BBC
’بائیس قدم‘ پاکستانی ڈراموں کی تاریخ کا شاید پہلا ڈرامہ ہے جس کی کہانی سپورٹس خصوصاً لڑکیوں کے کرکٹ کھیلنے جیسے سنجیدہ موضوع کے گرد گھومتی ہے۔
پروڈیوسر اور اداکارہ حریم فاروق کہتی ہیں کہ سکرپٹ پڑھتے ہی اُن کا پہلا ردعمل تھا کہ وہ ہی یہ کردار کریں گی۔انھوں نے کرکٹ کی باقاعدہ ٹریننگ لی تاکہ وہ یہ کردار بھر پور انداز سے پیش کرسکیں۔
حال ہی میں پاکستانی ٹی وی سکرینز پر ایک نیا چینل گرین انٹرٹینمنٹ لانچ کیا گیا ہے جس پر نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل ’بائیس قدم‘ کو شائقین میں کافی مقبولیت مل رہی ہے۔
اس ڈرامہ میں اداکارہ حریم فاروق کے ساتھ وہاج علی، کنزہ رزاق، علینہ عباس، دُرِ نایاب، سلیم معراج اور ندا ممتاز وغیرہ شامل ہیں۔
یہ ڈرامہ ذیشان الیاس نے لکھا ہے، انجم شہزاد ہدایت کار ہیں جبکہ عمران رضا کاظمی اور حریم فاروق نے مل کر پروڈیوس کیا ہے۔
’فرحین میں ایک ڈھٹائی ہے‘
ڈرامہ سیریل ’بائیس قدم‘ فرحین نامی نوجوان لڑکی کی کہانی ہے جو تمام تر مشکلات کے باوجود ایک کرکٹر بننے کے خواب دیکھتی ہے اور اُس کو کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ ساتھ ساتھ اس میں ایک مرد کرکٹر کو بھی دِکھایا گیا ہے جو اپنا خواب حاصل کرنے کے سفر میں کئی رکاوٹوں کا سامنا کرتا ہے۔ یہ کردار وہاج علی نے ادا کیا ہے۔
اداکارہ حریم فاروق کے الفاظ میں ’بائیس قدم‘ کی کہانی اپنے جنون اور خوابوں کو پورا کرنے کے بارے میں ہے۔‘ انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’یہ بات نرگسیت سے بہت قریب لگے گی لیکن فرحین کی بہت سی چیزیں اُنھیں اپنے اندر بھی دِکھائی دیں۔‘
’خاص طور پر اپنا خواب پورا کرنے کے حوالے سے۔ فرحین میں ایک ڈھٹائی ہے کہ میں نے کرنا ہے تو میں نے کرنا ہے۔‘
بی بی سی اردو کے ساتھ انٹرویو میں انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ سپورٹس کی اتنی بڑی فین نہیں تھیں لیکن اپنے والد کے ساتھ کرکٹ میچز دیکھنے کی وجہ سے ان کا کرکٹ سے جذباتی لگاؤ رہا ہے خصوصاً جب انڈیا پاکستان کا میچ ہو تو۔
’جب میں نے یہ (کرکٹ) سیکھی تو الگ طرح کا لگاؤ ہوا۔ پھر میں نے کہنا شروع کردیا کہ ابو یہ بال دیکھ رہے ہیں، یہ یارکر تھی یارکر! ہماری ٹیم نے دنیا میں ہمارا بہت نام بنایا ہے اور بہت عزت دلوائی ہے۔ کرکٹ کھیلنے کے بعد میرے دل میں اُن کی بہت عزت بڑھ گئی ہے۔‘
ثنا میر کا ایک سوال: ’کیا والد سپورٹ کرتے ہیں؟‘
پروڈیوسر اور اداکارہ حریم فاروق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سکرپٹ لکھتے وقت ویمن کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان ثنا میر وہ پہلا نام تھا جو ذہن میں آیا اور انھوں نے صرف یہ جاننے کے بعد پراجیکٹ کے لیے ہاں کر دی کہ مرکزی کردار کے والد لڑکی کو سپورٹ کرتے ہیں۔
حریم فاروق کے بقول ’انھوں نے مجھ سے بہت سیدھا سا سوال کیا کہ آپ ڈرامے میں جو والد دِکھا رہے ہیں کیا وہ سپورٹ کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ سو فیصد۔‘
