Getty Images
کچھ ایسی چاشنی ہے اس مقابلے میں کہ خبر کھلتے ہی میلہ لُٹ جاتا ہے، گھنٹے بھر میں ہی پورے کے پورے وینیوز بِک جاتے ہیں اور ذرا سی کوتاہی برتنے والے ہاتھ مَلتے رہ جاتے ہیں۔ یہ کرکٹ مقابلہ کھیل کی عظیم ترین تشہیر کا سامان مہیا کرتا ہے۔
کچھ یہی قصہ کینڈی میں بھی ہے جہاں تمام ہوٹل بُک ہو چکے ہیں اور بلیک میں دستیاب ٹکٹیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
کووڈ اور سری لنکن اکانومی کے ڈیفالٹ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ٹورازم انڈسٹری کے اشاریے مثبت سمت بڑھ رہے ہیں۔ مگر موسم کے کواکب کچھ یوں ڈراتے ہیں کہ پالیکیلے میں سنیچر کا مقابلہ کہیں کسی تشنہ لب کی حسرت ہی نہ بن جائے۔
ون ڈے فارمیٹ میں آخری یہ مقابلہ ہوئے چار برس بیت چکے۔ گو، اس کے بعد دونوں ٹیمیں ایشیا کپ اور ورلڈ کپ میں چار بار ٹکرائیں مگر وہ تمام میچز ٹی ٹونٹی فارمیٹ میں تھے۔
اس اعتبار سے انڈیا تاحال ون ڈے فارمیٹ میں ایشیا کا چیمپیئن ہی ہے اور حالیہ ایونٹ روہت شرما کی جانب سے اپنی ٹرافی کے دفاع کی کاوش ہو گی۔
عین ممکن تھا کہ یہی میچ کینڈی کی بجائے لاہور یا کراچی میں منعقد ہو رہا ہوتا اور مسابقت کی حدت بھی کہیں زیادہ ہوتی مگر بی سی سی آئی کے سیکرٹری جے شاہ کی ضد آڑے آ گئی اور ایک بار پھر انڈین ٹیم کی پاکستان آمد کھٹائی میں پڑ گئی۔
اب اسے شومئی قسمت کہئے یا کیا، کہ جے شاہ انڈین کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری ہونے کے علاوہ ایشین کرکٹ کونسل کے صدر بھی ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ مودی کابینہ کے اہم ترین مہرے اُمت شا کے فرزند بھی ہیں۔
زمان و مکاں کی کوئی اور نظیر ہوتی تو اس سادہ سے مخمصے کو مفادات کے ٹکراؤ سے تعبیر کیا جا سکتا تھا مگر یہاں معاملہ انڈین کرکٹ بورڈ جیسے معاشی سورما کا ہے، سو خامشی ہی جواب بچتی ہے۔
Getty Imagesجے شاہ انڈین کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری ہونے کے علاوہ ایشین کرکٹ کونسل کے صدر بھی ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ مودی کابینہ کے اہم ترین مہرے اُمت شا کے فرزند بھی ہیں
پاکستان اور انڈیا کے درمیان مقابلے، خواہ کسی بھی فارمیٹ میں ہوں، ہمیشہ تکنیک سے زیادہ تحمل پہ منحصر ہوتے ہیں۔ دقیق لمحوں میں اعصاب جوڑے رکھنے کی صلاحیت ہی کامیابی کی کلید ہوا کرتی ہے۔ ماضی کے کئی یادگار میچز اس امر کے شاہد ہیں۔
وہ ایشیا کپ کا میچ بھلا کون فراموش کر سکتا ہے جب دونوں پاکستانی اوپنرز محمد حفیظ اور ناصر جمشید نے سینچریاں بنائیں مگر اس کے جواب میں وراٹ کوہلی نے اپنی سب سے بڑی ون ڈے اننگز کھیل کر میچ پاکستان کے منہ سے چھین لیا۔
اور بنگلہ دیشی سرزمین پہ ہی ہوا وہ میچ بھی بھلا کون بھول سکتا ہے جب آخری لمحات میں انڈین ٹیم جیت کے عین پاس ہی تھی کہ آفریدی آئے اور ایشون اس لمحے کی حِدت نہ جھیل پائے۔
کمنٹری باکس سے رمیز راجہ کی آواز آج بھی کہیں آس پاس سی سنائی دیتی ہے جب 'آفریدی، یو بیوٹی' کے دو چھکوں نے پاکستان کی ڈوبتی ناؤ پار لگا دی۔
