سارہ شریف کے دادا نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ سارہ کے والد کے ہمراہ برطانیہ سے پاکستان آنے والے پانچ بچوں کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
پڑوسیوں نے بتایا کہ پیر کے روم پاکستانی پولیس کے درجنوں اہلکاروں نے سارہ کے دادا کے گھر پر چھاپہ مارا جہاں بچے چھپے ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ 10 سالہ سارہ کی لاش 10 اگست کو سرے کے شہر ووکنگ میں ان کے گھر سے ملی تھی۔ اس سے ایک دن قبل ان کے والد اور ان کی بیوی برطایہ سے فرار ہو کر پاکستان آ گئے تھے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتا چلا تھا کہ سارہ کے جسم پر ’متعدد شدید چوٹیں‘ تھیں۔
سارہ کے والد عرفان شریف اور ان کی سوتیلی والدہ بینش بتول اپنے پانچ بچوں کے ہمراہ برطانیہ سے فرار ہو گئے تھے، ان بچوں کی عمریں ایک سے 13 سال کے درمیان ہیں۔
سارہ کے دادا محمد شریف نے بی بی سی کو بتایا کے انھوں نے جہلم میں اپنے گھر میں بچوں کو چھپا کر رکھا ہوا تھا تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ بچے کتنے عرصے سے ان کے گھر میں موجود تھے۔
اس سے قبل محمد شریف نے اس بات کی تردید کی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ رابطے میں ہیں یا انھیں یہ معلوم ہے کہ وہ سب کہاں ہیں۔
عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس نے دن کے ساڑھے چار بجے سارہ کے دادا کے گھر پر چھاپہ مارا۔ اہلکاروں نے اس کارروائی کے دوران ٹریفک کو روک دیا تھا تاکہ کوئی اس واقعے کی ویڈیو نہ بنا سکے۔
محمد شریف نے پولیس ہر گھر میں نصب سی سی ٹی وی کیمرے اور گھر کا گیٹ توڑنے کا الزام لگایا ہے۔
پولیس نے تصدیق کی ہے کہ بچے ان کے پاس ہیں لیکن سارہ کے والد عرفان شریف، سوتیلی والدہ بینش بتول اور چچا فیصل ملک بچوں کے ساتھ نہیں تھے۔
BBC’ہمیں ڈر ہے کہ پاکستانی پولیس تشدد کر کے ہمیں مار ڈالے گی‘
اس سے قبل پانچ ستمبر کو سارہ شریف کے والد اور ان کی سوتیلی والدہ نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ وہبرطانیہ میں حکام کے ساتھتحقیقات میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔
سارہ شریف کی موت کے بعد ان کی سوتیلی والدہ بینش اور ان کے والد عرفان کا یہ پہلا عوامی رابطہ تھا۔
اس فوٹیج میں سارہ کے والد عرفان خاموش دکھائی دے رہے تھے جبکہ ان کی سوتیلی والدہ بینش بتول کو ایک نوٹ بُک سے پڑھ کر بیان دیتے دیکھا جا سکتا تھا۔
سرے پولیس قتل کی تفتیش کے سلسلے میں سارہ کے والد عرفان شریف، ان کی اہلیہ بینش بتول اور بھائی فیصل ملک سے بات کرنا چاہتی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ تینوں افراد 9 اگست کو برطانیہ سے واپس پاکستان گئے تھے اور پولیس انھیں تلاش کرنے میں تاحال ناکام رہی ہے۔
سارہ کی سوتیلی والدہ نے اپنے اس ویڈیو پیغام میں سارہ کی موت کو ایک حادثہ قرار دیا اور اس حوالے سے دو جملوں میں انتہائی مختصر بات کی تھی۔
سارہ کی سوتیلی والدہ نے دو منٹ 36 سیکنڈ کی اس ویڈیو میں پاکستانی پولیس پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ پولیس ان کے خاندان کے دیگر افراد کو خوفزدہ کر رہی ہے اور انھیں غیر قانونی طور پر حراست میں لے رہی ہے جبکہ ان کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
