مراکش میں زلزلہ: ’جیسے ہی ملبہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں، متاثرین اور لاشیں ملتی ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Sep 10, 2023

Getty Images

’میں اس وقت کچھ نہیں کر سکتا میں بس سوگ کی کیفیت میں دنیا سے دور رہنا چاہتا ہوں۔‘

مراکش کی ہائی اٹلس پہاڑیوں کے قریب کے دیہات کے رہائشی لحسن کی بیوی اور چار بچے زلزلے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ انھوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ میرا سب کچھ ختم ہو گیا ہے،‘

مراکش میں زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ اتنی ہی تعداد اس وقت زخمی افراد کی بھی ہو گئی ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق 1400 سے زائد افراد شدید زخمی ہیں اور اس زلزلے کے باعث مراکش کے جنوبی صوبوں میں زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

مراکش کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ وسطی مراکش میں 6.8 شدت کے زلزلے سے زیادہ تباہی پہاڑی علاقوں میں ہوئی ہے، جہاں پہنچنا مشکل ہے۔

مراکش کے سینیٹر اور سابق وزیر سیاحت لحسن حداد نے بی بی سی کو بتایا کہ دور دراز دیہاتوں میں ہائی اٹلس پہاڑوں کے مشکل علاقے کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں مشکل پیدا ہوئی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ یہاں موجود عمارتیں کئی صدیاں پرانی ہیں اور ان میں سے کچھ ’پہاڑوں پر بنی ہوئی ہیں۔‘

اس کے باوجود امدادی ٹیمیں بشمول فوج نے اہم کردار ادا کیا ہے اور اب تک وہ کئی دیہاتوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وہاں پہنچ کر وہ ’جیسے ہی ملبے کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، انھیں متاثرین مل رہے ہیں، لاشیں مل رہی ہیں۔‘

جمعے کی رات دیر گئے ملک کے وسط میں واقع صوبہ الحوز میں ریکٹر سکیل پر 6.8 کی شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا گیا۔

امریکی جیولوجیکل سروے نے بتایا ہے کہ زلزلے کا مرکز مراکش کے جنوب مغرب میں 71 کلومیٹر ’ہائی اٹلس ماؤنٹینز‘ پہاڑوں میں تھا۔ اس زلزلے کی گہرائی 18.5 کلومیٹر تھی۔

زلزلہ مقامی وقت کے مطابق رات 11:11 منٹ پر آیا۔ اس زلزلے کے 19 منٹ بعد 4.9 کی شدت کا آفٹر شاک آیا۔

Getty Images

مراکش شہر کے پرانے حصے مدینہ کے ایک رہائشی نے بی بی سی کو بتایا کہ بہت سی چیزیں تباہ ہو گئی ہیں۔

لتیفہ کہتی ہیں ’پرانے مدینہ میں زیادہ تر گھر تباہ ہو گئے ہیں، زیادہ تر دکانیں، تقریباً سب کچھ۔ مدینہ اب کچھ اور ہی ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں تباہی صرف شہر میں نہیں ہوئی دور دراز کے دیہاتوں میں زیادہ نقصان ہوا ہے اور وہاں لوگ ابھی بھی امداد کے منتظر ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’لوگ ابھی بھی بڑے پتھروں کے نیچے ہیں، لوگ اب بھی تکلیف میں ہیں اور لوگ ان دیہاتوں میں دوسرے لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن پہنچ نہیں پا رہے۔‘

یوسف ات علی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ مراکش شہر میں اپنے دوستوں کے ساتھ باہر بیھتے ہوئے تھے جب ’آسمان سے گرد گری۔‘

یوسف کہتے ہیں کہ ’سب کچھ گر گیا ہم بس بھاگنے کا ہی سوچ سکے۔‘

مراکش کے رہائشی فیصل بدور نے بتایا کہ ’اس زلزلے کا زور اور شدت ہماری عمارت میں تقریباً تین دفعہ محسوس کیا گیا۔ اس خوف و ہراس کے فوراً بعد لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔‘

مدینہ کے مرکز میں موجود مسجد جامع الفناء کے گرد اینٹوں اور ملبے کا ڈھیر گرا ہوا ہے۔

منار گر چکا ہے اور کچھ ملبے نے ایک گاڑی کے بونٹ کو پچکا دیا ہے۔

اس جگہ سے کچھ دورے پر اپنی دکانوں کے باہر کاروباری افراد گرد سے لپٹی سڑک کو صاف کر رہے ہیں۔

سورج کے طلوع ہونے کے بعد جو خاندان آفٹر شاک کے ڈر سے کھلی جگھوں پر بھاگ گئے تھے انھوں نے اپنے بستر باندھ لیے۔ لیکن انھیں ابھی بھی یہ یقین نہیں ہے کہ کب گھر جانا محفوظ ہو گا۔

مراکش میں آنے والے شدید زلزلے کی وجہ کیا بنی؟

بی بی سی کے نامہ نگار برائے سائنس جانتھن ایموس کے مطابق وسطی مراکش میں آنے والا 6.8 شدت کا زلزلہ 1900 سے پہلے اس علاقے میں آنے والا سب سے خطرناک زلزلہ ہے۔

جمعہ کو مقامی وقت کے مطابق رات 11 بج کر 11 منٹ پر آنے والے اس زلزلے میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ بھی پایا جا رہا ہے۔

امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کا مرکز ماراکیش کے جنوب مغرب میں 71 کلومیٹر (44 میل) بلند اٹلس پہاڑوں میں 18.5 کلومیٹر کی گہرائی میں تھا۔

