’کیا آپ جانتے ہیں کہ فاطمہ جناح نے اپنی نجی زندگی کی قربانی دی۔ انھوں نے کتنی محنت سے ڈینٹل کلینک بنایا اور اسے بھی اپنے بھائی کے لیے چھوڑ دیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ محمد علی جناح جب کبھی بھی مشکل میں گرفتار ہوتے تو فاطمہ جناح ان کے ساتھ کھڑی ہوتیں۔ کیا ہمارے لوگ یہ جانتے ہیں کہ جنھیں ہم ’مادرِِ ملت‘ کہتے ہیں وہ کتنی بڑی لیڈر تھیں۔ ’فاطمہ جناح‘ سیریز میں آپ کو یہی سب دیکھنے کو ملے گا۔‘
یہ کہنا ہے نوجوان ہدایتکار دانیال افضل کا جنھوں نے فاطمہ جناح کی زندگی پر مبنی ایک سیزن بنایا ہے۔
’فاطمہ جناح‘ کے نام سے بنایا جانے والا یہ سیزن اگلے برس او ٹی ٹی پلیٹ فارم سمیت پاکستانی ٹی وی چینل پر بھی نشر کیا جائے گا۔
تاہم اس سیزن کے ہدایتکار اور پروڈیوسر نے ابھی اس متعلق زیادہ تفصیلات نہیں بتائی ہیں۔
ہدایتکار دانیال افضل نے بی بی سی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ اگلے برس وہ پاکستانی عوام کے لیے فاطمہ جناح کی زندگی پر مبنی ایسا سیزن ریلیز کرنے جا رہے ہیں جس میں ’ان کی زندگی کے وہ پہلو دکھائے جائیں گے جو اس سے پہلے کم ہی لوگوں کو معلوم ہوں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے لیے فاطمہ جناح قائد اعظم کی بہن سے بڑھ کر وسطی ایشیا کی ایک بہت بڑی خاتون لیڈر ہیں اور میں لوگوں کو ان کی زندگی کا یہ پہلو دکھانا چاہتا ہوں۔‘
فاطمہ جناح سیزن میں کیا کچھ دیکھنے کو ملے گا؟
تاريخ کے اس باب کو ہدایتکار دانیال نے اپنے سیزن میں تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ جس کے پہلے حصے میں تقسیمِ ہند سے پہلے کے واقعات کو دکھایا گیا ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ تقسیمِ ہند کے بعد کا ہے۔ اور تیسرےحصے میں فاطمہ جناح کے بڑھاپے اور پاکستان میں گزرے وقت کا احاطہ کیا گیا ہے۔
دانيال کے مطابق اس سیزن میں سنہ 1910 سے لے کر سنہ 1967 تک کا وقت دکھایا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے ہمشیہ فاطمہ جناح کو محمد علی جناح کی پرچھائی میں ہی دیکھا ہے۔ اُن کی شخصیت کو سب بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ وہ چپ چاپ خاموشی سے اپنے بھائی کے ساتھ ہی نظر آتی تھیں۔ جبکہ دوسری جانب انڈیا میں زیادہ تر لوگ انھیں ایک ایسی عورت کے طور پر جانتے ہیں جنھوں نے محمد علی جناح کو تقسیمِ ہند کے لیے راضی کیا تھا۔‘
وہ اس سیزن سے متعلق مزید بتاتے ہیں کہ ’اس سیریز میں ہماری کوشش ہے کہ ہم لوگوں کو فاطمہ جناح کی اصل شخصیت اور ان کا مضبوط کردار دکھا سکیں۔‘
دانیال کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ ہم لوگوں تک صرف اُن کے مخصوص پہلو ہی پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہم ان سے متعلق جو کچھ بھی بنا رہے ہیں وہ سب تاریخ اور حقائق پر مبنی ہے۔ چاہے پھر وہ ان کا مثبت پہلو ہو یا پھر منفی۔‘
فاطمہ جناح کی زندگی کے چند واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’جب محمد علی جناح نے ممبئی سے بطور مسلمان واحد سیٹ جیتی تو اس وجہ سے وہاں خاصی بےچینی تھی۔ اس موقع پر فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کا ساتھ دیا اور ان کو ہمت دی۔‘