بینش بتول نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ’ہمارے روپوش ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ڈر ہے کہ پاکستانی پولیس تشدد کر کے ہمیں مار ڈالے گی۔‘
دوسری جانب جہلم پولیس کے سربراہ محمود باجوہ نے بی بی سی سے بات چیت میں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ خاندان کے افراد کو ہراساں کرنے اور تشدد کرنے کے تمامالزامات غلط ہیں۔
پولیس سربراہ کے مطابق اگر اہلِ خانہ کو پولیس سے کوئی خوف ہے تو وہ تحفظ حاصل کرنے کے لیے عدالت جا سکتے ہیں۔
بینش بتول نے ویڈیو کے اختتام پر کہا تھا کہ وہ برطانیہ کے حکام کے ساتھ تحقیقات میں تعاون کرنے کو تیار ہیں۔
بی بی سی کو سارہ کے والدین کی ویڈیو بھیجی گئی تھی تاہمبی بی سی اس اکاؤنٹ کی تصدیق کرنے سے قاصررہا ہے اور نہ ہی یہ تصدیق ہو سکی کہ یہ ویڈیو کس مقام پر فلمائی گئی تھی۔
واضح رہے کہ اب تک کی تفتیش کے مطابق سارہ کی موت کی حتمی وجوہات تاحال سامنے نہیں آ سکیں تاہم امکانظاہر کیا جا رہا ہے کہ سارہ کی موت غیر فطری انداز میں ہوئی۔
’سارہ اتنی بُری طرح زخمی تھی کہ اسے پہچان نہیں پائی‘
رواں ماہ سارہ کی حقیقی والدہ اولگا شریف نے پولینڈ کے ٹیلی ویژن کو بتایا کہ وہ سارہ کو ان زخموں کی وجہ سے مردہ خانے میں انتہائی مشکل سے پہچان سکی تھیں۔
سارہ شریف کی والدہ اور نانی کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کی میت کو مردہ خانے میں بمشکل پہچانا کیونکہ اس کا چہرہ بُری طرح زخمی تھا۔
سارہ کی والدہ اولگا شریف کا کہنا تھا کہ سارہ کے ایک گال پر سوجن تھی اور دوسری جانب چوٹیں تھیں۔
’آج بھی جب میں اپنی آنکھیں بند کرتی ہوں، تو میں دیکھ سکتی ہوں کہ میرا بچی کیسی لگ رہی تھی۔‘
پولش ٹیلی ویژن پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اولگا شریف کا کہنا تھا کہ وہ 2015 میں عرفان شریف سے علیحدہ ہو گئی تھیں۔ سارہ اور ان کے ایک بھائی ابتدا میں والدہ کے ساتھ رہتے تھے مگر بعدازاں عدالت نے بچوں کی کسٹڈی والد کے حوالے کر دی تھی۔
اولگا شریف بنیادی طور پر پولینڈ سے تعلق رکھتی ہیں اور برطانیہ میں رہتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پہلے تو وہ اپنے دو بچوں کو باقاعدگی سےملتی تھیں لیکن پھر حالات مشکل ہو گئے۔ انھوں نے ٹی وی چینل کو بتایا کہ ’ان کی سوتیلی والدہ نے مجھے کہا کہ میں مزید نہ آؤں، کیونکہ بچے مجھے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔‘
’یہ معمول کی بات نہیں ہے کہ ایک مرتبہ بچے خوش ہوتے ہیں، اور اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ پہلے ماں سے کون بات کرے گا، اور پھر بچے مجھ سے فون پر بھی بات نہیں کرنا چاہتے اور مجھے بدترین ناموں سے پکارتے ہیں۔‘
سارہ کی نانی سلویا کرز کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی چاہتی ہیں کہ عرفان شریف کی کسٹڈی میں موجودہ سارہ کے بھائی کو واپس کر دیا جائے۔
’اولگا اسے اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو واپس لانا چاہتی ہیں۔‘
’میرا نواسا 13 سال کا ہے، اس لیے اسے معلوم ہو گا کہ سارہ کے ساتھ کیا ہوا۔‘
اولگا کا کہنا تھا کہ جب ان کی شادی عرفان شریف سے ہوئی تھی تو انھوں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔ بی بی سی ان کے دعووں کا جواب دینے کے لیے عرفان شریف سے رابطہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
’پوتی کے مرنے کا گہرا صدمہ ہے، میرے بیٹے نے بتایا یہ حادثہ تھا‘
