ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ میں منعقدہ عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں روایتی حریف انڈیا اور پاکستان غالب رہے جہاں 88.17 میٹر تک جیولن پھینکنے والے نیرج چوپڑا نے گولڈ میڈل جیت کر انڈیا کے لیے تاریخ رقم کی وہیں پاکستان کے ارشد ندیم نے جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں چاندی کا تمغہ حاصل کر لیا ہے۔
انھوں نے 87.82 میٹر دور تھرو پھینکی جو نیرج سے صرف 0.35 میٹر کم فاصلے پر تھی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی پاکستانی ایتھلیٹ نے ان مقابلوں کی تاریخ میں کوئی بھی تمغہ جیتا ہو۔
ارشد اس ایونٹ سے قبل پاکستان کے لیے سنہ 2018 میں ایشین گیمز میں کانسی جبکہ 2022 میں ہونے والی کامن ویلتھ گیمز میں سونے کا تمغہ جیت چُکے ہیں۔ جبکہ انڈیا کے نیرج چوپڑا نے گذشتہ سال اسی مقابلے میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے ارشد ندیم کا شمار آج پاکستان کے بڑے ایتھلیٹس میں ہوتا ہے۔
انڈیا کے نیرج اور پاکستان کے ارشد اپنی دوستی اور سخت آپسی مقابلے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
فائنل تھرو سے پہلے دونوں کھلاڑیوں نے ایک دوسرے کے لیے احترام کا مظاہرہ کیا اور جیتنے کے فوراً بعد دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور مصافحہ کرتے ہوئے سپورٹس مین شپ کی حقیقی عکاسی کی۔
اگرچہ عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2023 انڈیا کے لیے بہت اہم سمجھی جا رہی ہے کیونکہ اس میں تین انڈین کھلاڑی نیرج چوپڑا، کرشنا جینا اور ڈی پی منو مردوں کے جیولن تھرو ایونٹ کے فائنل میں پہنچے۔ ایسا پہلی بار ہوا جب تین انڈین کھلاڑی فائنل میں پہنچے۔
لیکن اس مقابلے کے فاتح نیرج اور ارشد اب بھی موضوع بحث ہیں۔ ان کے مداح ان کی دوستی، ایک دوسرے کے لیے احترام، زندگی کے حالات میں مماثلت اور میدان میں ایک دوسرے کے سخت حریف ہونے سے متعلق بات کر رہے ہیں۔
نیرج چوپڑا اور ارشد ندیم کے درمیان گرمجوشی کا ذکر کئی برسوں سے ہو رہا ہے لیکن اس وقت ان کا ذکر بہت زیادہ ہوا جبسنہ 2021 میں ٹوکیو اولمپکس میں جیولین تھرو کے فائنل میں پہنچے اور دونوں کھلاڑیوں کا میڈیا پر ایک ساتھ نام لیا جانے لگا۔
کوالیفائنگ راؤنڈ میں نیرج چوپڑا اپنے گروپ میں سرفہرست تھے جبکہ ارشد ندیم بھی اپنے گروپ میں سب سے آگے تھے۔ لیکن ارشد فائنل میں بہتر کارکردگی نہ دکھا سکے اور 84.62 میٹر کے تھرو کے ساتھ پانچویں نمبر پر آئے۔
بے شمار ایوراڈز اور کامیابی کے بعد انڈیا واپس آنے پر بھی نیرج اپنے دل کی کسک کو نہیں بھلا پائے۔ انھوں نے اس وقت انڈین ٹی وی کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اچھا ہوتا اگر پوڈیم پر میرے ساتھ پاکستان کے ارشد ندیم بھی ہوتے۔‘
Getty Imagesنیرج کا کارنامہ
نیرج نے سنہ 2022 کی عالمی چیمپئن شپ میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔ اس کامیابی سے پہلے انڈیا نے 2003 میں عالمی چمپئن شپ میں کوئی تمغہ حاصل کیا تھا۔
تاہم، انڈیا کو ایتھلیٹکس میں اپنے نئے ہیرو کے لیے 18 سال انتظار کرنا پڑا۔ یہ انتظار اس وقت ختم ہوا جب نیرج چوپڑا نے سنہ 2021 میں منعقدہ ٹوکیو اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا اور ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔
اولمپکس کے ٹریک اینڈ فیلڈ ایونٹس میں انڈیا کی طرف سے کبھی کوئی چیمپئن نہیں تھا، لیکن نیرج کے آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا ہے۔
اور اولمپکس میں تمغہ جیتنے کے بعد سے وہ مسلسل نئی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔
نیرج کی کامیابی کتنی بڑی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انڈیا میں سات اگست کو نیشنل جیولین ڈے یا نیشنل جیولین تھرونگ ڈے منایا جاتا ہے۔ یہ وہی تاریخ ہے جب نیرج نے ٹوکیو اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔
نیرج اور ارشد کا عالمی چیمئن شپ تک کا سفرGetty Images
