یہ 16 اکتوبر 1952 کا دن تھا اور دہلی کا فیروز شاہ کوٹلہ میدان تھا۔ اس دن کا چڑھتا سورج کرکٹ کی دنیا میں ایک تاریخی لمحہ لے کر آیا۔
اس دن پاکستان اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیل رہا تھا اور اس کے سامنے انڈیا کی ٹیم تھی۔ مگر اس میچ سے جڑی ایک اور دلچسپ حقیقت بھی ہے۔
یہ حقیقت ہے تین کھلاڑیوں کے بارے میں جن کے نام عبدالحفیظ کاردار، امیر الٰہی اور گل محمد ہیں۔ یہ تین ایسے کھلاڑی تھے جو انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے ہیں۔
یہ تینوں کھلاڑی انڈیا اور پاکستان کے اس پہلے میچ میں بھی میدان میں تھے۔ گل محمد انڈیا کی طرف سے کھیل رہے تھے جبکہ عبدالحفیظ کاردار اور امیر الٰہی پاکستان کی طرف سے کھیل رہے تھے۔
اس رپورٹ میں ہم ان تینوں کھلاڑیوں کے بارے میں بات کریں گے۔
عبدالحفیظ کاردارGetty Images
عبدالحفیظ کاردار کو وہ کرکٹر سمجھا جاتا ہے جنھوں نے پاکستانی کرکٹ کے ابتدائی سالوں میں ملکی کرکٹ کو نئی جہت دی۔ عبدالحفیظ کاردار نے پاکستان کے لیے اپنے پہلے میچ میں بطور کپتان ٹیم کی قیادت کی تھی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی ویب سائٹ کے مطابق عبدالحفیظ کاردار کو ’فادر آف پاکستانی کرکٹ‘ کہا جاتا ہے۔
عبدالحفیظ کاردار نے سنہ 1952 سے سنہ 1958 تک پاکستان کے لیے کل 23 ٹیسٹ میچ کھیلے۔ انھوں نے ان تمام میچوں میں پاکستان کی کپتانی کی۔
17 جنوری 1925 کو لاہور میں پیدا ہونے والے عبدالحفیظ کاردار کی کرکٹ کے کھیل میں مہارت لاہور میں اسلامیہ کالج کے دنوں سے ہی نمایاں تھی۔ اسلامیہ کالج اس زمانے کا معروف تعلیمی ادارہ تھا۔
سنہ 1947 میں انڈیا اور پاکستان کی تقسیم سے قبل لاہور کا اسلامیہ کالج پنجاب کے ٹیسٹ کرکٹرز کی نرسری تھا۔
عبدالحفیظ کاردار نے مختلف ٹیموں کی جانب سے کرکٹ بھی کھیلی۔ انھوں نے 174 فرسٹ کلاس میچوں میں 6,832 رنز بنائے جس میں 8 سنچریاں بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے بطور باؤلر 344 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔
Getty Imagesپہلا میچ انڈیا کے لیے کھیلا
عبدالحفیظ نے سنہ 1946 میں ہندوستان کے لیے پہلا میچ کھیلا جب انھیں دورہ انگلینڈ کے لیے ہندوستانی ٹیم میں منتخب کیا گیا تھا۔
عبدالحفیظ نے ہندوستان کے لیے تین ٹیسٹ میچ کھیلے اور مجموعی طور پر انھوں نے ان میچوں میں 80 رنز بنائے۔
ای ایس پی این کرک انفو کے مطابق وہ دورہ انگلینڈ تک عبدالحفیظ کے نام سے کھیلا کرتے تھے۔ اس دورے کے بعد انھوں نے اپنے نام کے ساتھ خاندانی نام ’کاردار‘ بھی استعمال کرنا شروع کر دیا۔
انگلینڈ کے اس دورے کے بعد عبدالحفیظ کاردار انگلستان میں ہی رہے۔ وہاں انھوں نے وارِکشائے کاؤنٹی کے لیے خوب کرکٹ کھیلی۔
عبدالحفیظ بائیں ہاتھ کے بلے باز تھے اور اپنی دھماکہ خیز بلے بازی کے لیے جانے جاتے تھے۔انھیں کریز سے باہر نکلنے اور کسی بھی باؤلر کی خوب پٹائی کرنے اور کسی بھی میچ کی صورتحال میں بہتر کھیل پیش کرنے کے لیے مشہور تھے۔
جب وہ انگلینڈ سے واپس آئے تو پاکستان ایک ملک بن چکا تھا اور عبدالحفیظ کاردار نے اس نئے ملک کے پہلے کپتان کی ذمہ داری سنبھالی۔
Getty Imagesپاکستانی کرکٹ کو عبدالحفیظ کاردار نے فروغ دیا
عبدالحفیظ کاردار کی کپتانی میں ہی پاکستان کو سنہ 1951 میں ٹیسٹ کیپ یعنی عالمی سطح پر ٹیسٹ میچ کھیلنے والے ملک کے طور پر شناخت ملی۔ ایک سال بعد انڈیا کے اپنے پہلے دورے پر عبدالحفیظ کاردار کی کپتانی میں، پاکستان نے انڈیا کو دوسرے ٹیسٹ میچ میں شکست دی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی ویب سائٹ کے مطابق عبدالحفیظ کاردار کی کپتانی میں پاکستان نے جنوبی افریقہ کے علاوہ اس وقت پانچ ٹیسٹ ٹیموں کے خلاف فتوحات حاصل کیں۔
ان فتوحات کا سلسلہ پہلی سیریز سے ہی شروع ہوا۔
عبدالحفیظ کاردار کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی کھیل سے جڑے رہے۔
انھوں نے 1972-1977 تک پاکستان کرکٹ بورڈ (اس وقت بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ اِن پاکستان) کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
عبدالحفیظ کاردار کے دور میں پاکستان کی کرکٹ کو جدید بنانے کے لیے کافی کام کیا گیا۔
