کچے گوشت اور بغیر اُبلے دودھ سمیت وہ سات غذائیں جو آپ کو موت کے منہ میں لے جا سکتی ہیں

بی بی سی اردو  |  Aug 17, 2023

Getty Images

17 سالہ سٹیفنی انگبرگ ڈومینیکن ریپبلک میں چھٹیوں پر اپنے والدین کے ساتھ اچھی بھلی زندگی گزار رہی تھیں۔

اپنی فلائیٹ سے قبل انھیں اپنا پیٹ خراب محسوس ہوا، لیکن اانھوں نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی اور جب وہ جزیرے پر پہنچیں تو وہ تھوڑا بہتر محسوس کر رہی تھیں۔ تاہم رات کے وقت ان کو پھر گڑبڑ کا احساس ہوا تاہم ہسپتال پہنچنے تک ان کو دوبارہ افاقہ محسوس ہونے لگا۔

تاہم اگلی صبح تک ان کی دنیا بدل چکی تھی۔ وہ اپنی والدہ تک کو نہیں پہچان پا رہی تھیں، اُن کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، ان کے دماغ میں سوجن ہو چکی تھی اور ان کے جسمانی اعضا میں مسلسل کپکپاہٹ تھی۔

ان کے والدین انھیں ہنگامی طبی امداد کے لیے ہسپتال لے کر پہنچے جہاں ڈاکٹروں نےتصدیق کی کہ ان کی بیٹی ’ای کولی بیکٹیریل انفیکشن‘ کا شکار ہے۔ ان کی حالت سنبھلنے کے بجائے بدتر ہوتی چلی گئی، وہ کوما میں چلی گئیں یہاں تک کے ایک پادری کو اُن کے لیے دعا کرنے کی غرض سے بلایا گیا۔

سٹیفینی کی کہانی آگے بڑھانے سے پہلے ہم آپ کو یہاں پہلے یہ بتا دیں کہ اس کا پس منظر کیا ہے۔

بل مارلر ایک فوڈ سیفٹی اٹارنی ہیں جنھوں نے 30 سال تکای کولی، سلامونیا اور لسٹیریا جیسے مہلک جرثوموںسے ہونے والیفوڈ پوائزننگ سے متاثر ہونے والے افراد کی رہنمائی کی ہے۔

وہ نیٹ فلکسکی ایک نئی دستاویزی فلم میں بھی حال ہی میں نظر آئے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے ان کھانوں کے بارے میں بات کی ہے جن کے مضر اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے پرہیز کرنا چاہیے۔ اور اب واپس آتے ہیں سٹیفینی کی جانب جونیٹ فلکس کی اس دستاویزی فلم کے ستاروں میں سے ایک ہیں جو اس بات کو سامنے لائی ہیںکہ ہماری فوڈ چین میں حفظان صحت کی خرابیاں صارفین کے لیے کتنے تباہ کن نتائج کا سبب بن جاتی ہیں۔

سٹیفینی زندہ تو بچ گئیں لیکن شاید عمر بھر انھیں اس کے نتائج انھیں بھگتنے پڑیں گے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے اپنے گردوںکے افعال کو درست کرنے کے لیے ہر روز دوائیں لینا پڑتی ہیں۔‘

بل مارلر دستاویزی فلم میں کہتے ہیں کہ ’اس بات کا امکان ہے کہ ا نھیں گردے کی پیوند کاری کی ضرورت ہو گی اور انھیں ساری زندگی ڈائیلاسز پر رہنا پڑے گا۔ آپ کبھی بھی اپنی صحت کے بارے میں ایسا کچھ نہیں سننا چاہیں گے کہ آپ نے کوئی کھانا کھایا اور پھر اس کے اثرات پوری زندگی آپ کی صحت پر رہیں۔‘

سٹیفینی ان 600 ملین افراد میں سے ایک ہیں جو عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال آلودہ کھانا کھانے سے بیمار ہوتے ہیں۔ خوش قسمتی سے وہان چار لاکھ 20 ہزار افراد میں شامل نہیں ہیں جو ہر سال ایسے کھانے کھا کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

بل مارلر کے مطابقآپ جو کھاتے ہیں اس کا جائزہ لینے سے آپ کی جان بچ سکتی ہے۔ صحت مند رہنے کے لیے یہ وہ غذائیں ہیں جن سے آپ کو پرہیز کرنا چاہیے۔

کچا دودھGetty Images

مارلر نے قانونی چارہ جوئی کےدوران جو تجربہ حاصل کیا ہے اس کی وجہ سےانھوں نے کچے دودھ (بغیر اُبلا دودھ) یا کچے جوس والی مصنوعات کو ترک کر دیا کیونکہ ان اشیا میں ای کولی بیکٹیریاکا خطرہ پایا جاتا ہے جس نے اسٹیفینی کو اتنا بیمار کیا تھا۔

مارلر کے مطابق ’کچے دودھ کا صحت سے متعلق کوئی بھی فائدہ سائنسی طور پر قابل بھروسہ نہیں۔لوگ ان بیماریوں کو بھول گئے ہیں جو 19ویں صدی میں موجود تھیں اور جن کا باعث بغیر ابلا دودھ تھا۔‘