وہ اس سیزن میں فاطمہ جناح کی زندگی کے دکھائے گئے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس میں ایک ایسے کشمیری لڑکے کی کہانی بھی دکھائی گئی ہے جسے اس لیے پکڑا گیا تھا کیونکہ وہ اس وقت کی حکومت کے خلاف لکھتا تھا۔ اور فاطمہ جناح اس لڑکے کو حکومت کے ظلم اور تشدد سے بچا کر لے جانے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔‘
دانیال کہتے ہیں کہ ’اس سیزن میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ جب محمد علی جناح اپنی بہن کے ہمراہ سب چھوڑ کر انگلستان چلے گئے تھے تو علامہ محمد اقبال نے انھیں واپس آنے کا پیغام بھیجا کہ آپ کی یہاں ضرورت ہے، اس وقت بھی فاطمہ جناح ہی تھیں جو اپنے بھائی کو منا کر واپس لے آئیں تھیں۔‘
ہدایتکار دانیال افضل کے مطابق فاطمہ جناح کی زندگی پر بنائے گئے سیزن میں ان کی نجی زندگی کے بارے میں کافی کچھ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
’جیسے کہ وہ کوئی سادہ سی خاتون نہیں تھیں۔ وہ ایک ’بمبئی گرل‘ تھیں۔ وہ اپنی کم سنی میں ہوسٹل میں رہیں۔ اس کے علاوہ جب وہ محمد علی جناح کے گھر منتقل ہوئیں تو وہاں ان کے تعلقات رتی بائی کے ساتھ کیسے تھے۔ ان کی شخصیت کے اس طرح کے کافی پہلو ہیں جو لوگوں کو دیکھنے کو ملیں گے۔‘
ہدایتکار دانیال افضل اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سیزین تین حصوں پر مشتمل ہیں جس میں ان کا کردار مختلف اداکارائیں نبھائیں گی۔
آپ یہ سیزن کس مقصد کے تحت بنا رہے ہیں؟
ہدایتکار دانيال کا اس سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ ’میں جب امریکہ میں زیر تعلیم تھا تو سب بڑی بڑی خاتون لیڈرز کی بات کرتے تھے۔ جب مجھ سے بطور پاکستانی پوچھا جاتا تھا کہ کیا وسطی ایشیا میں کوئی بڑی خاتون لیڈر ہے تو میرے ذہن میں ہمیشہ فاطمہ جناح کا نام آتا تھا۔ لیکن لوگ فاطمہ جناح کو صرف جناح کی بہن کے طور پر جانتے ہیں۔‘
’اس وقت میں سوچ لیا تھا کہ میں دنیا کو فاطمہ جناح بطور خاتون لیڈر دکھاؤں گا اور آج میں اپنے اس خواب کو پورا کر رہا ہوں۔‘
جب سکرپٹ پڑھا تو لگا ان کی زندگی کے ہر پہلو کو عوام کے سامنے آنا چاہیے‘BBC
فاطمہ جناح کی زندگی پر مبنی سیزن کے آخری حصے میں اداکارہ سمیعہ ممتاز فاطمہ جناح کی پاکستان میں گزری زندگی پر مبنی کردار نبھا رہی ہیں۔
اس بارے میں سمیعہ ممتاز نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’ہمارے ہاں بننے والے ڈراموں میں اب صرف عشق، محبت، شادی، ساس، بہو اور طلاق جیسے موضوعات کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوتی۔ آج کل ڈرامے بنانے والوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ زندگی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ بطور معاشرہ ہمارے اتنے اور مسائل ہیں جن پر کوئی بات نہیں کرتا۔ اس لیے میں ٹی وی کے کام سے تنگ آ گئی ہوں اور یہی وجہ ہے کہ میں ڈیجیٹل میڈیا پر مختلف اقسام کی سیریز میں مختلف کردار کر رہی ہوں۔ جن میں سے ایک فاطمہ جناح کا کردار ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں ان کے بڑھاپے کا کردار کروں گی۔‘
