انگلینڈ میں اپنے گھر میں مردہ پائی جانے والے 10 سالہ سارہ شریف کی ایک ہمسائی نے بتایا ہے کہ بچی کو سکول میں ایک مرتبہ چہرے پر چوٹوں اور خراشوں کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔
خاتون کو ان زخموں کے بارے میں ان کی اپنی بیٹی سے پتا چلا، جو سارہ شریف کی ہم جماعت تھی۔
واضح رہے کہ برطانیہ کے علاقے ووکنگ کے گھر میں مردہ پائی گئی 10 سالہ سارہ شریف کے کیس کی تفتیش کے سلسلے میں برطانوی پولیس کو پاکستان میں ان کے والد، سوتیلی ماں اور چچا مطلوب ہیں۔
سارہ کے والد 41 سالہ عرفان شریف، ان کےاہلیہ 29 سالہ بینش بتول اور ان کے 28 سالہ بھائی فیصل ملک پاکستان آ چکے ہیں۔
پاکستان کی پولیس نے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ انھوں نے سارہ شریف کی ہلاکت کے معاملے میں مطلوب والد عرفان شریف کے دو بھائیوں اور ان کے والد سے پوچھ گچھ کی ہے لیکن انھیں گرفتار نہیں کیا گیا۔
پاکستانی پولیس نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان پر پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے دباؤ ہے کہ انگلینڈ سے آنے والے ان تینوں افراد کو تلاش کیا جائے۔
پوسٹ مارٹم میں سارہ کی موت کی اصل وجہ معلوم نہیں ہوسکی اور مزید ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔
’موٹر سائیکل سے گر گئی‘
سابقہ پڑوسی جیسیکا نے بی بی سی کو بتایا کہ سارہ خوش رہنے والی اور پراعتماد بچی تھی جو ہمیشہ خوشی خوشیسکول جاتی تھی۔
لیکن سارہ کے مردہ پائے جانے کے بعد، جیسیکا کی بیٹی نے انھیں بتایا کہ اپریل میں سارہ سکول آئی تو اسےواضح طور پر زخم آئے ہوئے تھے۔
جیسیکا کا کہنا تھا کہ ایسٹر کی تعطیلات سے قبل سارہ سکول میں تھیں اور ان کے چہرے اور گردن پر زخم اور چوٹیں تھیں۔
’میری بیٹی نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے اور اس نے کہا کہ وہ موٹر سائیکل سے گر گئی ہے اور پھر چلی گئی۔‘
اگلے دن ٹیچر نے اعلان کیا کہ سارہ نے سکول چھوڑ دیا ہے اور اسے گھر پر پڑھایا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ وہ وقت تھا جب شریف خاندان تقریبا 20 منٹ کی ڈرائیو پر واقع ووکنگ منتقل ہوا تھا۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اور پڑوسی خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ سارہ کے والد کی دوسری بیوی بینش بتول نے انھیں بتایا تھا کہ لڑکی کو حجاب پہننے کی وجہ سے ہراساں کیے جانے کے بعد گھر پرپڑھایا جا رہا ہے۔
پڑوسن نے کہا کہ ’میں نے بینش کو مشورہ دیا کہ سارہ کو اپنی عمر کے بچوں کے ساتھ رہنے کی ضرورت ہے۔ اس نے جواب دیا کہ وہ مسجد میں اور تیراکی کی کلاس میں دوست بنا رہی ہے۔‘
’ایکاور موقعے پر میں نے بینش سے کہا کہ سارہ کو گھر پر پڑھانا مشکلہوتا ہو گا کیونکہ ان کے اور بچے بھی ہیں جن کی دیکھ بھال کرنا ہوتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت آسان ہے کیونکہ وہ بی بی سی بائٹس سائز استعمال کرتی ہیں۔`
پڑوسن نے کہا کہ سارہ ایک ’شرمیلی اور خاموش‘ بچی لگ رہی تھی۔ میں نے اسے کبھی مسکراتے یا ہنستے نہیں دیکھا۔‘
سارہ شریف کے اہلخانہ سے ماضی میں رابطہ ہوا تھا: برطانوی پولیس
سرے پولیس کے ایک اہلکار مارک چیمپن نے کہا ہے کہ ان کا ماضی میں سارہ شریف کے اہلخانہ سے رابطہ ہوا تھا۔