بیج سے پھوٹتی کچی کونپلیں Getty Images

مارلر خام سپراوٹ یا بیجوں سے پھوٹنے والیکچی کونپلوں کو بھی نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔

ان کھانوں کو دنیا میں فوڈ پوائزننگ کے کچھ بدترین واقعات سے جوڑا گیا ہے۔ 2011 میں میتھی کے بیجوں سے منسلک ایک وبا کی وجہ سے 900 افراد جگرکے عارضے میں مبتلا ہوئے اور اس میں 50 سے زیادہ کی اموات ہوئیں۔

ملر بتاتے ہیں کہ ’جب بیج سے باہر پودا پھوٹتا ہے تو بیج آلودہ ہو جاتے ہیں۔ جب آپ انھیں اگنے کے لیے ایک اچھے پانی کا غسل دیتے ہیں تو آپ ان میں بیکٹیریا کے پنپنے کے لیے ایک بہترین موقع دیتے ہیں۔‘

’میں فوڈ سیفٹی انڈسٹری میں کسی ایک فرد کے بارے میں نہیں جانتا جو کونپلوں کو کچا کھاتا ہے۔‘

کچا یا مناسب طریقے سے نہ پکایا گیا گوشتGetty Images

جب گوشت کا قیمہ کیا جاتا ہے تو ای کولی کی باقیاتاس میں پھیل جاتی ہیں۔ پسے ہوئے گوشت کے ساتھ گوشت کی سطح پر موجود مضر صحت بیکٹیریا اس میں گھل مل سکتے ہیں۔

مارلر کہتے ہیں کہاسی لیے گوشت کو اچھی طرح پکانا بہت ضروری ہےبصورت دیگر آپ کو شدید بیمار ہونے کے لیے بہت زیادہ بیکٹیریا کی ضرورت نہیں ہو گی۔

’تقریبا 50ای کولی بیکٹیریا آپ کو مارنے کے لیے کافی ہیں۔ ذہن میں رہے کہ ایک سوئی کی نوک پر تقریبا ایک لاکھ بیکٹریا سما سکتے ہیں۔‘

’یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے آپ دیکھ سکیں، چکھیا سونگھ سکیں۔ واحد محفوظ طریقہ یہ ہے کہ گوشت کو اچھی طرح پکایا جائے۔‘

وہ تجویز کرتے ہیں کہ ’آپ اصرار کریں کہ گوشت سے بنے برگر کو 155 ڈگری فیرن ہائٹ 155 یا 69 ڈگری سینٹی گریڈکے درجہ حرارت پر پکایا جائے تاکہ ہر قسم کے بیماری کا سبب بننے والے جراثیم کو ختم کیا جا سکے۔

وہ پھل اور سبزیاں جنھیں مناسب طریقے سے دھویا نہ گیا ہوGetty Images

نیٹ فلکس دستاویزی فلم میں فوڈ سیفٹی کنسلٹنٹ منصور صمد پور کہتے ہیں کہ ’جب آپ ہیم برگر کھاتے ہیں تو سب سے خطرناک حصہ ہیم برگر نہیں بلکہ سلاد پتہ، پیاز اور ٹماٹر ہوتا ہے۔

سنہ 2006میں پالک سے منسلک ای کولی کیایک بڑی وبا پھیلی جس میں 200 سے زیادہ لوگ بیمار ہو گئے اور امریکہ میں پانچ ہلاکتیں ہو گئیں۔

بیکٹیریل آلودگی کا پتہ کیلیفورنیا میں پالک کے فارم سے لگایا گیا تھا جس میں جانوروں کی مداخلت کی کچھ شکل تھی یعنی جانوروں کے فضلے نے پالک کو بیکٹریا سے آلودہ کر دیا تھا۔

جب انھیں کاٹ کر فیکٹری میں بھیجا گیا تو وہاں انھیں تین بار دھویا گیا مگر اس عمل کے دوران بیکٹریا محدود رہنے کے بجائے پھیل گئے اور وہاں سے ہونے والی سپلائی کےذریعے یہ جراثیم زدہ پالک ملک کے طول و عرض میں چلی گئی جس سے سینکڑوں افراد بیمار ہوئے۔

مارلر کہتے ہیں ’کیا یہ بات خطرے سے خالی نہیں کہ سلاد کو زیادہ سے زیادہ لوگ صرف اس سہولت کے لیے سنبھالیں کہ اسےدھونا نہ پڑے؟ اگر زیادہ لوگ اسے چھوتے ہیں اور یہ آلودہ ہو جاتا ہے تو یہ بہت تیزی سے پھیل جاتا ہے۔‘

کچے یا کم پکے ہوئے انڈےGetty Images

انڈوں سے خطرہ سالمونیلا کے ممکنہ انفیکشن سے آتا ہے، یہ ایک عام بیکٹیریا ہے جو اسہال، بخار، الٹی اور پیٹ میں درد کا سبب بن سکتا ہے۔ بہت کم عمر یا بہت بوڑھے لوگ اس بیکٹیریا کے انفیکشن سے شدید بیمار ہو سکتے ہیں یا مر بھی سکتے ہیں۔

