شمالی وزیرستان میں دھماکہ جس نے ایک باپ کو اپنے تین بیٹوں سے محروم کر دیا

بی بی سی اردو  |  Aug 22, 2023

BBCہلاک ہونے والے بھائی مقبول نور اور سعید نور

’بیٹوں نے کہا ہم تین بھائی مزدوری کریں گے۔۔۔ میں اس سے متفق تو نہیں تھا مگر وہ بال بچوں والے تھے، اس لیے چُپ رہا۔‘

یہ کہنا ہے سپین کمر کے مِشر حاجی براموف کا جنھوں نے ایک دھماکے میں اپنے تین بیٹے کھو دیے ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں شمالی وزیرستان کی تحصیل شوال میں حکام کے مطابق سنیچر کی شب دہشت گردوں نے ایک گاڑی کو بارودی مواد سے اُڑایا جس کے نتیجے میں 11 مزدور ہلاک ہوئے، جن میں سے نو کا تعلق سپین کمر سے ہے۔

حاجی براموف چاہتے تھے کہ ان کے بیٹے یہ مزدوری نہ کریں جس کے عوض فی کس یومیہ محض 1300 روپے ملتے تھے۔

’میں نے بیٹوں سے کہا بھی تھا کہ چھوڑو مزدوری، جو دال ساگ مل رہی ہے اس پر گزر بسر کرو‘ مگر وہ تینوں اس سرکاری ٹھیکے پر 10 روز تک کام کر کے 40 ہزار روپے کمانا چاہتے تھے۔

’دھماکے کی شام میرے بیٹوں نے مزدوری سے واپس آنا تھا‘

اس دھماکے میں حاجی براموف کے تین بیٹے فائق نور، سعید ماہ نور اور مقبول نور ہلاک ہوئے ہیں۔ حاجی براموف کہتے ہیں ’میرے پانچ بیٹے تھے لیکن اب دو رہ گئے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ فائق اور سعید دونوں شادی شدہ تھے اور ہر وقت روزگار کے سلسلے میں پریشان رہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب سرکاری ٹھیکدار نے علاقے میں رابطہ قائم کیا کہ شوال میں مزدوروں کی ضرورت ہے تو علاقے کے بہت سے لوگوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ یہ کام کریں گے مگر میرا دل نہیں مانتا تھا۔‘

حاجی براموف نے کہا کہ ان کے بیٹے 10 روز قبل روانہ ہوئے تھے اور تب سے ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ ’دھماکے کا مقام ہمارے علاقے سے کوئی 25 کلو میٹر دور ہوگا۔ وہاں پر موبائل سگنل وغیرہ کچھ کام نہیں کرتا۔ اس علاقے میں کسی کو جانے کی بھی اجازت نہیں۔ میرے بیٹوں اور باقی لوگوں کو دس دن ادھر ہی رکھا ہوا تھا۔ ان کی کسی کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’جس شام دھماکہ ہوا، اسی روز انھوں نے واپس آنا تھا۔ میں بیٹوں کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک حکومتی اہلکار آیا اور اس نے مجھے اور علاقے کے دیگر لوگوں کو بتایا کہ حادثہ ہوا ہے۔ ہمارے بچے معمولی زخمی ہیں۔

’جب ہسپتال پہنچے تو پھر کہا کہ ابھی وہ مل نہیں سکتے کیونکہ زیادہ چوٹیں آئی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’تھوڑی دیر بعد انھوں نے ہمیں بتا دیا اور میں اپنے تین بیٹوں کی جبکہ باقی لوگ اپنی اپنی لاشیں لے کر چلے گئے۔ انھوں نے ہمیں کچھ نہیں بتایا کہ کیا ہوا، کیسے ہوا۔‘

کراچی میں مقیم محمد اسماعیل بتاتے ہیں کہ ہلاک ہونے والے تینوں بھائی فائق نور، سعید ماہ نور اور مقبول نور ان کے بھتیجے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ دو بچوں کے والد فائق نور کام ڈھونڈنے کے لیے چھ ماہ قبل کراچی آئے تھے۔ اس کو دو ماہ کے لیے چوکیداری کی نوکری ملی تھی، باقی تین ماہ اس کو کوئی کام نہیں ملا جس کے بعد وہ تنگ ہو کر واپس وزیرستان چلا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا ’جاتے ہوئے وہ بہت مایوس تھا۔ کہتا تھا کہ مجھے کراچی نے بھی روزگار نہیں دیا۔‘ وہ گاؤں واپس جا کر محنت مزدوری کرنا چاہتے تھے۔

انھیں اس بات کا افسوس ہے کہ وہ نوکری کی تلاش میں فائق کی مدد نہ کر سکے۔

BBC’سعید اللہ کی ابھی شادی ہوئی تھی۔ اس کا ایک سالہ بیٹا ہے جس کو معلوم ہی نہیں کہ وہ یتیم ہو گیا ہے‘’نو گھروں میں سوگ، ہر گھر کی الگ دُکھ بھری کہانی ہے‘

حاجی براموف کے کزن مسلم خان نے بتایا کہ ایک ہی علاقے کے نو مرد اب جا چکے ہیں جن پر نو خاندانوں کی کفالت کی ذمہ داری تھی۔