وہ فاطمہ جناح کی زندگی پر بننے والے سیزن کے متعلق بات کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’جب ہدایتکار دانیال نے سکرپٹ پڑھنے کو دیا تو مجھے لگا کہ اتنی بڑی ہستی سے جڑے ہر پہلو کو لوگوں کے سامنے آنا چاہیے۔ اس لیے میں نے فوری اس کام کے لیے حامی بھر لی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اس کہانی کے لیے بہت زیادہ تحقیق کی گئی ہے۔ جو باتیں بھی تاریخ میں موجود ہیں اور جو لوگوں نے فاطمہ جناح کے بارے میں کہیں ان سب کو شامل کیا گیا ہے۔‘
’شوٹ سے پہلے غرارہ پہن کر سیٹ پر چلتی تھی تاکہ عادت ہو جائے‘
اس بارے میں سمیعہ ممتاز کا کہنا ہے کہ ’ویسے تو میں نے کوشش کی ہے کہ میں ویسے ہی بولوں، ویسے ہی چلوں، ویسے ہی ہاتھ ہلاؤں جیسے فاطمہ جناح کیا کرتی تھیں۔ لیکن پھر بھی جب آپ اتنی بڑی ہستی کا کردار نبھا رہے ہوں کو آپ کو بہت ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔‘
’البتہ ایک چیز ان میں عام عورتوں سے تھوڑی مختلف تھی کہ وہ لباس میں غرارارہ پہنا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ تو جلسوں جلوسوں میں بھی یہی لباس پہنتی تھیں۔ اس لباس کو پہن کر میں شوٹ سے پہلے ہی سیٹ پر چل پھر لیتی تھی تاکہ عادت ہو جائے۔‘
موجود سیاسی حالات کے تناظر میں اس سیزن کو کس طرح دیکھا جائے؟
اس سوال کے جواب میں اداکارہ سمعیہ ممتاز کا کہنا تھا کہ ’یہ پہلو خاصہ دلچسپ ہو گا۔ کیونکہ اس میں فاطمہ جناح کی سیاست کے دورکے دوران ہر سیاستدان اور فوج کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔‘
’یہی نہیں بلکہ لوگوں کو اس سوال کا جواب بھی دیکھنے کو ملے گا کہ کیا فاطمہ جناح کی موت قدرتی تھی یا پھر انھیں قتل کیا گیا۔‘
اس بارے میں ہدایتکار دانیال کہتے ہیں کہ ابھی تک کی ریسرچ کے بعد بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ فاطمہ جناح نے ہر اس شخص کی طرف قدم بڑھایا جو پاکستان کی بہتری کی بات کرتا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جہاں تک رہی بات آج کی سیاست کا ماضی کی سیاست سے موازنہ کرنا تو کتنے لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ جب محمد علی جناح 1947 میں اپنا مالابار کا گھر چھوڑ کر جا رہے تھے تو انھوں نے نہرو کو جا کر کہا تھا کہ میری یہ خواہش ہے کہ اس گھر کی حفاظت کی جائے کیونکہ میں نے یہ گھر بہت محنت سے بنایا ہے۔ اور اس گھر کے لیے نہرو آخری دم تک لڑے تھے کیونکہ حکومت اس گھر کو نیلام کرنا چاہتی تھی۔‘
وہ مزید بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’صرف یہی نہیں بلکہ گاندھی نے کہا تھا کہ پاکستان کا جو پیسہ یہاں پھنسا ہوا ہے اسے واپس کیا جائے۔‘ اسی طرح محمد علی جناح بھی ان سب سے احترام کا رشتہ رکھتے تھے۔
وہ کہتے ہیں ’ماضی میں تو اس نوعیت کی سیاست کی جاتی تھی۔ لیکن افسوس کے ساتھ آج کل ہمھیں اس قسم کا احترام اور وضع داری دیکھنے کو نہیں ملتی۔‘