’تو انھوں نے کہا کہ اوکے میں یہ پراجیکٹ کروں گی۔ وہ اس بارے میں کافی فکرمند تھیں۔ انھوں نے کچھ نہیں پوچھا کہ میں کیا پہنوں گی اور کیسی لگوں گی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ثنا میر کے ہونے کا مطلب تھا کہ یہ پراجیکٹ سرٹیفائیڈ ہو گیا۔ جب میں ٹریننگ کر رہی تھی تو وہاں بہت سی نوجوان لڑکیوں کے لیے ثنا میر ایک رول ماڈل تھیں۔‘
حریم نے مزید بتایا کہ اداکار نہ ہونے کی وجہ سے ثنا میر کے لیے تین دن کا شوٹ رکھا گیا تھا جو انھوں نے ایک دن میں پورا کر لیا۔
’وہاج نے چکھنا ضرور ہے‘
حریم فاروق، وہاج علی کو ایک بہادر اداکار کہتی ہیں۔ ان کے بقول وہاج نے ایک دفعہ بھی یہ نہیں سوچا کہ یہ کہانی ایک عورت کےگرد گھومتی ہے۔
’اُس نے دیکھا اور کہا کہ یہ تو زبردست سکرپٹ ہے اور مجھے اچھا لگا کہ اس میں سارے مرد کردار سپورٹ کر رہے ہیں اور اُس نے بڑے دل سے نبھایا۔‘
سیٹ کے ماحول کی بات ہوئی تو انھوں نے وہاج علی کے لطیفوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’اُن کی حس مزاح بہت شاندار ہے۔ میں تو اُس کو کہتی ہوں یار تمھاری جُگتیں ہیں، ٹائمنگ ہے۔ وہ آپ کو ہنسا سکتا ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’آپ اگر اپنا کھانا کھا رہے ہیں اور وہاج وہاں پر بیٹھا ہوا ہے تو آپ اکیلے نہیں کھا سکتےکیونکہ وہاج نے چکھنا ضرور ہے کہ کیا ہے یہ دِکھاؤ یہ کیا کھا رہی ہو؟ تو پھر آپ خود ہی پوچھ لو گے کہ وہاج کھاؤ گے؟ چیک کرو گے کہ کیا ہے؟‘
’تم کس پروفیشن میں جارہی ہو، اس میں تو عزت ہی نہیں ہے‘
’بائیس قدم‘ کی فرحین گلی محلے اور عام میدانوں میں کرکٹ کھیلتی اور لڑکوں سے شرطیں لگاتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان میں عموماً لڑکیاں گلی، محلوں و سڑکوں حتیٰ کہ میدانوں میں بھی کم ہی نظر آتی ہیں۔
حریم کو بھی اس حقیقت کا احساس ہے اور وہ کہتی ہیں کہ یہ بڑے دکھ کی بات ہے لیکن ایسا ہے۔
’میں سمجھتی ہوں کہ ابھی بھی منفی باتیں ہوتی ہے، ابھی بھی لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خواتین سپورٹس میں جائیں گی تو اس میں یہ مسئلے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اس پراجیکٹ کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس بیانیے میں نرمی لائی جائے اسے بدلا جائے کہ سپورٹس بری چیز ہے یا عورتوں کا زندگی میں ایک مخصوص کام ہے سپورٹس تو ہر کسی کے لیے ہے۔‘
عوامی جگہوں پر عورتوں کے کم نظر آنے کی بات ہوئی تو پڑوسیوں اور محلہ داری کلچر کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے وہ کہنے لگیں کہ ’بہت ساری لڑکیاں ہوتی ہیں جو باہر نکلتی ہیں اور کھیلتی ہیں محلوں میں۔‘
’اب حال ہی میں میں نے نوٹ کیا ہے کہ یہ چیز کم ہو گئی ہے۔ ورنہ مجھے یاد ہے جب میں چھوٹی ہوتی تھی تو ہم لوگ روز شام کو سائیکلنگ کرنے جایا کرتے تھے، ساتھ والی گلی میں کرکٹ چل رہی ہوتی تھی ہم وہاں جا کے بھی بیٹھ جایا کرتے تھے۔‘
