پانی پر بنی پناہ گزینوں کی رہائش گاہ: ’دھمکی دی گئی کہ اگر ہم یہاں آنے پر راضی نہ ہوئے تو ہماری مدد بند کر دی جائے گی‘

بی بی سی اردو  |  Aug 10, 2023

Getty Images

برطانیہ کے جنوب مغرب میں واقع جزیرے پورٹ لینڈ پر پانی کی لہروں میں ڈولتے ’ببی سٹاک ہوم‘ میں پناہ گزینوں کے پہلے گروہ نے قیام کیا ہے۔

ببی سٹاک ہوموہ بحری جہاز ہے جس پر برطانیہ میں پناہ کے متلاشیوں کے لیے رہائشگاہ بنائی گئی ہے۔ برطانوی حکومت کے منصوبے کے مطابق بڑے سائز کے اس بحری جہاز پر کم از کم500 افراد کو 18 ماہ تک رکھا جا سکتا ہے۔

ببی سٹاک ہوم میں سوار ہونے والے مردوں کے پہلے گروپ نے پانی میں تیرتی اس رہائشگاہ میں اپنے پہلے 24 گھنٹوں کو بی بی سی کے ساتھ شیئر کیا۔

ایسے ہی ایک تارکین وطن نے بی بی کو بتایا کہ یہ جگہ ایک جیل کی طرح ہے، جس میں حکومت کے دعوے کے برعکس 500 افراد کی رہائش ناممکن ہے۔

پورٹ لینڈ کی بندرگاہ پر اس بحری جہاز پر بنائی گئی یہ رہائشگاہ حکومت کے ایک اہم منصوبے کا حصہ ہے جو پناہ کے متلاشیوں کے لیے رہائش کے اخراجات کو کم نے سے متعلق ہے۔

برطانیہ کے ہوم آفسکے مطابق بحری جہاز پر پناہ گزینوں کی رہائش گاہ بنانا دراصلٹیکس ادا کرنے والوں کے لیے بھی ایک بہتر آپشن ہے کیونکہ چھوٹی کشتیوں کے ذریعے سیاسی پناہ لینے والوں کی بڑھتی تعداد سے سسٹم پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

اس جہاز میں 18 سے 65 سال کی عمر کے مرد پناہ گزینوں کو ٹھرایا جائے گا جو اپنیدرخواستوں کے حل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔

’یہاں الکاٹراز جیل جیسا ہی محسوس ہوتا ہے‘Getty Images

ایک افغان پناہ گزین (جن کی شناختظاہر نہیں کی جا رہی) نے بتایا کہ ’بھاری تالوں کا شور اور سکیورٹی چیک مجھے یہ احساس دلاتے ہیں کہ میں الکاٹراز جیل میں جا رہا ہوں۔‘

’میرے روم میٹ کو آدھی رات کو گھبراہٹ کا دورہ پڑا اور اسے لگا جیسے اس کا دم گھٹ رہا ہے۔ ہمارے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں یہاں کے ڈاکٹرز نے ڈپریشن کے لیے ادویات دی تھیں۔‘

پناہ کے متلاشی افغان شہری نے مزید بتایا کہ انھیں ایک چھوٹا کمرہ دیا گیا تھا جبکہ کھانے کے کمرے میں 150 سے بھی کم لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔

’جیل کی طرح اس جہاز میں داخلی اور خارجی دروازے موجود ہیں۔ یہاں آنے کے لیے مخصوص گھنٹوں میں ایک مخصوص بس لینا پڑتی ہے جو ایک طویل سفر کے بعد ہمیں ایسی جگہ پر چھوڑ دیتی ہے، جہاں ہمیں پیدل چلنا پڑتا ہے۔ ہمیں یہ سب بہت عجیب لگتا ہے۔‘

ببی سٹاک ہوم پر دن کے 24 گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن سکیورٹی ہوتی ہے۔ پناہ کے متلاشیوں کو شناختی کارڈ دیے جاتے ہیں اور انھیں آمدورفت کے لیےہوائی اڈے کی طرز کے سکیورٹی سکینرز سے گزرنا پڑتا ہے ۔