اس زلزلہ کی وجہ اُن پلیٹس کے درمیان ہونے والا تصادم تھا جو یورپی اور افریقی براعظموں کے نیچے پائی جاتی ہیں۔

تاہم مراکش واقعی وہ جگہ نہیں ہے جہاں اتنے طاقتور زلزلے آتے ہیں۔

اس سست (4 ملی میٹر/سال) ارضیاتی تصادم سے زیادہ تر زلزلے کی سرگرمی بحیرہ روم میں مزید مشرق میں، اٹلی، یونان اور ترکی کی جانب جاتی محسوس ہو رہی ہے۔

اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے 1900 کے بعد سے، 6.0 کی شدت جیسا کوئی زلزلہ جس کا مرکز 500 کلومیٹر (300 میل) کے اندر ہو محسوس نہیں کیا گیا۔

اس ناواقفیت کی وجہ سے اس حد تک خطرناک نتائج کا آج سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی یاداشت میں نا تو کوئی ایسا واقعہ ہے اور نا ہی اُن کی اس حوالے سے کوئی تیاری ہے۔

اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ رات کو آنے والے زلزلوں میں مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ گرنے والی عمارتوں کے اندر لوگوں کے ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

امریکی جیولوجیکل سروے ایک ایسے ماڈل پر کام کرنے کی کوشش میں ہے کہ جو ہلاکتوں اور معاشی نقصانات کے ممکنہ پیمانے کا تخمینہ لگاتا ہے۔ اس واقعے کے مطابق لگائے جانے والے تخمینے کی مطابق ہلاکتوں کی تعدد چند ہزار ہو سکتی ہے۔

اس لیے موجودہ تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے اور آفٹر شاکس کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسے میں یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ عین مُمکن ہے کہ آفٹر شاکس میں کوئی جھٹکا حالیہ زلزلے سے تقریباً ایک درجہ شدت سے کم بھی ہو۔

لیکن اس سے بھی چھوٹے جھٹکے پہلے سے تباہ شدہ عمارتوں کو گرانے کا زیادہ خطرہ رکھتے ہیں۔

مراکش میں گذشتہ دہائیوں میں آنے والے خطرناک زلزلےGetty Images

مراکش اس حالیہ زلزلے سے قبل بھی چند شدید زلزوں کا سامنا کر چُکا ہے، جن میں سے ایک سنہ 2004 کا زلزلہ بھی شامل ہے۔

اس کے بعد مراکش کے شمال مشرق میں الحوسیمہ میں زلزلہ آیا جس میں دستیاب اعدادو شمار کے مطابق 628 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اور سنہ 1960 میں اگادیر کے زلزلے میں 12 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

مراکش میں زلزلے کی تاریخ اور ہونے والی جانی نقصان کو دیکھ کر اس مرتبہ ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

گزشتہ رات آنے والے زلزلے کا مرکز اٹلس پہاڑوں میں تھا۔ بہت سے دور دراز دیہاتوں میں اب بھی پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس بڑی تباہی کے پیمانے کے بارے میں جاننے میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔

’یوں لگا جیسے ساتھ والے کمرے کی دیواروں کو کوئی زور دار طریقے سے پیٹ رہا ہے‘BBC

مراکش میں چھٹیاں گزارنے کے لیے آنے والی ایک برطانوی سیاح لوریلا پامر نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’اچانک سے کمرہ ہلنے لگا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ساتھ والے کمرے کی دیواروں کو کوئی انتہائی زور دار طریقے سے پیٹ رہا ہے جیسے گرانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

لوریلا پامر نے مزید کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ ایسی صورتحال میں ایک دم سے اندازہ نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے تب تک کہ آپ کے ارد گرد لگی تصاویر کے فریمز پہلے ہلنا اور پھر گرنا شروع ہو جائیں اور آپ کا بیڈ خطرناک انداز میں ہلنا شروع ہو نہ جائے۔‘

ہیمپشائر سے تعلق رکھنے والی 21 برس کی کیمیکل انجینئرنگ کی طالبہ کلارا بینیٹ اپنے والدین اور بھائی کے ساتھ مراکش میں چھٹیوں پر ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میں ابھی اپنے دانت صاف کر رہی تھی کہ پورا فرش ہلنے لگا۔ اس کی بہت خوفناک آواز بھی تھی۔‘

خوش قسمتی سے، ریاد (ایک روایتی گھر) جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم سڑک پر نکل آئے۔ ہمارے اردگرد موجود عمارتیں گر چکی تھیں۔‘

Getty Images

پرانے شہر سے باہر نکلنے کے لیے جہاں تمام عمارتیں ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں، ’انھیں کھلی جگہ میں جانے کے لیے گلیوں اور تنگ راستوں سے گزرنا اور ملبے کے اوپر سے ہو کر جانا پڑا۔‘

وہ مزید کہتی ہیں، ’جب ہم نے اس بات کا یقین کر لیا کہ یہ عمارت محفوظ ہے تو ہم واپس آ گئے۔‘

انھوں نے کہا ’وہاں سب سب لوگ ایک جان ہو کر رہتے ہیں اس بات کا احساس تب ہوا جب لوگ معذور افراد کو لے کر جا رہے تھے، ساتھ ہی پانی اور کھانا فراہم کررہے تھے۔‘

اگرچہ وہ سب شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہوئے مگر اب بدھ کو اُن کی واپسی ہے۔

وہ اس بارے میں جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ’ہم نے واپس جانے کے لیے پروازوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے لیکن سب کچھ مکمل طور پر بک ہے۔

’ہم جاننا چاہیں گے کہ آگے کیا کرنا ہے اور ہمیں کیا مدد مل سکتی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More