ڈرامہ میں ایسے مناظر بھی دکھائے گئے ہیں جن میں فرحین کو عورت ہونے کی وجہ سے کئی لوگ باتیں سنا رہے ہیں کہ یہ کھیل عورتوں کا نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔
میں نے حریم سے پوچھا کہ کیا فرحین کی طرح اپنے پروفیشن کی وجہ سے بھی اُنھیں ایسی کوئی بات سننا پڑی تو وہ جھٹ سے بولیں کہ ہاں بہت ساری۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’میں جب ایک ادکارہ بننا چاہتی تھی تو کہا گیا کہ ہیں؟ کیا؟ کیوں؟۔ میں نے کہا کہ کیوں نہیں؟ جب میرے ماں باپ رضامند ہو گئے اور سپورٹ کیا تو پھر اس کے آگے مجھے کچھ نظر نہیں آیا۔‘
’مجھے بہت سے لوگوں نے کہا کہ تم کس پروفیشن میں جا رہی ہو۔ اس پروفیشن میں تو عزت ہی نہیں ہے تو میں نے کہا کہ عزت دینے والا تو میرا رب ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’آپ گھٹیا سے گھٹیا جگہ پر بیٹھے ہوں گے اُس نے آپ کو عزت دینی ہو گی تو وہ دے گا۔ وہ تو مسئلہ ہی نہیں ہے۔‘
حریم کہتی ہیں کہ ’ہم نے عزت کواتنا بڑا مسئلہ کیوں بنایا ہوا ہے۔ کس چیز پر بنایا ہوا ہے۔ ہماری ساری عزت آ کے عورتوں پر کیوں ختم ہو جاتی ہے۔ عزت تو سب کے لیے ہے اور سب کی ہے۔ تو اُس کے لیے صرف ایک صنف ذمہ دار کیوں ہے۔‘
شوٹ کے وقت بارش: ’اس دن احساس ہوا کہ کس طرح ہر کوئی دل و جان سے کام کر رہا ہے‘
حریم فاروق نے بتایا کہ گرمی اور بڑی کاسٹ کے چیلنجز سمیت یہ پراجیکٹ شوٹ کرنا ذاتی سطح پر ان کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا کیونکہ شوٹ سے ایک ماہ پہلے ٹریننگ کے دوران وہ ہیمٹسرنگ انجری کا شکار ہو گئیں تھیں اور بغیر سہارے کے چل پھر نہیں سکتی تھیں۔
بی بی سی کے ساتھ انٹرویو کے دوران وہ بار بار اپنی ٹیم کا شکریہ ادا کرتی رہیں جنھوں نے شوٹ کے دوران اُن کا بے حد خیال رکھا اور جوش و جذبے سے کام مکمل کیا۔
اسی گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ایک روز وہ صبح چھ بجے شوٹ پر پہنچیں تو تیز بارش شروع ہو گئی جو چار گھنٹے جاری رہی لیکن پھر بھی ٹیم نے فیصلہ کیا کہ شوٹ کرتے ہیں، مزہ آئے گا۔
حریم کے بقول ’اُس دن احساس ہوا کہ کس طرح ہر کوئی دل، جان اور روح کے ساتھ اس میں کام کر رہا تھا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’میں اور وہاج گراؤنڈ میں بھاگے جا رہے تھے اس بات کی پرواہ کیے بغیر کام کر رہے ہیں کہ بارش ہو رہی ہے، میک اپ ہوا ہے یا نہیں، کپڑے ٹھیک پہنے ہیں یا نہیں، بس یہ ہے کہ یہ ہمیں کرنا ہے۔
’مجھے تو ویسے ہی بارش بہت پسند ہے تو میرے لیے تو یہ خواب کی تعبیر جیسا تھا کہ ہم بارش میں شوٹ کر رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ ایک ساڑھی بھی چاہیے مجھے، وہ بھی لے آؤ۔ لیکن وہ کیریکٹر نہیں تھا۔‘
’بائیس قدم‘ پر لوگوں کے فیڈ بیک کے سوال پر انھوں نے شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’ریلیز ہونے سے پہلے میں بہت نروس تھی کیونکہ اس پروجیکٹ میں اتنی دل و جان لگی ہوئی ہے۔
’تو جب بھی کچھ اچھا پڑھتی ہوں تو میری آنکھوں میں آ نسو آجاتے ہیں۔‘