عبدالحفیظ کاردار نے سیاست میں بھی قسمت آزمائی کی۔ وہ سنہ 1970 میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انھیں بعد میں سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا۔
گُل محمد
یہ 8 مارچ 1947 کی بات ہے، وڈودرا کے مقام پر ہولکر اور بڑودا کی ٹیموں کے درمیان رنجی ٹرافی کا فائنل میچ جاری تھا۔ بڑودا کا سکور تین وکٹوں کے نقصان پر 91 رنز تھا۔
گل محمد میدان میں اترے، انھوں نے عظیم سابق ہندوستانی بلے باز وجے ہزارے کے ساتھ چوتھی وکٹ کے لیے 577 رنز کی شاندار شراکت داری کی۔ گل محمد نے 8 گھنٹے 53 منٹ تک بیٹنگ کی اور 319 رنز بنائے۔
15 اکتوبر 1921 کو لاہور میں پیدا ہونے والا یہ پنجابی کرکٹر بھی ان خاص بین الاقوامی کرکٹرز میں سے ایک ہے جنھوں نے انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے بین الاقوامی کرکٹ کھیلی ہے۔
گل محمد نے انڈیا کے لیے آٹھ جبکہ پاکستان کے لیے ایک ٹیسٹ میچ کھیلا ہے۔
گل محمد لیفٹ آرم آل راؤنڈر تھے، جن کی اچھی فیلڈنگ بھی شائقین کے دل موہ لیتی تھی۔ گل محمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاتھ سے مچھلی بھی آسانی سے نہیں نکل سکتی تھی۔
Getty Images
عبدالحفیظ کاردار کی طرح گل محمد بھی اسلامیہ کالج لاہور کا تحفہ تھے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی ویب سائٹ کے مطابق 1938-39 میں گل محمد نے اپنا پہلا میچ 17 سال کی عمر میں کھیلا۔
گل محمد نے فرسٹ کلاس کرکٹ (ڈومیسٹک سیزن) میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ کئی سالوں کی مسلسل اچھی کارکردگی کے بعد، انھیں سنہ 1946 میں انڈیا کی ٹیم میں دورہ انگلینڈ کے لیے منتخب کیا گیا۔ پہلے ٹیسٹ میچ میں وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔
انڈیا کی آزادی کے بعد وہ سابق ہندوستانی کرکٹر لالہ امرناتھ کی قیادت میں 1947-48 میں آسٹریلیا کے دورے کے لیے ہندوستانی ٹیم کا حصہ تھے۔
اس دورے پر ہندوستانی ٹیم کی کارکردگی انتہائی خراب رہی۔ گل محمد نے بھی پانچ ٹیسٹ میچوں میں صرف 130 رنز بنائے لیکن انھوں نے اپنی عمدہ فیلڈنگ سے سب کو حیران کردیا۔
انھیں پاکستان کے خلاف پہلے دو میچوں میں بھی انڈین ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ پاکستان میں جا کر آباد ہو گئے۔
سنہ 1956-57 میں انھیں پاکستان ٹیم کے لیے منتخب کیا گیا۔ کراچی میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گئے اس میچ میں انھوں نے دونوں اننگز میں 39 رنز بنائے۔ اس کے بعد انھیں کاؤنٹی کرکٹ میں کافی کامیابی ملی۔
سنہ 1992 میں گل محمد طویل علالت کے بعد لاہور میں فوت ہوئے۔
امیر الٰہیGetty Images
لاہور میں پیدا ہونے والے امیر الٰہی سے دو خاص باتیں وابستہ ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ وہ ان چند کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ہندوستان اور پاکستان دونوں کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی۔
اس کے ساتھ ہی ان کا شمار دنیا کے 20 معمر ترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔
امیر الٰہی یکم ستمبر 1908 کو پیدا ہوئے۔
امیر الٰہی ایک بار انڈیا کے لیے کھیل چکے ہیں اور وہ پانچ بار پاکستان ٹیم کی طرف سے کھیلے۔ انھوں نے سنہ 1952-53 میں انڈیا میں پاکستان کے لیے پانچ ٹیسٹ میچ بھی کھیلے۔
کولکتہ میں کھیلے گئے اپنے آخری ٹیسٹ میچ کے وقت الٰہی 44 سال کے تھے۔
امیر الٰہی نے ’میڈیم پیسر‘ کے طور پر کھیلنا شروع کیا اور بعد میں لیگ بریک بولر بن گئے۔
وہ ٹیسٹ میچوں میں کچھ خاص نہیں کر سکے لیکن رنجی ٹرافی میں ان کا ریکارڈ شاندار رہا۔ رنجی ٹرافی میں انھوں نے 24.72 کی اوسط سے 194 وکٹیں حاصل کیں۔
سنہ 1946-47 میں پاکستانی شہری بننے سے ٹھیک پہلے، بڑودہ میں رنجی ٹرافی جیتنے میں ان کی شاندار کارکردگی کا اہم کردار تھا۔
امیر الٰہی نے سنہ 1946-47 میں پاکستان کے لیے کھیلتے ہوئے مدراس (چنئی) میں انڈیا کے خلاف 10ویں وکٹ کے لیے ذوالفقار احمد کے ساتھ 104 رنز کی شراکت کی۔ اس میچ میں انھوں نے اپنی 47 رنز کی اننگز سے سب کو حیران کر دیا۔
امیر الٰہی دسمبر 1980 کو 72 سال کی عمر میں کراچی میں فوت ہوئے۔