مسلم خان کہتے کے لیے ان لڑکوں کی آخری رسومات دیکھنا انتہائی تکلیف دے تھا کیونکہ ان میں وہ نوجوان بھی شامل تھے جنھیں انھوں نے بچپن میں گود میں اٹھایا تھا۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ’کس کو تسلی دیں؟

’اب بھی صورتحال یہ ہے کہ جب سے (یہاں) آیا ہوں کبھی کسی ایک حجرے میں تعزیت کے لیے جاتے ہیں تو کبھی کسی دوسرے کے حجرے میں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہر ایک گھر کی الگ ہی دُکھ بھری کہانی ہے۔ شیر واحد نے بیوہ اور دو بچے سوگوار چھوٹے ہیں۔ اس کا ایک زخمی بھائی ہسپتال میں ہے، اس کو ابھی تک نہیں بتایا کہ اس کے نو ساتھی ہلاک ہو گئے ہیں کہ اس کی طبیعت ابھی ٹھیک نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سعید اللہ کی ابھی شادی ہوئی تھی۔ اس کا ایک سالہ بیٹا ہے جس کو معلوم ہی نہیں کہ وہ یتیم ہو گیا ہے۔ بیت اللہ ایک کم عمر بیٹی کا باپ تھا۔ جنت اللہ شادی شدہ اور تین کم عمر بیٹوں کا باپ تھا۔

’گاڑی کا ڈرائیور فیاض بھی ہمارے علاقے کا تھا۔ جب پہلے آتے تھے تو وہ ہمیں اِدھر اُدھر لے کر جاتا تھا۔ اب اس کے جنازے میں آیا ہوں۔‘

مگر مسلم خان کے لیے سب سے دُکھ بھری بات یہ ہے کہ نور ولی کے دو بچے ہیں جن میں سے ایک معذور ہے۔ ’نور ولی کو دوسرے شہر میں کام بھی ملتا تھا مگر یہ اپنے معذور بچے کی وجہ سے نہیں جاتا تھا۔ کہتا تھا کہ معذور بچہ اللہ کا تحفہ ہے، اس کو چھوڑ کر کدھر جاؤں۔ بس ادھر ہی مزدوری کر لوں گا اور اپنے بچے کی دکھ بھال کروں گا۔۔۔ پتا نہیں اب اس کی دیکھ بھال کون کرے گا۔‘

’ہائی سکیورٹی زون میں دھماکہ کیسے ہوا؟‘

سابق رکن قومی اسمبلی ملک عبدالقیوم بھی اسی علاقے کے رہنے والے ہیں۔ انھوں نے اس دھماکے کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ ’یہ لوگ مزدوری کرنے گئے تھے۔ مزدوری بھی کسی نجی بندے کی نہیں حکومت والوں کا کوئی کام تھا۔ کیا کام تھا، یہ ہمیں نہیں پتا اور ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحقین کو بھی نہیں پتا۔ بس مزدوی کرنے گئے تھے، وہاں پر ہلاک ہو گئے۔‘

ملک عبدالقیوم کہتے ہیں کہ ’شروع میں تو ہمیں نہیں پتا تھا کہ کیا ہوا ہے۔۔۔ میڈیا کے ذریعے پتا چلا کہ یہ دھماکہ تھا۔ شوال کا علاقہ ہائی سکیورٹی زون ہے۔ وہاں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تو دھماکہ کیسے ہو گیا، یہ جاننا مزدوروں کے لواحقین کا حق ہے۔‘

شمالی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر ریحان خٹک نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ فوج کی ایک زیرِ تعمیر پوسٹ پر کام جاری تھا کہ اس دوران مزدوروں کو لے جانے والی ایک گاڑی میں آئی ای ڈی دھماکہ ہوا۔ کسی بھی گروہ نے تاحال اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سب غریب اور محنت کش ہیں۔ ’یہ سارے کسی نہ کسی کی امید تھے۔ وہ امید اب بجھ چکی ہے۔ ہمارے علاقے میں تو ویسے ہی بدقسمتی کا سایہ چھاپا ہوا ہے۔‘

ملک عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل یہ سارے لوگ اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے اور مہاجر بن کر مختلف علاقوں میں کیمپوں میں رہتے رہے۔ ’ان کے گھر، کھیت سب تباہ ہوگئے تھے۔ حاجی براموف کے گھر جا کر دیکھیں، اس کا گھر انتہائی خستہ حال ہے۔‘

حاجی براموف کہتے ہیں کہ ’میں دوسری بار اجڑ رہا ہے۔ پہلی مرتبہ اس وقت اجڑا جب مجھے مہاجر بن کر ڈیرہ اسماعیل خان جانا پڑا۔ وہاں سردی، گرمی ٹینٹوں میں گزاری۔ چھوٹا موٹا روزگار بھی تباہ ہو گیا۔

’اب ایک بار پھر اپنے تینوں جوان سال بیٹوں سے محروم ہو کر دوبارہ اجڑا ہوں۔ پہلے تو گھر بار سے محروم ہوا تھا، اب اپنی زندگی کے سرمایے سے بھی محروم ہوگیا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More