حالیہ تاریخ میں انڈوں سے متعلق بہت سے تباہ کن واقعات ہوئے ہیں۔ سنہ 1988 میں ممکنہ سالمونیلا پھیلنے کے خوف نے برطانوی حکومت نے 20 لاکھ مرغیوں کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ سنہ 2010 میں اسی طرح کے ایک کیس کی وجہ سے امریکہ میں تقریباً 500 ملین انڈے تلف کیے گئے۔

مارلر کا کہنا ہے کہ اگرچہ آج کے انڈے پرانے زمانے کے انڈوں سے زیادہ محفوظ ہیں، لیکن پھر بھی احتیاط برتنی چاہیے۔

وہ خبردار کرتے ہیں کہ سالمونیلا اب بھی کچے یا کم پکے ہوئے انڈوں کے صارفین کے لیے ناقابل قبول خطرہ ہے۔

10 ہزار میں سے ایک انڈے کے خول کے اندر سالمونیلا ہوتا ہے۔ مرغی اپنی بیضہ دانی میں سالمونیلا پیدا کر سکتی ہے جو وہاں سے انڈے میں داخل ہو جاتا ہے۔

خام سِی فوڈGetty Images

سیپ اور دیگر شیلفش کے ساتھ خطرہ یہ ہے کہ انھیں فلٹر کی طرح (سالم) کھایا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پانی میں بیکٹیریل یا وائرل انفیکشن ہے تو یہ یقینی طور پر فوڈ چین میں آسانی سے داخل ہو جائے گا۔

مارلر کا خیال ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے مسئلہ مزید بڑھ رہا ہے۔

’گرم سمندروں کے ساتھ سیپ سے متعلق آلودگی کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے: ہیپاٹائٹس، نوروائرس، وغیرہ۔ میں سیئٹل سے ہوں، اور دنیا کے کچھ بہترین سیپ شمال مغربی امریکہ سے آتے ہیں، لیکن واضح طور پر ہمارے پانی کے معیار اور درجہ حرارت سے متعلق مسائل ہیں۔ یہ ایک نیا خطرے کا عنصر ہے جسے آپ کو ان کچے سیپوں کا آرڈر دیتے وقت ذہن میں رکھنا پڑتا ہے۔‘

پیک شدہ سینڈوچز

مارلر مشورہ دیتے ہیں کہ ’آپ کو ان سینڈوچز پر احتیاط سے تاریخیں چیک کرناچاہییں۔ کوشش کریں کہ وہ کھانا کھائیں جو یا تو آپ خود بناتے ہیں یا آپ کے سامنے تیار کیا جاتا ہے۔‘

مارلر کہتے ہیں کہ جتنا پرانا بنایا گیا سینڈوچ ہو گا، اتنا ہی اس کے اندر خطرناک بیکٹیریا، لیسٹیریا مونوسیٹوجینز کی موجودگی کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ اور دنیا بھر میں سب سے بڑے ’قاتلوں‘ میں سے ایک ہے، اوراس کو کھانے والا تقریباً ہر شخص ہسپتال کا رُخ کر سکتا ہے۔

لیسٹیریا ریفریجریٹر کے درجہ حرارت میں بہت اچھی طرح بڑھتا ہے، لہذا اگر کوئی آپ کو سینڈوچ بنا کر دیتا ہے اور آپ اسے تقریباً فوراً کھا لیتے ہیں، تو لیسٹیریا کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ اگر وہ اسے بناتے ہیں اور آپ اسے کھانے سے پہلے ایک ہفتہ تک فریج میں رکھتے ہیں، تو اس سے لیسٹیریا کےجرثومے کو اتنی تعداد میں بڑھنے کا موقع ملے گا کہ وہ آپ کو بیمار کر دیں۔‘

سوشی کتنی محفوظ ہے؟Getty Images

ایک قسم کا کھانا جس کے بارے میں لوگ اکثر شکوک و شبہات کا شکار رہتے ہیں وہ ہے سوشی۔

مارلر کو اس کی اتنی فکر نہیں حالانکہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کو محتاط رہنا ہو گا کہ آپ اسے کہاں سے خریدتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’میں سٹیک ریسٹورنٹ سے زیادہ اکثر اچھے سوشی ریسٹورنٹ میں جاتا ہوں۔ مچھلی سے آلودگی کا خطرہ اتنا زیادہ نہیں ہوتا۔‘

’میں کارنر سٹور یا گیس سٹیشن سے سوشی نہیں خریدتا۔ ایک اچھا سوشی ریستورینٹ کافی محفوظ ہوتا ہے، کیونکہ مچھلی کو بیکٹیریل انفیکشن کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ یہ ایک رسک پروفائل ہے جس سے میں بہت واقف ہوں اور اس حوالے سے مطمئن ہوں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More