس کو ’خاموش انقلاب‘ قرار دیا اور بتایا کہ وہ پاکستان بھر کے پسماندہ علاقوں سے ایسے بچوں پر کام کر رہے ہیں۔

سپیشل اولمپکس کے کام کا اثر تھا کہ ثنا اور دیگر بچوں کے اپنے والدین کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے۔

’اس سال اُس بچی ثنا کو ہم نے برلن (جرمنی) میں سپیشل اولپمکس کا ٹارچ جلاتے ہوئے دیکھا۔ تصور کریں کہ کتنا بڑا اور طویل سفر ہے کہ ایک بچی جو بستر سے بندھی ہوئی تھی، آجدنیا کے سامنے سپیشل اولمپکس کا ٹارچ جلا رہی ہے۔‘

ثنا کی طرح ایک اور بچے سجاول کے والد میں تبدیلی کو کیمرے کی آنکھ میں بند کرنے کا واقعہ سناتے ہوئے زیاد ظفر نے بتایا کہ ’سجاول کے باپ نے اپنے بچہ کے چہرے کو پیار سے سہلایا حالانکہ وہ ہمیشہ ایک روایتی دیسی باپ کی طرح اپنے بچے سے پیار کا اظہار نہیں کرتا تھا۔‘

’اُس موقع پر بچے کی آنکھوں میں جو ایک جھلک تھی حالانکہ وہ بول بھی نہیں سکتا اور اپنے جذبات کا اظہار بھی نہیں کر سکتا لیکن اُس لمحے میں الفاظ کی ضرورت نہیں تھی۔‘

زیاد نے مزید کہا کہ ’اُس کے باپ کی بہت مجبوریاں تھیں، کچھ قرض بھی تھا اور وہ بچے کو بالکل توجہ نہیں دے سکا تھا۔‘

’کیسے سمجھاؤں کہ غربت انسان کو کتنا بے بس کر دیتی ہے‘

پاکستان میں ذہنی اور جسمانی مغدور افراد کی صورتحال پر نادر کا مؤقف تھا کہ ملک میں ایسے افراد کے بارے میں آگاہی کی بے حد کمی ہے اور اُنھیں ناکارہ تصور کیا جاتا ہے۔‘

اُن کے خیال میں اس فلم کی بدولت خود انھوں نے بھی یہ سیکھا کہ کسی منظر کو دیکھتے ہی رائے قائم نہیں کر لینی چاہیے۔

’میں نے یہ دیکھا کہ میرا دور سے دیکھنے کا انداز بھی فوری رائے قائم کرنے جیسا تھا۔ جیسے پہلے دن میں نے دیکھا کہ ایک بچی بستر سے بندھی ہوئی ہے تو سب سے پہلی سوچ یہی تھی کہ کتنا ظلم ہے یہ۔ دو تین گھنٹے آپ اُن والدین سے بات کریں تو آپ سمجھتے ہیں کہ والدین کی بھی کتنی مجبوری ہے، اُن کے دل میں بھی وہی محبت ہے جو ماں یا باپ کو کسی بھی بچے سے ہوتی ہے لیکن وہ مجبور ہیں۔‘

انھوں نے بتایاکہ ’اس سال یہ فلم جب آسکرز کے لیے شارٹ لسٹ ہوئی اور امریکہ کے کچھ بڑے شہروں میں اس کی سکریننگ ہوئی تو ہر بار لوگ بعد میں سوال کرتے تھے۔‘

’میں ہمیشہ امتحان میں ہوتا تھا کہ پہلی دنیا کے اِن لوگوں کو کیسے سمجھاؤں کہ غربت انسان کو کتنا بے بس کر دیتی ہے۔ فلم میں ہم نے کوشش کی کہ ان چیزوں کے باوجود ان لوگوں کی انسانیت نمایاں ہو کر سامنے آئے۔‘

’بریکنگ نیوز اور بحث کے علاوہ ہمیں کچھ سوجھتا ہی نہیں‘

پاکستان بھر میں کئی فلم میکرز ہیں جو تفریحی اور فکشن فلموں کی بجائے دستاویزی فلمیں بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

حیا فاطمہ اقبال نے ایسے فلم میکرز کے کام کو فروغ دینے اور ایک پائیدار اور مضبوط کمیونٹی بنانے کے لیے ڈاکیومنٹری ایسوسی ایشن آف پاکستان (ڈیپ) کے نام سے گروپ بنا رکھا ہے۔

پاکستان میں سنجیدہ موضوعات پر بننے والی دستاویزی فلمیں دیکھنے کا رواج کم ہے۔ ایسے میں یہ پاکستانی فلم میکرز اپنی فلمیں کہاں دِیکھاتے ہیں، اِن سے کیسے پیسے کماتے ہیں اور اپنا گزر بسر کس طرح کرتے ہیں؟

میرے اس سوال پر نادر صدیقی نے جھٹ کہا کہ ’میرے خیال میں کسی کو بھی اس کام میں کاروبار یا پیسے کمانے کی وجہ سے نہیں آنا چاہیے بلکہ اپنے شوق اور جذبے کی وجہ سے آنا چاہیے اور اگر شوق و جذبہ آپ کے اندر ہو تو آپ کو لگتا ہے کہ میں کسی اور کام کے لیے بنا ہی نہیں ہوں۔‘

زیاد ظفر نے لقمہ دیا کہ ’اس کام میں کچھ دیوانگی، کچھ جذبہ، کچھ ضد اور کچھ پاگل پن ہے۔‘

ساتھ ہی انھوں نے منیر نیازی کا شعر پڑھا کہ ’کج شہر دے لوک وی ظالم سَن، کج سانوں مرن دا شوق وی سی۔۔۔‘ تو کچھ اُس طرح کی صورتحال ہے۔‘

نادر نے یہ بھی بتایا کہ اُنھیں افسوس ہے کہ اگر پاکستانی دستاویزی فلمیں دیکھنا ہوں تو آپ کو کسی نہ کسی انٹرنیشنل نیٹ ورک پر جانا پڑتا ہے اور وہاں سبسکرپشن فیس بھی دینی پڑتی ہے۔

’حالانکہ یہ فلم پاکستانیوں کے بارے میں ہے، پاکستانیوں نے بنائی لیکن وہ کسی بھی مقامی چینل پر اُنھیں دیکھنے کو نہیں ملے گی یا کسی مقامی نیٹ ورک پر اُسے نہیں ڈھونڈ سکیں گے کیونکہ اس سطح پر ڈاکیومنٹریز یا دستاویزی فلموں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔‘

پاکستان میں دسیوں نیوز اور انٹرٹینمینٹ چینلز ہیں تو وہ دستاویزی فلمیں کیوں نہیں نشر کرتے، اس سوال کے جواب میں زیاد بولے کہ ’ہم ٹی وی پر بریکنگ نیوز اور بحث و مباحثہ کے عادی ہو گئے ہیں اور اس کے علاوہ ہمیں کچھ سوجھتا ہی نہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More