سیکورٹی وجوہات کی بنا پر پناہ گزینوں کو بندرگاہ سے باہر نکلنے کے لیے مخصوص بس لینا لازمہے۔ اگرچہ وہاں کوئی کرفیو نہیں لیکن اگر وہ واپس نہیں آتے ہیں تو ان کے لیے ’الرٹ کال‘ جاری کی جاتی ہے۔

Getty Imagesپانی پر تیرتی رہائشگاہ اندر سے کیسی ہے؟

تارکین وطن کے پہلے گروہ کے وہاں مکین بننے سے پہلے چند صحافی ببی سٹاک ہومکا دورہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔

ان کے مطابقجہاز پر بنی یہ پناہ گاہ اندر سےپرانے موٹیل (ہوٹل) کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ اس جہاز میں کل 222 کیبن تھے۔

جب اندر داخل ہوں تو ایک لمبی راہداری نسبتاً کشادہ کیبن کی طرف لے جاتی ہے جس میں ایک میز، الماری، تجوری،ٹیلی ویژن اور بڑی کھڑکیاں موجود ہیں۔ ہرکمرے میں دو منزلہ بستر (بنک بیڈ) لگائے گئے تھے۔

ہر کمرے میں ایک باتھ روم بھی ہے جس میں نہانے کے لیے شاور بھی لگا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ببی سٹاک ہوم کی تینوں منزلوں میں چنداضافی سہولیات بھی موجود ہیں۔

وہاں ایک ٹی وی لاؤنج بھی ہے جس میںٹی وی سکرین کے سامنے اور اطراف صوفے لگائے گئے ہیں۔ ایک عبادت کا کمرہ اور ایک مطالعے کی جگہبھی موجود ہے جسے مہمانوں سے ملاقات اور دیگر سرگرمیوں کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

ان گنجائش والے کمروں کے علاوہ بہت سے کامن رومز کو چار سے چھ افراد کی رہائش کے لیے بھی تیار کیا گیا ہے تاہم اس جگہ صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

کھانے کا کمرہ بڑا ہے، کھانے کے لیے ایک لمبا کاؤنٹر اور چھ کرسیوں والی میزیں قطاروں میں رکھی ہوئی ہیں۔

جس دن وہاں صحافیوں نے دورہ کیا اس دن وہاں کھانے کا مینیو شاندار رکھا گیا، جس میںمیں انڈے اور پین کیکس پر مشتمل ناشتہ فراہم کیا گیا جبکہ دوپہر کے وقت آلو کا سوپ اور رات کو بیف سٹیو( قورمہ) مینیو میں شامل تھا۔

حکام نے یقین دلایا کہ کھانے کا مینیو باقاعدگی سے تبدیل ہو گا اور ہر فرد کی انفرادی ضروریات اور مذہبی روایات کو مدنظر رکھا جائے گا۔

صحت اور قانونی مدد

برطانیہ کے ہوم آفس کے مطابق اس منصوبے کے تحت پناہ کے متلاشیوں کو بنیادی صحت کی دیکھ بھال اور تفریحی سرگرمیاں فراہمکی جائیں گی جس سے فلاح و بہبود کو فروغ ملے گا۔

تارکین وطن کو مدد فراہم کرنے والےخیراتی ادارے ’کیئر فار کلیئس‘ (Care4Calais) نے کہا کہ وہ 20 دیگر پناہ گزینوں کو قانونی مدد فراہم کر رہا ہے، جنھوں نے پورٹ لینڈ جانے سے انکار کر دیا تھا اور اب فیصلے کا انتظار ہے۔