25 سال کے اس دبلے پتلے نوجوان کھلاڑی کا تعلق دہلی سے ملحقہ ریاست ہریانہ سے ہے۔ ہریانہ جو کشتی اور پہلوانوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ انڈر 20 ریسلنگ مقابلے کے موجودہ گولڈ میڈلسٹ اسی ریاست سے آتے ہیں۔
اگر ہم نیرج کے سفر کو دیکھیں تو ہمیں اس میں صبر، مضبوط ارادے اور محنت نظر آتی ہے۔
یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ اولمپک چیمپئن کبھی ایک موٹا نوجوان تھا جس کا وزن تقریباً 80 کلو تھا۔ ہمیشہ کرتا پاجاما پہننے والے والے نیرج کو گاؤں میں پیار سے سرپنچ کہا جاتا تھا۔
انھوں نے اپنی صحت کو بہتر بنانے کی نیت سے قریبی گاؤں کے سٹیڈیم جانا شروع کیا۔
ان کا ایک ویڈیو کلپ بھی وائرل ہوا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ جیولن یعنی نیزہ کیا ہوتا ہے۔ ایک دن جب گاؤں کے کھلاڑی نیزہ پھینک رہے تھے تو اس نے بھی نیزہ پھینکنے میں ہاتھ آزمایا۔
نیزے کا ہوا کو چیڑتے ہوئے جانا پھر پھر زمین میں پیوست ہوجانے کا طریقہ انھیں پسند آ گیا۔
نوآموز ہونے کے باوجود انھوں نے جس طرح سے بہت آسانی کے ساتھ نیزہ پھینکا اس سے سب حیران رہ گئے۔ یہیں سے ان کی زندگی بدل گئی۔
جلد ہی وہ بڑے شہر چلے گئے اور انڈیا میں ملکی سطح کے کئی مقابلے جیتے۔ وہ باقاعدہ کوچنگ نہیں لے رہے تھے اور خود ہی پریکٹس کر رہے تھے۔ سنہ 2012 میں وہ انجری کا شکار ہو گئے جس سے ان کا کریئر تقریباً ختم ہو گیا تھا۔
لیکن نیرج اپنے خاندان کی مدد اور اپنے مضبوط ارادوں کے بل بوتے پر ہر رکاوٹ کو عبور کرتے چلے گئے۔
انھوں نے 2016 میں انڈر 20 ورلڈ چیمپیئن شپ جیت کر شاندار آغاز کیا اور اس کے بعد سے وہ مسلسل ترقی کرتے گئے۔
پاکستان کے ارشد ندیم کا بھی جیولن تھرو کا سفر اتفاقیہ تھا کیونکہ وہ کم عمری میں کرکٹر بننا چاہتے تھے۔
کچھ عرصہ قبل رشید احمد ساقی نے بی بی سی کے نامہ نگار عبدالرشید شکور سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ارشد ندیم کو بچپن سے ہی کھیلوں کا شوق تھا۔
’اس زمانے میں ان کی توجہ کرکٹ پر زیادہ ہوا کرتی تھی اور وہ کرکٹر بننے کے لیے بہت سنجیدہ بھی تھے لیکن ساتھ ہی وہ ایتھلیٹکس میں بھی دلچسپی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے سکول کے بہترین ایتھلیٹ تھے۔‘
رشید احمد ساقی کہ مطابق ’ایک دن ان کے والد میرے پاس آئے اور کہا کہ ارشد ندیم اب آپ کے حوالے ہے، یہ آپ کا بیٹا ہے۔ میں نے ان کی ٹریننگ کی ذمہ داری سنبھالی اور پنجاب کے مختلف ایتھلیٹکس مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے بھیجتا رہا۔
’یوں تو ارشد ندیم شاٹ پٹ، ڈسکس تھرو اور دوسرے ایونٹس میں بھی حصہ لیتے تھے لیکن میں نے ان کے دراز قد کو دیکھ کر اُنھیں جیولن تھرو کے لیے تیار کیا۔‘
Getty Imagesنیرج چوپڑا کو موٹر سائیکل چلانا پسند ہے
نیرج کو بائیک چلانا اور ہریانہ کے لوک گیت پسند ہیں۔ انھیں فوٹو گرافی کا بھی شوق ہے۔
نیرج چوپڑا کو سوشل میڈیا پر رڈیارڈ کپلنگ کی کہانی کے مجموعہ ’دی جنگل بک‘ کے کردار کے نام پر ’موگلی‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
شاید اس لیے کہ ان کے بال موگلی کی طرح لمبے ہیں اور اس لیے بھی کہ وہ موگلی کی طرح چست اور پھرتیلے ہیں۔
کھلاڑیوں کے جسم پر چوٹیں لگنا عام سی بات ہے۔ نیرج کئی بار زخمی بھی ہوئے لیکن ان کے خود پر کنٹرول اور فٹنس پر توجہ دینے نے ان کی بہت مدد کی۔
نیرج چوپڑا انڈر 20 چیمپئن ہونے کے ساتھ ساتھ ایشین گیمز، کامن ویلتھ گیمز، اولمپکس اور ڈائمنڈ لیگ جیت چکے ہیں۔ اب ان کی نظریں 2024 کے اولمپکس میں دوسری بار میڈل جیتنے پر مرکوز ہیں۔
آج انھیں انڈین ایتھلیٹکس کی دنیا کا سب سے بڑا چہرہ سمجھا جاتا ہے۔ نیرج کی کامیابی نے انڈین ایتھلیٹکس کو دنیا کے نقشے پر پہچان دلائی ہے۔
ان کی وجہ سے نئی نسل میں ایک نئے قسم کا اعتماد آیا ہے۔ ان کی کامیابیوں سے حوصلہ پاکر نئے کھلاڑیوں کی ایک پوری نسل تیار ہوتی نظر آتی ہے۔
مجھے نیرج کی طرف سے پوسٹ کی گئی یہ تصویر خاص طور پر یاد ہے، جس کی پشت پر 'سپورٹس از آرٹ' لکھا ہوا ہے۔ وہ اپنے کھیل کو بھی فن کی بہترین سطح پر لے گئے ہیں۔