اور دونوں ٹیموں کا آخری انکاؤنٹر تو شائقین کے ذہنوں میں ابھی تازہ ہی ہے جب پچھلے برس ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے ہنگام میلبرن میں، پہلے تیس اوورز تک پاکستانی ٹیم میچ پہ حاوی رہی۔
پاکستانی پیسرز نے ہدف کا تعاقب کرتے انڈین ٹاپ آرڈر کی دھجیاں بکھیر دیں مگر پھر وراٹ کوہلی کریز پہ ایسے تحمل سے جمے کہ حارث رؤف سمیت کروڑوں پاکستانی شائقین انگشت بدنداں رہ گئے اور کوہلی ایک ہاری ہوئی بازی اُچک لیے۔
اگر سنیچر کے میچ میں بھی بارش حائل نہ ہوئی تو مقابلہ ایک بار پھر دباؤ جھیلنے کا ہی ہو گا کہ جب یہ اعصاب پہ سوار ہوتا ہے تو قوتِ فیصلہ مفقود ہو رہتی ہے اور تمام تر تجربہ و تکنیک کسی شمار قطار میں نہیں رہتے۔
پاکستانی پیس اٹیک بلا مبالغہ دنیا بھر کے بہترین میں سے ہے اور اس کے مقابل اترنے والی انڈین بیٹنگ لائن بھی بلاشبہ دنیا کے بہترین میں سے ہے۔ اگرچہ گزشتہ چند مہینوں میں انڈین مڈل آرڈر مختلف النوع تجربات کی زد میں بھی رہا مگر کوچ راہول ڈریوڈ ان تجربات کو انجریز کے پیشِ نظر ایکامرِ مجبوری ٹھہراتے ہیں وگرنہ وہ بہت صراحت سے آگہی رکھتے ہیں کہ ان کا نمبر چار اور پانچ کون ہو گا۔
انڈین بولنگ کے لیے بھی یہ نوید ہے کہ جسپریت بمراہ طویل انجری کے بعد اب واپس میدان میں اتر چکے ہیں اور اگرچہ آئرلینڈ کے خلاف ٹی ٹونٹی میچز کھیل چکے ہیں مگر یہاں ان کا امتحان شدید موسم میں دس اوورز کا سپیل مکمل کرنا اور پچاس اوورز تک فیلڈ میں آگہی برتنا بھی ہو گا۔
Getty Images وراٹ کوہلی کریز پہ ایسے تحمل سے جمے کہ حارث رؤف سمیت کروڑوں پاکستانی شائقین انگشت بدنداں رہ گئے
اور ہاردک پانڈیا کی شکل میں انڈیا کو ایک ایسا آل راؤنڈر بھی میسر ہے جو لوئر آرڈر میں اننگز سنبھالنے کے ساتھ ساتھ بلا دِقت 142 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک بولنگ بھی کر سکتے ہیں۔
مگر، بہرحال اپنی تمام تر رعنائیوں کے باوجود یہ انڈین اٹیک پاکستانی پیسرز کے مقابل پھیکا پڑ جاتا ہے اور انڈین امیدیں بالآخر مڈل آرڈر سے ہی جا جڑتی ہیں۔
کیونکہ نئے گیند کے ہمراہ شاہین آفریدی اور نسیم شاہ ٹاپ آرڈر کا بھرپور امتحاں ہوں گے۔ پاکستان کے لیے یہاں بھی زیادہ بڑا چیلنج وراٹ کوہلی یا سوریا کمار یادیو ہوں گے جو نئے گیند کا سامنا کرنے کی مشقت سے آزاد رہتے ہیں۔
اگرچہ امام الحق ون ڈے کرکٹ میں اپنا بہترین دور گزار رہے ہیں مگر فخر زمان کی حالیہ فارم متاثر کن نہیں رہی اور انڈین پیسرز آف سٹمپ کے باہر ان کی کمزوری کا استحصال کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ حقیقت بہرطور اپنی جگہ ہے کہ اہم ترین لمحات میں اٹھ کھڑے ہونا اور سب کو حیران کر چھوڑنا بھی فخر کا ہی خاصہ ہے۔
دوطرفہ انٹرنیشنل کرکٹ کی عدم دستیابی کے باعث یہ میچ کرکٹ شائقین کی تشنہ لبی کو اطمینان فراہم کر سکتا ہے اگر موسم بیچ میں حائل نہ ہو۔ لیکن اگر کسی صورت میچ مختصر ہوا تو بولنگ اور بیٹنگ سے زیادہ یہ مقابلہ دو کپتان دماغوں کے بیچ ہو گا کہ جو بدلے منظرنامے میں زیادہ بہتر حکمتِ عملی کھوج پایا، جیت اسی کے قریب تر ہو گی۔