آلائی: کیبل کار میں پھنسے دو بچے نکال لیے گئے، چھ افراد کو نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری

بی بی سی اردو  |  Aug 22, 2023

پاکستان میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع آلائی میں ایک ڈولی یعنی دیسی ساختہ کیبل کار میں زمین سے نو سو فٹ کی بلندی پر 12 گھنٹے سے پھنسے آٹھ افراد کو بحفاظت نکالنے کا آپریشن جاری ہے اور کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد اب تک دو بچوں کو اس ڈولی سے نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

ان آٹھ افراد میں چھ بچے بھی شامل ہیں اور ہزارہ ڈویژن پولیس کے ترجمان نے فوج کے جوانوں کی جانب سے دو بچوں کو ریسکیو کرنے کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ مکمل اندھیرا پھیلنے سے قبل تمام افراد کو نکال لیا جائے۔

حکام کے مطابق اس کیبل کار میں پھنسے بچے منگل کی صبح سکول جا رہے تھے جس دوران ڈولی کی ایک کیبل ٹوٹ گئی، جس سے وہ زمین سے 274 میٹر کی بلندی پر فضا میں معلق ہو گئی۔

یہ ڈولی دو رسیوں کی مدد سے آپریٹ کی جاتی ہے اور حادثے کا شکار ہونے والی ڈولی کی ایک رسی ٹوٹ گئی تھی۔

اس واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد پہلے مقامی انتظامیہ اور ریسکیو 1122 اور پھر دوپہر ایک بجے کے قریب پاکستانی فوج کے کمانڈوز نے چار ہیلی کاپٹروں کی مدد سے امدادی کارروائیاں شروع کی تھیں۔

پاکستان کے نگران وزیر اعظم نے امدادی کارکنوں کو بٹگرام کے نزدیک پیش آنے والے اس ’خطرناک‘ واقعے میں شرکت اور نگرانی کے احکامات جاری کیے ہیں۔

تیز ہواؤں کی وجہ سے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے کیے جانے والے سلنگ آپریشن میں ابتدا میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ہیلی کاپٹر سے رسی کی مدد سے لٹکے ہوئے ایک کمانڈو نے منگل کی دوپہر جب ڈولی کے قریب آنے کی کوشش کی تو ہوا کے دباؤ کی وجہ سے ڈولی نے جھولنا شروع کر دیا۔

اس کے بعد مختلف طریقوں سے بچوں کو باہر نکالنے کی کوشش کی جاتی رہی اور پھر شام ساڑھے چھ بجے کے قریب دو بچوں کو ہیلی کاپٹر کی مدد سے ہی ڈولی سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچانے کی تصدیق ہوئی۔

شام ہوتے ہی وقت کی کمی کے باعث مقامی افراد کو بھی ریسکیو آپریشن میں شامل کر لیا گیا ہے۔

ڈی آئی جی ہزارہ طاہر ایوب کے مطابق جائے حادثہ کے سامنے والی پہاڑی پر ہیلی پیڈ بنا دیا گیا ہے، جہاں ریسکیو آپریشن کے لیے ضروری تمام سامان سے لیس گاڑی پہنچا دی گئی ہے۔

BBC

الطاف حسین مقامی سکول میں استاد ہیں اور اس وقت وہ اس جگہ موجود ہیں جہاں ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میں صبح سے یہاں موجود ہوں۔ صبح سے اب تک تین ہیلی کاپٹر آئے ہیں جنھوں نے 40 سے 45 منٹ تک اس جگہ کا جائزہ لیا مگر پھر وہ چلے گئے۔‘

کیبل کار میں پھنسے ایک شخص گلفراز نے نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کو فون پر بتایا کہ ’خدا کے لیے ہماری مدد کریں۔‘ انھوں نے تصدیق کی کہ اس کیبل کار میں آٹھ افراد سوار ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’گذشتہ تین گھنٹوں میں ایک طالبعلم بے ہوش ہو گیا تھا، اس ڈولی میں موجود بچوں کی عمریں 10 سے 15 سال کے درمیان ہیں۔‘

گلفراز کے مطابق ’ہمارے علاقے کے لوگ یہاں کھڑے ہیں ہمارے لیے دعا کر رہے ہیں اور رو رہے ہیں۔‘ اس موقع پر گلفراز نے حکام سے فوری مدد بھیجنے کی اپیل کی۔

دستیاب تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیبل کار ایک دریا کے اوپر 274 میٹر کی بلندی پر مُشکل پہاڑی سلسلے کے بیچوں بیچ پھنسی ہوئی ہے۔

رائٹرز کے مطابق ایک امدادی کارکُن نے کہا ہے کہ ’ریسکیو ٹیمز حادثے کی جگہ پر پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹروں کے ساتھ ریسکیو آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں مگر یہ آپریشن انتہائی پیچیدہ ہے۔‘

پاکستان کے دور دراز علاقوں بالخصوص خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں مقامی افراد آمد و رفت کے لیے کیبل کار کی طرز پر بنائی گئی دیسی ساختہ لفٹ استعمال کرتے ہیں جنھیں عمومی طور پر پیٹرول یا ڈیزل انجن کی مدد سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔

اس دیسی ساختہ کیبل کار کو ’ڈولی‘ کہا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کے ایسے دشوار گزار علاقوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کے لیے استعمال ہوتی ہے جہاں مناسب ذرائع آمد و رفت جیسا کہ سٹرکیں یا پُل موجود نہیں ہوتے۔

پہاڑی علاقوں میں چونکہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کے درمیان آبی گزرگاہیں موجود ہوتی ہیں یا بعض اوقات ایک گاؤں ایک پہاڑ پر جبکہ نزدیک ترین گاؤں دوسرے پہاڑ پر موجود ہوتا ہے، اس لیے وقت کی بچت کے لیے مقامی افراد عموماً ڈولی کو ہی آمد و رفت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

مسافت زیادہ نہ ہو تو عموماً ہاتھ کی مدد سے بھی ڈولی کو چلا لیا جاتا ہے، مگر زیادہ اونچائی اور زیادہ مسافت والی ڈولیاں پرانے انجن کی مدد سے چلائی جاتی ہیں۔

ڈولی عمومی طور پر کسی بھی پرانی اور ناکارہ گاڑی کے ڈھانچے میں مناسب تبدیلیاں کر کے بنائی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسے آپریٹ کرنے کے لیے عمومی طور پر علاقے کے ڈپٹی کمشنر سے تحریری اجازت نامہ لیا جاتا ہے۔ مقامی افراد عمومی طور اپنی آمد و رفت کے حساب سے آپریٹر کے ساتھ ماہانہ کرایہ طے کر لیتے ہیں جو ادا کیا جاتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More