ٹریژری اکنامک سکریٹری اینڈریو گریفتھس نے منگل کوبتایا کہ’بحری جہاز پر بنی اس رہائشگاہمیں رہنے کے سوا ان کے پاس دوسرا راستہ نہیں کیونکہ اگر وہ انکاری ہوں گے تو انھیں پناہ گزین امدادی نظام سے باہر کر دیا جائے گا اورپھر ان کے پاس متبادل رہائش کا حق بھی نہیں رہے گا۔‘

افغان پناہ گزین نے کہا کہ ’ہم میں سے بہت سے لوگ 9 سے 11 ماہ قبل برطانیہ میں بذریعہ ہوائی جہاز داخل ہوئے تھے۔ ہم میں سے کچھ نے ہوائی اڈے پر پناہ کی درخواست دی تھی اور ہم کشتی کے ذریعے نہیں آئے تھے۔‘

افغان شہری کے مطابق ’دو ہفتے پہلے ہمیں ایک خط موصول ہوا جس میں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر ہماس رہائش گاہ میں آنے پر راضی نہیں ہوئے تو وہ ہماری مدد اور این ایچ ایس(برطانیہ کا صحت کا ادارہ) تک رسائی بند کر دیں گے۔ ہمارے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جوپابندی سے ادویات لیتے ہیں اس لیے ہمیں ان کا فیصلہ قبول کرنا پڑا۔‘

پیر کے روزبحری جہاز پر بنی اس رہائش گاہ میں آنے والے ایک اور شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ وہچھ ماہ قبل بذریعہ جہاز برطانیہ آئے تھے جبکہ ان کی اہلیہ ابھی تک ایران میں ہیں۔

اس شخص نے (شناخت ظاہر نہ کیے جانے کی درخواست کے ساتھ) بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے بہترین ناشتہ کیا جس میں انڈے، پنیر، جام اور مکھن شامل تھا۔

Getty Imagesحکومت کیا کہتی ہے؟

برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کی حکومت کا دعویٰہے کہ 50 ہزار سے ذیادہ تارکین وطن کو ہوٹلز میں قیام کروانے کے لیے حکومت یومیہ سات ملین ڈالرز سے ذیادہ خرچ کر رہی ہے۔

ہوم آفس کے ایک ترجمان نےبتایا کہ ’یہ حکومت کے ان اقدامات کی نشاندہی کرتا ہے جو مہنگے ہوٹلوں کے استعمال کو کم کرنے اور ذیادہ منظم اور پائیدار نظام کی طرف جانے کا عزم لیے ہوئے ہے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی رہائش کے متبادل انتظامات کی فراہمی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’یہ ایک آزمایا ہوا اور آزمودہ طریقہ ہے جو ہمارےپڑوسی سکاٹش حکومت نے بھی اختیار کیا۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جو برطانوی ٹیکس دہندگان کے لیے بھیفائدہ مند رہے گا۔‘

حکومت کا ہدف ہے کہ آنے والے مہینوں میں تقریباً تین ہزار پناہ کے متلاشیوں کو ہوٹلوں کےبجائے متبادل رہائش گاہیں فراہم کی جائیںجیسا کہ بحری جہاز اور سابق فوجی عمارتوں میں بنائے جانے والے گھر۔

Getty Images

اور جہاں تک بات ہے پورٹ لینڈ کے رہائشیوں کی تو وہ برطانوی حکومت کے اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں خدشاتشکار ہیں اور سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی فلاح و بہبود اور مقامی خدمات پر مبنی اس منصوبے کو مسترد کرتے ہیں تاہم علاقے کے رہائشی ان کے استقبال کے لیے پرعزم ہیں اور انھوں نے پناہ گزینوں کی خیر سگالی کے لیے ایک مقامی سپورٹ گروپ بنایا ہے۔

سب سے پہلے پہنچنے والے گروہ نےمقامی رہائشیوں کی طرف سے تحفے میں دی گئی کٹس وصول کیں، جن میں بیت الخلا میں استعمال کی جانے والی اشیائے ضروریہ، علاقے کا نقشہ، نوٹ بک، قلم اور رضاکار گروپ کے فون نمبرز شامل تھے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More