10 سالہ سارہ شریف کے دادا محمد شریف کا کہنا ہے کہ سارہ کے والد کے مطابق ان کی ’بیٹی کی موت محض ایک حادثہ تھی۔‘
عرفان شریف کے والد محمد شریف نے بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو پاکستان آنے کے بعد دیکھا تھا۔
سارہ کے دادا کے مطابق ’یہ ایک حادثہ تھا تاہم میرے بیٹے نے یہ نہیں بتایا کہ یہ حادثہ کیسے ہوا۔ اس کے بعد عرفان نے خوفزدہ ہو کر برطانیہ چھوڑ دیا تھا۔‘
سارہ کے دادا نے تصدیق کی تھی کہ انھوں نے اپنے بیٹےعرفان کو پاکستان میں اس وقت دیکھا جب وہ جہلم آئے تھے جہاں نہ صرف ان کا بچپن گزرا تھا بلکہ وہاں اب بھی ان کے خاندان کے دیگر افراد رہائش پذیر ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر سارہ کی موت ایک حادثہ تھی تو عرفانپاکستان کیوں چلے آئے تو محمد شریف نے جواب دیا کہ ’ڈر کی وجہ سے۔‘
’اس کی بیٹی مر گئی تھی اور ظاہر ہے جب آپ اتنے بڑے صدمے کا سامنا کرتے ہیں تو آپ ٹھیک طرح سے سوچ بھی نہیں سکتے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ وہ اپنے بیٹے کے پاکستان آنے کے فیصلے کو کس طرح دیکھتے ہیں تو محمد شریف نے کہا تھا کہ ’میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ انھیں کیس کا سامنا کرنا چاہیے تھا اور پاکستان آنے کی بجائے وہیں رکنا چاہیے تھا۔‘
عرفان کے والد نے دعویٰ کیا تھا کہ ’میرا بیٹا بالآخر برطانیہ واپس جائے گا اور اپنے کیس کا سامنا کرے گا۔‘
یاد رہے کہ برطانیہ میں 10 سالہ پاکستانی بچی سارہ کے قتل کے معاملے پر تین افراد کی بین الاقوامی سطح پر تلاش کا کام جاری ہے۔ پاکستان میں پولیس کئی ہفتوں سے عرفان شریف، ان کے 28 سالہ بھائی فیصل ملک اور ان کی 29 سالہ بیوی بینش بتول کی تلاش کر رہی ہے۔
برطانوی پولیس کے مطابق انھیں 10 اگست کی صبح اطلاع ملی تھی کہ انگلینڈ کی کاؤنٹی سرے کے قصبے ووکنگ کے ایک گھر میں بچی مردہ حالت میں پائی گئی ہے۔
بچی کی لاش 10 اگست کو مقامی وقت کے مطابق تقریباً دو بج کر 50 منٹ پر ان کے خالی گھر سے ملی تھی۔ پوسٹ مارٹمکی رپورٹ میں سارہ کے جسم پر بے شمار گہرے زخم پائے گئے ہیں۔
برطانیہ کی پولیس سارہ کی موت کی تفتیش کے سلسلے میں خاندان کے تین افراد سے بات کرنا چاہتی ہے لیکن وہ تینوں افراد نو اگست کو سارہ کی لاش ملنے سے ایک دن قبل برطانیہ چھوڑ کر پاکستان جا چکے تھے۔
BBCسارہ کے دادا اپنی پوتی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بظاہر پریشان بھی دکھائی دے رہے تھے’سارہ میری بہت پیاری پوتی تھی‘
سارہ کے دادا نے اپنی پوتی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بظاہر پریشان بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ’مجھے اپنی پوتی کے مرنے کا گہرا صدمہ ہے اور اس کے جانے کا غم اب زندگی بھر میرے ساتھ رہے گا۔‘
انھوں نے کہا تھا کہ ’سارہدو مرتبہ پاکستان آئی تھیں۔ اس کی ہر بات بہت پیاری تھی۔ وہ میری بہت پیاری پوتی تھی۔‘
اس وقت انھوں نے اپنے بیٹے عرفان شریف کے لیے براہ راست پیغامبھی دیا تھا کہ ’وہ جہاں بھی ہوں گے، وہ یہ بات سن سکیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ انھیں سامنے آ کر اپنے کیس کا دفاع کرنا چاہیے، چاہے کچھ بھی ہو۔ انھیں پولیس کی تفتیش میں پوچھے گئے سوالوں کے جواب دینے چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انھیں چھپ کر رہنا چاہیے۔‘