BBCزلزلے میں اپنی 10 سالہ بیٹی خلیفہ کو کھو دینے والی خاتون
مراکش کے جنوب مغربی قصبے ’تافغاغت‘ میں حالیہ زلزلے سے ہونے والی تباہی سے متعلق ہمیں وہاں سب سے پہلے ملنے والے ایک رہائشی نے بڑے واضح انداز میں بتایا۔
انھوں نے کہا کہ ’اس گاؤں کے لوگ یا تو ہسپتال میں ہیں یا مر چکے ہیں۔‘
جب ہم اُس قصبے میں ملبے کے ڈھیر کی چوٹی پر پہنچے اور ارد گرد کا جائزہ لیا تو یہ اندازہ ہوا کہ یہاں بھلا کیسے کوئی صحیح سلامت بچا ہوگا۔
اینٹوں اور پتھروں سے بنے اُن کے روایتی گھروں کا اس شدت کے زلزلے کے ساتھ کوئی مقابلہ ممکن ہی نہیں تھا۔
یہاں کے 200 رہائشیوں میں سے 90 کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے اور بہت سے لوگ تاحال لاپتہ ہیں۔
حسن، جنھوں نے خود کو بچانے کے لیے ملبے کے نیچے سے نکلنے کا راستہ بنایا، نے کہا کہ ’ان کے پاس بھاگنے کا موقع نہیں تھا۔ ان کے پاس خود کو بچانے کا وقت ہی نہیں تھا۔‘
حسن کا کہنا ہے کہ ان کے چچا ابھی تک ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور ’اب کوئی اُمید نہیں ہے کہ انھیں زندہ نکال لیا جائے گا۔‘
یہاں کسی کے پاس نا تو مشینری ہے اور نا ہی کوئی ایسا کرنا جانتا ہے۔ ابھی تک یہاں کوئی مدد کے لیے بھی نہیں پہنچ پایا۔
حسن کہتے ہیں کہ ’یہ سب اللہ کی طرف سے ہے، اس لیے ہم اُس کی رضا میں راضی ہیں۔ لیکن اب ہمیں اپنی حکومت کی مدد کی ضرورت ہے۔ وہ لوگوں کی مدد کرنے میں دیر کر رہی ہے۔‘
حسن نے مزید کہا کہ مراکش کے حکام کو بین الاقوامی امداد کی ہر پیشکش کو قبول کرنا چاہیے، لیکن خدشہ ہے کہ حکومت کو اُن کا غرور ایسا کرنے سے روک سکتا ہے۔
ایک دوسری جانب ہم نے یہ دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک فرد کو تسلی دے رہے ہیں۔
BBCزلزلے میں اپنی بیوی اور تین بیٹوں کو کھو دینے والے عبد الرحمن اپنے بھتیجے کے ساتھ
ہمیں پتہ چلا کہ ان کا نام عبد الرحمن ہے۔ انھوں نے اس تباہ کُن زلزلے میں اپنی بیوی اور اپنے تین بیٹوں کو کھو دیا ہے۔
انھوں نے ایک ملبے کے ڈھیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا گھر وہاں تھا،‘ مگر اب ہر جانب صرف ملبہ ہی دکھائی دے رہا ہے۔
’آپ صرف سفید کمبل اور کچھ فرنیچر دیکھ سکتے ہیں باقی سب تو ختم ہوگیا۔‘
عبدالرحمٰن کا کہنا ہے کہ وہ اُس پیٹرول سٹیشن سے بھاگ کر اپنے گھر پہنچے جو وہاں سے 3 کلومیٹر (1.9 میل) کے فاصلے پر تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ انھوں نے بے اختیار ہو کر اپنے بچوں کو پکارنا شروع کر دیا، اُن کی یہ چیخ و پکار ایسا ہی کرنے والے دوسرے لوگوں کی آوازوں میں شامل تو ہوئی مگر اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔
اُنھوں نہ کہا کہ ’ہم نے انھیں کل دفنایا۔‘
’جب ہم انھیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے تو دیکھا کہ وہ سب کے سب ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے، تینوں لڑکے سوئے ہوئے تھے۔ انھیں زلزلے نے کُچھ بھی کرنے کا موقع نہیں دیا۔‘
پہاڑ پر اس گاؤں کو دیگر شہروں سے جوڑنے والی سڑک سے کُچھ فاصلے پر ایک بڑے خیمے میں درجنوں خاندان بے یار و مدد گار اکٹھے بیٹھے ہیں۔
ہر طرف سے ناقابل برداشت رونے اور سسکیوں کی آوازیں سُنائی دے رہی ہیں۔
مقامی لوگوں کی تکلیف میں یہ اضافہ اُس وقت ہوا جب ایک 10 سالہ بچی خلیفہ کی لاش کو ملبے سے نکالا گیا۔
اس غم کی شددت کا اندازہ لگانا نا مُمکن ہے۔ ایک جانب ایک خاتون غم سے نڈھال ہو کر حواس کھو بیٹھتی ہیں اور دوسری جانب ایک خاتون بے ساختہ کُرسی پر گر کر رونے لگتی ہیں۔
مراکش کا المیہ یہ ہے کہ یہ منظر اٹلس پہاڑوں کے اس پار ہر گاؤں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
مراکش کی یہ آبادیاں روایتی طور پر شاید آج کل کی اس جدید دنیا سے کچھ الگ رہنے میں خوش تھیں مگر اب یہی لوگ بیرونی دُنیا کی جانب سے امداد کی مُنتظر ہیں، اُن کی مدد جتنی جلدی کی جا سکے اُتنا ہی اچھا ہوگا۔