یہ بیان سرے کاؤنٹی کونسل کے اس انکشاف کے بعد سامنے آیا ہے کہ ووکنگ سے تعلق رکھنے والے اس خاندان کو حکام جانتے تھے۔
مارک چیمپن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سرے پولیس کا خاندان کے ساتھ محدود بنیادوں پر رابطہ رہا ہے اور یہ ماضی سے متعلق ہوا تھا۔ یہ پرانی بات ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ شریف خاندان کے ساتھ پولیس کی بات چیت ’کچھ سال پرانی ہے‘ لیکن انھوں نے اپنے بیان کی تفصیل نہیں بتائی۔
پولیس افسر نے یہ بھی کہا کہ پولیس فورس نے اس معاملے کو پولیس واچ ڈاگ کو نہیں بھیجا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’سرے پولیس نے پوزیشن کا جائزہ لیا تاہم وہ معاملہ پولیس شکایات کے آزاد دفتر کو آگاہ کرنے کے معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔ ‘
سرے پولیس کے اہلکار مارک چیپمین کا کہنا ہے کہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ پانچویں جماعت کی طالبہ سارہ کس طرح زندگی بسر کر رہی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس علاقے میں رہنے والے کسی بھی شخص سے سننا چاہتے ہیں، جس نے سارہ کو باقاعدگی سے اپنے روزمرہ کے معمولات میں دیکھا ہو۔‘
جب یہ انکشاف ہوا کہ سارہ کے بارے میں حکام کو خبر تھی تو بچوں کی سماجی دیکھ بھال کے بارے میں مہم چلانے والے کرس وائلڈ نے بی بی سی کے ’ورلڈ ایٹ ون پروگرام‘ کو بتایا کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ سارہ کو ’ان کے ریڈار پر‘ ہونا چاہیے تھا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہو سکتا ہے بچی کے تحفظ کا کوئی حکم جاری کیا گیا ہو، یا حفاظت کا کوئی خدشہ ظاہر کیا گیا ہو۔
منگل کے دن سارہ کی لاش پر کیے گئے پوسٹ مارٹم سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بچی کی موت کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہوئی۔ پولیس نے کہا ہے کہ بچی کی موت کی وجہ جاننے کے لیے مزید ٹیسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
پولیس ویسٹ بائی فلیٹ میں اس خاندان کے پچھلے ایڈریس کی بھی تلاشی لے رہی ہے۔
’میں اب اسے واپس لانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتی‘
اخبار ’دی سن‘ سے بات کرتے ہوئے سارہ کی والدہ نے اپنی بیٹی کی موت پر غم کا اظہار کیا اور بتایا کہ انھیں یقین نہیں ہو رہا کہ ان کی بیٹی اب زندہ نہیں۔
اولگا شریف (بچی کی والدہ) کی سارہ کے والد سے طلاق ہو گئی تھی اور فی الحال بچی کی کسٹڈی والد کے پاس تھی۔
انھوں نے انٹرویو میں کہا کہ ان کی زندگی اب ’کبھی پہلے جیسی نہیں ہو سکتی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میری بیٹی ایک عمدہ لڑکی تھی جو ابھی بہت چھوٹی تھی۔ میں اب اسے واپس لانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتی لہذا میں صرف اس اچھے وقت کو یاد کر سکتی ہوں جو میں نے اس کے ساتھ گزارا۔‘
گھر کے بالکل سامنے رہنے والے ایک پڑوسی نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ چھ بچوں کے ساتھ ایک پاکستانی خاندان چھ ماہ سے بھی کم عرصے سے اس گھر میں مقیم رہا تھا۔
ایک اور پڑوسی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ’بچی عموماً اپنے چھوٹے بھائی بہنوں اور خاص طور پر سب سے چھوٹے بچے کی دیکھ بھال میں مدد کرتی نظر آتی تھی۔‘